ارشادِ ربانی ہے:’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک
دوسرے کے رفیق ہیں‘‘۔ دوستی کی بنیاد پروہ : ’’بھلائی کا حکم دیتے اور
برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس
کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔ اس رویہ کا صلہ یہ ہے کہ :’’ان پر اللہ کی
رحمت نازل ہو کر رہے گی۰۰‘‘۔ اس برعکس: ’’منافق مرد اور منافق عورتیں سب
ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں
اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں ‘‘۔ منافقین کے درمیان بھلائی کو
روکنا اور برائی کو پھیلانا قدرِ مشترک ہے کیونکہ :’’ یہ اللہ کو بھول گئے‘‘۔
اس کے نتیجے میں :’’ اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا یقیناً یہ منافق ہی فاسق
ہیں‘‘۔ یعنی وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوگئے۔ دوستی کی مانند دشمنی کے تعلق
سے بھی اہل ایمان اور دیگر اقوام کا فرق آنکھوں سے اوجھل ہوجائے تو اپنی
دینی ذمہ داریوں کا احساس ہم سے کہلواتا ہے کہ ہماری کسی سے دشمنی نہیں
ہےحالانکہ فرمانِ قرآنی ہے : ’’اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو
دوست نہ بناؤ ۰۰۰‘‘۔
صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کا عمرہ ایک سال کے لیے مؤخر ہوگیا تو دیگر
لوگوں کو قربانی کے مویشیوں کے ساتھ خانۂ کعبہ کی جانب روں دواں دیکھتے
ہوئے اہل ایمان کا غصہ ایک ایسافطری امر تھا جو ردعمل کا موجب بن سکتا تھا
۔ اس موقع پرفرمایا گیا :’’ ۰۰۰جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا ان
کی دشمنی تمہیں اس بات پر آماده نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ ‘‘۔ ساتھ ہی یہ
حکم بھی دیا گیا کہ:’’نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو
اور گناه اورظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو ‘‘۔ یعنی جہاں نیکی کے کاموں میں
دشمنوں تک کا تعاون کیا جائے گا وہیں بدی کے ارتکاب میں دوستوں کا بھی ساتھ
نہیں دیا جائے گا ۔ اس آیت کا اختتام تقویٰ کی تلقین اور سزائے الٰہی کی
تذکیر پر ہے: ’’ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا
دینے والا ہے‘‘۔ عصرِ حاضر میں الہامی ہدایات کی منکر مگر مادی اعتبار سے
ترقی یافتہ نام نہاد مہذب قومیں حق و باطل کو بالائے طاق رکھ کر ہر معاملے
میں دوست کی حمایت اور دشمن کی مخالفت کرتی ہیں۔ دوست کے ہر موقف کی تائید
اور دشمن کی اندھی تردید میں یقین رکھتی ہیں۔ دوستوں کی خوشنودی کے لیے
دشمنوں پر ظلم وجبر روا رکھنے اور ان کے حقوق کو پامال کرنا مستحب سمجھتی
ہیں ۔
اسلام کا معاملہ اس سے نہ صرف مختلف بلکہ متضاد ہے۔ اہل ایمان کے لیے نہ تو
دوستوں کی غیر مشروط حمایت اور نہ دشمنوں کے حقوق کی بے دریغ پامالی جائز
ہے ۔ ان پردشمن سے رابطہ رکھنا، اس کو دعوت دینا ، اس کے ساتھ حسن سلوک اور
حقوق کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں دشمن بہترین دوست بنیں یا نہ
بنیں ہمارے لیے اپنی دینی ذمہ داری کو ادا کرنا لازمی ہے۔ فرمانِ قرآنی
ہے:’’نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی لہٰذا تم برائی کا جواب بہترین
طریقہ سے دو کہ اس طرح جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا
ہوجائے گا جیسے گہرا دوست ہوتا ہے‘‘۔ اسلام دشمنوں کو دوست بنانے کا طریقہ
بتاتا ہے اور اس کی ترغیب دیتا ہے لیکن دشمن کا دوست بن جانا اس حقیقت کا
اعتراف ہے کہ رفاقت سے قبل رقابت تھی۔ یہ اعلان کہ کوئی دشمن نہیں ، ایسا
ہی ہے جیسے بھاگوت کا کہہ دینا کہ وطن عزیز میں سارے ہندو ہیں کیونکہ اس کے
باوجود مسلمان اور دیگر اقوام ہندو نہیں بن جاتے۔ اس لیے دشمن کی حیثیت کو
تسلیم کرکے اپنے حسن ِ سلوک سے اسے دوست بناناکمال ہے۔ سیرت رسول ﷺ میں
ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں دشمنانِ اسلام آپؐ کے رفیق کار بن گئے۔
ویسے فی زمانہ اپنی کج روی سے دوستوں کو دشمن بنالینا نہایت آسان اور عام
ہے۔
عبداللہ بن مسعود ؓ کے مطابق قریش نے رسول اللہ ﷺکی بات نہ مانی اور
شرارتوں پر کمر باندھی تو آپ نے یوں بددعا فرمائی کہ اے اللہ ان پر سیدنا
یوسف ؑ کے زمانہ کی طرح سات سال کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔ آخر ان پر
ایسا سخت قحط نازل ہوا کہ وہ ہڈیاں اور مردار تک کھانے لگے یہاں تک کہ ان
میں سے اگر کوئی شخص بھوک کی شدت میں آسمان کی طرف دیکھتا تو ایک دھواں سا
دکھائی دیتا۔ اس وقت ابو سفیان نےآپؐ سے گہار لگائی : محمدؐ تمہاری قوم
ہلاک ہو رہی ہے، دعا کرو اللہ یہ قحط ختم کر دےاور مشرک بھی کہنے لگے :
پروردگار ہم پر یہ عذاب دور کردے۔ ہم ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا۔ دیکھو جب عذاب موقوف ہوگا تو یہ لوگ پھر شرک کرنے لگیں گے۔۔ آپ ؐنے
دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے عذاب اٹھا لیا تو وہ پھر کفر شرک کرنے لگے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ’’خیر ہم تھوڑی دیر کے لئے عذاب کو
ہٹالیتے ہیں لیکن تم پھر وہی کرنے والے ہو جو کررہے ہو۔ ایک دن آئے گا جب
ہم سخت قسم کی گرفت کریں گے کہ ہم یقینا بدلہ لینے والے بھی ہیں ‘‘۔ گرفت
سے مراد بد ر اور قیامت لیے گئے ہیں۔ اہل ایمان پر دشمنانِ اسلام کے ساتھ
اسوۂ رسول ﷺ کی پیروی لازم ہے۔ اس میں اپنی پسند سے کمی بیشی کی گنجائش
نہیں ہے۔ |