والدین دنیا کی انمول نعمت ہیں۔قرآن مجید
میں والدین کی اہمیت کااظہارتکرار کیساتھ ملتا ہے۔ خاندانی نظام،نکاح،
ازدواجی تعلقات، نان و نفقہ، طلاق، عدت، بچوں کی پرورش ، والدین اور بچوں
کے حقوق و ذمہ داریوں کے حوالہ سے دین اسلام مسلمانوں کی مفصل انداز میں
رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور فطری تقاضوں اور خاندانی نظام کو
قائم کرنے کے لئے نکاح جیسی عظیم سنت کی پیروی کی جاتی ہے۔ اور نکاح اس نیت
سے کیا جاتا ہے کہ زوجین کے تعلقات دائمی نوعیت کے ہونگے، بہرحال کبھی نہ
کبھی انسانی رویوں، معاشی، معاشرتی حالات، خاندانی مسائل کی بناء پرنکاح پر
قائم زوجین کا باہمی بندن طلاق پر ٹوٹ جاتا ہے۔ دین اسلام میں طلاق جائز
مگر ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ طلاق کی صورت میں بچوں کی پرورش اور
کسٹڈی کے مسائل ہمیشہ ہی سے قابل ذکر معاملات رہے ہیں۔پاکستانی عدالتوں میں
ہر روز ہزاروں کی تعداد میں بچوں کی کسٹدی جیسے مقدمات زیر سماعت ہورہے
ہوتے ہیں۔ عمومی طور پرکم عمر اور کم سن بچوں کی بہتر پرورش کی خاطر بچوں
کی کسٹڈی بچوں کی ماں کے حوالہ کی جاتی ہے۔ اوربچوں کی باپ سے ملاقات کے
لئے مخصوص اوقات مہیاکئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے
کہ عورتوں اور بچوں کے حقوق کے لئے این جی اوز متحرک نظر آتی ہیں۔شاذونادز
ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ مردوں کے حقوق کے حوالہ سے کوئی تنظیم منظر
عام پر آئے اور مردوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرے۔آج ایسی ہی اک تنظیم
کا ذکر کرتے ہیں، جو والد کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے تگ و دو کررہی
ہے۔"وائس آف فادرز پاکستان" جیسا کہ نام ہی سے ظاہر کہ یہ تنظیم والد کے
حقوق کے لئے اپنی آواز کو بلند کررہی ہے۔عثمان مقبول رانا اس تنظیم کے
بانی ہیں ۔تنظیم کے ممبران کا تعلق پاکستان کے تمام صوبوں سے ہے اور ممبران
کی تعداد تقریبا تین ہزار ہے۔ تنظیم کا کوئی باقاعدہ آفس نہیں ہے ۔لیکن
سوشل میڈیا کی بدولت اسکے ممبران باہمی روابط استوار کئے ہوئے ہیں۔ یہ
تنظیم گاہے بگاہے سوشل میڈیا اور سرکاری دفاتر، کچہری، اعلیٰ عدلیہ کے
سامنے والد کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی رہتی ہے۔ تنظیم کا مقصد نہ صرف
والد کے حقوق کی ترجمانی کرنا ہے بلکہ صلح مابین زوجین ! پاکستان بڑھتی
ہوئی طلاق اور خلع روکنے کی کوشش کرنا بھی تنظیم کے اولین مقاصد میں شامل
ہے۔ بلا کسی فیس اور اور معاوضہ میاں بیوی کے باہمی رویےکو بہتر بنانا، فری
کونسلنگ کرنا کہ جاذبیت پیدا ہو جائے ایک دوسرے کو معاف کریں اگر کسی طرح
کے مسائل اور تنگی ہے تو اسے صبر اور تحمل سے کام لیں۔زوجین اپنے مقدس تعلق
کو اہم سمجھیں ۔تنظیم کی کاوشوں کی بناء پر پچھلے سال کئی جوڑوں کی آپس
میں صلح بھی کروائی جاچکی ہے۔ حال ہی میں شیخوپورہ میں وائس آف فادرز
پاکستان کے زیر اہتمام نان کسٹوڈیل فادرحقوق کے حوالے سے فاؤنڈر ممبر
عثمان مقبول رانا کی قیادت میں ایک پر امن ریلی نکالی گئی۔ریلی کے شرکاء کا
کہنا تھا کہ والد اور والدہ دونوں کو اپنے بچوں کے برابری کے حقوق حاصل
ہونے چاہیں۔ والد کو بچوں سے محروم نہ رکھا جائے۔ فیملی گارڈین عدالتوں میں
والدہ کے لئے بچوں کی حوالگی کا فیصلہ تو کر دیا جاتا ہے۔لیکن والد کے لئے
عارضی حوالگی جو کہ والد کا قانونی حق ہے اس حق پر عمل درآمد نہ ہونے کے
برابر ہے۔ ریلی کے شرکاء کا کہنا تھا کہ معصوم بچوں کو والد یا والدہ میں
سے کسی ایک سے مرحوم رکھنا سرا سر نا انصافی اور ظلم ہے۔بچوں کی بہتر ذہنی
اور نفسیاتی نشونما سمیت تعلیم و تربیت کے لئے والدین کا زندگی کے ہر پہلو
میں میسر ہونا بہت ضروری ہے۔ والدین کی لڑائی میں والد یا والدہ کی محرومی
بچوں کو ذہنی اور نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ فیملی کورٹس سے بچوں کے بہتر
مستقبل کے لئے انکو والد کے سایہ شفقت سے محروم نہ کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔
ریلی میں ملک بھر کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے فادرز گرینڈز فادرز سمیت سول
سوسائٹیز کے ممبران اور خواتین سمیت بچے بھی شریک تھے۔ ریلی کے شرکاء نے
کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پربچوں کے لئے فادرز اور دیگر رشتے داروں
کے حقوق بارے عبارات درج تھیں۔ جن سے مراد تھی کہ بچوں کو والد کے گھر بھی
بھیجا جائے اس گھر کا پیار مل سکے عدالتی نظام کی وجہ سے یہ رشتے محروم
رہتے ہیں جبکہ یہ بچوں کا اور ان رشتوں دادا دادی پھپھو اور چاچو کا بنیادی
حق ہے فادرز کا کہنا تھا کہ شورٹی بانڈز بھی جمع کروادیا جاتا ہے اس کے
باوجود بچوں کو گھر پر نہیں بھیجا جاتا ۔ وائس آف فادرز ناں کسٹوڈیل کی
ریلی ایس پی چوک سے شروع ہوکر فیملی گارڈین کورٹس شیخوپورہ کے سامنےجا کر
اختتام پزیر ہوئی۔ریلی کےشرکاء کا کہناتھا کہ بچوں کے لئے والد اور والدہ
دونوں ہی رشتے بہت ضروری ہیں یہ غلط ہے کہ کوئی ایک فریق چاہے وو ماں ہے یا
والد اس پر قابض ہو جائے اور دوسرے فریق کو بچوں سے محروم رکھے ایسا کرنا
سراسر ظلم اور نا انسانی غیر فطری رویہ ہے۔ اس موقع پر مقبول عثمان رانا کا
کہنا تھا کہ ہم اپنے بچوں کو صرف عدالت میں مہینے میں صرف ایک بار آدھا
گھنٹہ یا ایک گھنٹہ ملایا جاتا ہے اور عدالتوں کا کوئی ماحول ایسا خوشگوار
نہیں جہاں والداور بچے کی ملاقات ہونی چاہیے ، اور عدالت میں جنرل پبلک
کےماحول میں 12 یا 14 سال کی بیٹی کی والد سے ملاقات انتہائی تکلیف دہ پہلو
ہوتا ہے۔نان و نفقہ کی صورت میں والد بچے کا پورا خرچہ بھی اُٹھائے مگر
والد سے ملاقات کے لئےہفتہ وار صرف چند گھڑیاں، لہذابچوں کی ویلفیئر اور
بہتری اس میں ہے کہ ان کو والد کے گھر بھی بھیجا جائے ۔ تنظیم نے
پارلیمنٹیرین سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایسی قانون سازی کریں جس میں والد کے
حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ بہرحال یہ تلخ حقیقت ہے کہ والدین کی
ناچاقی کی سزا تاحیات بچوں کو مل رہی ہوتی ہے۔ کاش ہم چند لمحوں کے غصہ پر
قابو پانے کی کوشش کریں تاکہ مستقبل میں والدین اور بچوں کیساتھ ہونے والی
زیادتیوں سے بچ سکیں۔زوجین کے درمیان صلح اور والد کے حقوق کےلئے وائس آف
فادرز پاکستان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ |