ہندوستان کوG-20 کی صدارت ۔نئی دہلی میں وزرائے خارجہ میٹنگ سے وزیر اعظم کا خطاب

ہندوستان کو G-20ممالک کی صدارت ہم ہندوستانیوں کے لئے مسرت کا باعث ہے کیونکہ دنیا کے یہ اہم ترین ممالک ہیں جن کی ساکھ بین الاقوامی سطح پر نمایاں نظر آتی ہے۔ ان ممالک کا ہندوستان میں جمع ہونا اور پھر یہاں سے کسی بھی مسئلہ کے حل کیلئے لائحہ عمل پر بات چیت کرنا اور اُسے حتمی شکل دینا یا پھر دنیا بھر میں ہونے والے حالات پر غور و خوص کرنا اور اس پر کوئی فیصلہ کرنا تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور یہ سب ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اس سال منعقد ہونے جارہا ہے تو یہ ہم ہندوستانیوں کیلئے ایک اعزاز ہی ہوگا ۔ اس سال کے اختتام تک G-20سمّت ہونے جارہی ہے اس سے قبل یکم؍ اور 2؍ مارچ کو G-20وزرائے خارجہ میٹنگ ہندوستان کی صدارت میں راشٹرپتی بھون کلچرل سنٹر میں منعقد ہوئی ۔وزرائے خارجہ کے اس اجلاس سے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان کی G-20صدارت عالمی برادری کو امن و امان اور تعمیر اور ترقی کی آواز دینے کی طرف ایک پہل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی گروپ اپنے فیصلوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو سنے بغیر عالمی قیادت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مالیاتی بحران، موسمیاتی تبدیلی، وبائی بیماری، دہشت گردی اور جنگیں واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ عالمی گورننس عالمی جنگ کے بعد کے عالمی طرز حکمرانی کے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی ترقی پذیر ممالک اپنے شہریوں کیلئے خوارک اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کے دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک اور غریب ممالک ، امیر ممالک کی وجہ سے گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرناچاہیے کہ ان ناکامیوں کے المناک نتائج سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو بھگتنا پڑرہے ہیں۔ برسوں کی ترقی کے بعد ہم آج پائیدار ترقی کے اہداف پر پیچھے ہٹنے کے خطرے میں ہیں۔ وزیر اعظم نے مندوبین سے کہا کہ ’’ہندوستان گاندھی جی اور بدھ کی سرزمین ہے ۔ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ ہندوستان کی تہذیبی اقدار سے تحریک حاصل کرینگے۔ آپ اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ ہمیں کس چیز نے تقیسم نہیں کیا بلکہ اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ جو ہمیں متحد کرتا ہے ، وہ ہم سب کو مزید متحد اور مضبوط کرے۔ G-20یا گروپ آف 20دنیا کی بڑی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔ اس کے اراکینعالمی جی ڈی پی کا تقریباً 85فیصد، عالمی تجارت کا 75فیصد اور دنیا کی تقریباً دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔وزرائے خارجہ میٹنگ میں شرکت کیلئے آنے والوں میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان، چین کے وزیر خارجہ کن گینگ، انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ریٹنومارسودی، ہسپانوی وزیر خارجہ جوزمینوئل الباریس بیونو، کروشین کے وزیر خارجہ گورڈن گرلک ریڈ مین ، متحدہ عرب امارات کے امور خارجہ اور بین الاقوامی تعاون کے وزیر شیخ عبداﷲ بن زاید النہیان، مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری ، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، ورلڈ ٹریڈ آگنائزیشن (WTO)کے ڈائرکٹر جنرل نوکوزی اوکونجولیویلا وغیرہ شامل ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ وزرائے خارجہ کی اس میٹنگ میں کم و بیش 40وفود نے شرکت کی۔ G-20گروپ ممالک میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، ہندوستان، انڈونیشا، اٹلی، جاپان، جمہوریہ کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکیہ، برطانیہ، امریکہ اور یورپی ممالک شامل ہیں۔G-20وزرائے خارجہ کے افتتاحی اجلاس کے شرکاء سے ہندوستانی وزیر خارجہ مسٹر جے شنکر نے خطاب کیا۔ اجلاس کے آغاز پر 6؍ فبروری کو ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ ترک وزیر خارجہ نے ترکیہ اور شام میں آنے والے زلزلے کے بعدمختلف ممالک سے بروقت امداد ترکیہ بھیجنے پر تمام وزرائے خارجہ کا شکریہ ادا کیا ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر چین اور روس کی جانب سے مسودے میں یوکرین کی جنگ کے حوالے سے مخالفت کی گئی ۔

سعودی عرب میں ویژن 2030کے تحت یوگا کو خصوصی اہمیت ۰۰۰
مملکت ِ سعودی عرب کی شاہی حکومت ویژن 2030کے تحت معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے صرف تیل کی دولت پر انحصار کرنے کے بجائے سیر و سیاحت اور دیگر کئی ایک شعبوں میں ترقیاتی منصوبوں پر عملی اقدامات کرتے ہوئے عوام کو روزگار سے مربوط کرنے کی سعی میں مصروفِ عمل ہے۔بین الاقوامی سطح پر دشمنی کے بجائے ہر ایک ملک کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنائے رکھنے کیلئے تجارتی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ، اسی طرح ملک میں سرمایہ کاری کیلئے بھی بیرونی ممالک کی کمپنیوں کو بہتر سے بہتر مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔ جس طرح شاہی حکومت معیشت کے استحکام کے لئے مصروفِ عمل ہے اسی طرح صحتِ جسمانی کیلئے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ سعودی حکومت اسپورٹس کے فروغ کیلئے بھی خصوصی توجہ دے رہی ہے کیونکہ اس سے جہاں جسمانی نشوو نما اور صحت و تندرستی کے ساتھ عوام خوشحال زندگی بسر کرینگے ،وہیں دیگر ممالک کے ساتھ عالمی سطح پر کھیل کود کے مواقع فراہم کئے جائیں تو اس سے بھی ملک کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا اور دوستانہ تعلقات میں مزید مضبوطی ہوسکتی ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے سعودی عرب میں یوگا پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اسی سلسلہ میں ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ سعودی یوگا کمیٹی کی صدر نوف المروعی نے کہا ہے کہ یوگا کے سپورٹ اورفروغ کیلئے آئندہ چند مہینوں میں سعودی عرب کی بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔عرب نیوز کے مطابق یہ اعلان ریاض میں وزارتِ تعلیم کے تعاون سے سعودی یونیورسٹیزا سپورٹس فیڈریشن کے زیراہتمام ’اسپورٹس میں مملکت کے ویژن کی سپورٹ میں یونیورسٹی اسپورٹس کا کردار‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک فورم کے دوران کیا گیا۔انٹرنیشنل یونیورسٹیز اسپورٹس فیڈریشن کے صدر لیونز ایڈر اور انٹرنیشنل یونیورسٹی اسپورٹس فیڈریشن کے ڈائریکٹر جنرل پاؤلو فریرا کی قیادت میں یونیورسٹی اسپورٹس کے متعدد ماہرین اور بین الاقوامی رہنماؤں نے اس فورم میں شرکت کی۔سعودی یوگا کمیٹی کی صدر نوف المروعی نے یونیورسٹیز میں ا سپورٹس کی ترقی اور فروغ کے عنوان سے منعقدہ چوتھے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’کمیٹی یونیورسٹیز میں یوگا کو متعارف کرانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’یوگا اپنے پریکٹیشنرز کو جسمانی اور ذہنی تندرستی کیلئے بہت سے فوائد فراہم کرتا ہے۔ ویژن 2030 کے اہم ستونوں میں سے ایک اسپورٹس کی سرگرمیوں میں شرکت کو بڑھانا ہے۔ ‘ نوف المروعی نے وضاحت کی کہ ’یوگا صرف مراقبہ اور آرام نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ مان سکتے ہیں، اس میں آسانا پوسچر کی مشق، پرانیاما سانس لینے کی تکنیک، بندھاس کے پٹھوں پر کنٹرول (اور) پھر دھیان اور یوگا نیدرا مراقبہ اور آرام شامل ہے۔‘

سعودی یوگا کمیٹی کی صدر نے مزید کہا کہ ’کمیٹی کا مقصد یوگا کی تمام اقسام میں عام طور پر یا یوگاسنا اسپورٹس میں ممتاز یوگا پریکٹیشنرز کی صلاحیتوں کو دریافت کرنا، ان کی صلاحیتوں کو نکھارنا، مقامی اور بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں مملکت کی نمائندگی اور شرکت کیلئے ان کی مدد کرنا ہے۔‘اب دیکھنا ہے کہ یوگا کو مملکتِ سعودی عرب میں عوام کتنا پسند کرتے ہیں کیونکہ مذہبِ اسلام میں اﷲ کی عبادت کے لئے سب سے پہلے جو حکم دیا گیا ہے وہ نماز کا ہے اور نماز کے ذریعہ جہاں خالقِ حقیقی کی عبادت ہوتی ہے وہیں پرنماز انسانی صحت کیلئے سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ یعنی نماز میں انسان کے اندرونی و بیرونی اعضاء کی ایسی ورزش ہوتی ہے جو کسی اور عبادت یا ورزش میں ممکن نہیں۔ سانس کی بھی بیماری ہوکہ بینائی کا مسئلہ ،غرض کہ ہر ایک عضوکی سلامتی کیلئے نماز سب سے بہترین ورزش ہے ۔جو شخص پورے خشوع و خضوع اور اطمینان کے ساتھ پاکی و صفائی کا مکمل خیال رکھتے ہوئے پنچ وقتہ نمازکااہتمام کرتاہے اور نماز میں تمام سنتو ں،فرائض ، واجبات، نوافل کے مطابق تکبیر ،قیام، رکوع، سجوداور قاعدے ادا کئے جاتے ہیں ، ایسے لوگ ہی صحتمند زندگی گزارتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملتے ہیں۔ آج جس طرح کا ماحول مساجد اور گھروں میں دکھائی دے رہا ہے اکثر و بیشتر ضعیف حضرات اور بعض ادھڑ عمر کے افراد کرسیوں پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی کوشش کررہے ہیں ایسے لوگمزید جسمانی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ کاش کے سعودی حکومت نماز کی اہمیت کو اجاگرکرنے کیلئے عالمی سطح پر عملی اقدامات کرتی ۰۰۰!

حرمین شریفین میں زائرین کو سال کے بارہ مہینے 50زبانوں میں رہنمائی کی سہولت
شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولیعہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے حرمین شریفین میں دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں کے لئے خصوصی انتظامات قابلِ تحسین ہیں۔ صفائی ستھرائی کا نظم ہوکہ نظم و ضبط کا مسئلہ۰۰۰ جو خوبیاں اور بہترین انتظامات حرمین شریفین میں دیکھائی دیتے ہیں وہ شاہد ہی دنیا بھر میں اتنے بڑے پیمانے پر 24گھنٹے ،سال کے بارہ مہینے ممکن نہیں ۔ ماہِ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ۰۰۰ اور پھر اسکے فوراً بعد حج سیزن کا آغاز ہوا جاتا ہے ۰۰۰ مملکتِ سعودی عرب کی انتظامیہ دنیا بھر سے آنے والے عمرہ و مناسک حج کی ادائیگی کیلئے آنے والے زائرین کیلئے جس طرح سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے اسے عالمی سطح پر سراہا جاناچاہیے۔ ماہِ صیام اور حج کے ایام میں جس طرح حرمین شریفین اور مساجد و دیگر عام اورمقامات مقدسات پر مہمانِ نوازی کی جاتی ہے ایسا شاہد ہی کسی اور ملک میں دیکھنے کو ملتا ہے۔دنیا بھر سے آنے والے زائرین کو انکی اپنی مادری زبانوں میں سمجھنے اور سمجھانے کیلئے شاہی حکومت وسیع تر خدمات انجام دے رہی ہے۔ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب میں حرمین شریفین انتظامیہ 50 زبانوں میں زائرین کی رہنمائی کر رہی ہے۔ مسجد الحرام کے مختلف حصوں میں ترجمان زائرین کی خدمت پر 24 گھنٹے مامور کیے گئے ہیں۔سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق حرمین شریفین انتظامیہ کے سیکریٹری ادارہ ترجمان نے کہا ہے کہ ’مسجد الحرام میں دو طرح سے ترجمے کا کام انجام دیا جا رہا ہے۔ زائرین کو مسجد الحرام کے اندر اور باہر براہ راست رہنمائی خود ان کی اپنی زبان میں دی جا رہی ہے۔ترجمان کے مطابق ’مسجد الحرام میں وعظ کی مجلسوں اور خطابات نیز علمی لیکچرز کے ترجمے بھی مہیا کیے جا رہے ہیں۔‘ترجمان کا کہنا ہیکہ ’منارت الحرمین پلیٹ فارم اور ایف ایم کے ذریعے بھی ترجمہ شدہ خطباتِ ہدایات اور لیکچرز کے ترجمے پیش کیے جا رہے ہیں۔‘بتا یا گیا ہے کہ ’نئے ہجری سال کے پانچ ماہ کے دوران ان تراجم سے 10 ملین افراد فائدہ اٹھا چکے ہیں۔‘حرمین شریفین انتظامیہ کی ہر ممکن کوشش ہے کہ زائرین کو مسجد الحرام کے اندر اور باہر استقبالیہ مراکز پر بھی ان کی اپنی زبان میں رہنمائی مل سکے۔سکیورٹی اداروں، وزارت حج وعمرہ اور سعودی ہلال احمر کے ساتھ رابطے زائرین کی اپنی زبان میں فراہم ہوں۔عربی زبان سمجھنے سے قاصر افراد کو مقدس و تاریخی مقامات کے بارے میں معتبر معلومات زائرین کی اپنی زبان میں مہیا کئے جارہے ہیں اور یہ سہولت سال کے بارہ مہینے 24 گھنٹے مہیاکی جارہی ہے۔ اسکے علاوہ مملکت میں راستوں کی نشاندہی اور دیگر اہم معلومات کیلئے کئی زبانوں کے ذریعہ رہنمائی کی جاتی ہے ۔

سعودی عرب کی جانب سے یوکرین کو 400ملین ڈالر کی اضافی امداد
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ابھی جاری ہے ۔ حالات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ یہ لڑائی روس اور یوکرین کے درمیان نہیں بلکہ امریکہ اور روس کے درمیان ہے کیونکہ روس یوکرین پر بہت جلد قبضہ حاصل کرلینے کے خواب دیکھ رہا لیکن امریکہ کی جانب سے یوکرین کو زبردست امداد نے یوکرین کو روس کے آگے سرنگوں ہونے سے فی الحال بچا لیا ہے ۔ امریکہ کی وجہ سے یوکرین کو اسکے تائیدی ممالک کی امداد بڑے پیمانے پر پہنچ رہی ہے ۔ اسی سلسلہ میں سعودی شاہی حکومت کی جانب سے بھی یوکرین کے مظلوم عوام کیلئے امدادی سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کیئف میں گذشتہ دنوں اپنے ہم منصب اورپھر یوکرینی صدر ر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی ۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان امدادی معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور یوکرین نے 400 ملین ڈالر کی اضافی امداد کے حوالے سے مفاہمتی یادداست اور معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔سعودی وزیر خارجہ اور یوکرین کے صدر کے دفتر کے ڈائریکٹر کی موجود گی میں دستخط معاہدے پر دستخط کیے گئے۔واضح رہے کہ یہ معاہدہ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانبسے اکتوبر 2022 میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کے دوران یوکرین کو ایک اضافی انسانی امدادی پیکیج کی فراہمی کے وعدے پر عملدرآمد ہے۔معاہدے پر شاہ سلمان مرکز برائے امداد اور انسانی خدمات ڈاکٹر عبداﷲ الربیعہ اور یوکرین کے نائب وزیراعظم نے دستخط کیے۔سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق معاہدے کے تحت یوکرین کے لیے 100 ملین ڈالر کی انسانی امداد کی فراہمی کے لیے مشترکہ تعاون کا پروگرام چلایا جائے گا۔علاوہ ازیں سعودی ترقیاتی فنڈ یوکرین کو 300 ملین ڈالر کی گرانٹ فراہم کرے گا۔معاہدے اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط اس بات کی علامت ہے کہ سعودی حکومت، سماجی و اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے اور انسانی مسائل کا بوجھ کم کرنے کے سلسلے میں یوکرین کے دوست عوام کی مدد کے حوالے سے پرعزم ہے۔اس موقع پر شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ’سعودی عرب بحران کے سیاسی حل کے لیے تمام بین الاقوامی کوششوں کا پر زور حامی ہے۔ مذاکرات کے ذریعے بحران کے حل کی سنجیدہ کوششوں، شہریو ں کے تحفظ اور بحران کی شدت کو کم کرنے میں معاون ہر اقدام کے ساتھ کھڑا ہے۔‘

ترکیہ میں تباہ کن زلزلہ متاثرین کیلئے گھروں کی تعمیر کا آغاز۰۰۰
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردغان نے گذشتہ ماہ آئے شدید زلزلے کے متاثرین کو ہمت و حوصلہ دیتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ ایک سال کے اندر متاثرین کیلئے گھروں کی تعمیر نوہوجائے گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر رجب طیب اردغان کے وعدے کے مطابق تباہ کن زلزلے کے بعد گھروں کی تعمیر نو کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ترکیہ اور شام میں زلزلے سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ 6؍ فروری کو آنے والے زلزلے سے ترکیہ میں ایک لاکھ 60 ہزار عمارتیں بری طرح متاثر ہوئیں جن میں پانچ لاکھ 20 ہزار اپارٹمنٹس کے رہائشی اب عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔ترکیہ حکومت کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کئی پراجیکٹس کے لیے ٹینڈرز اور کنٹریکٹ کیے گئے ہیں۔ یہ عمل بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور حفاظتی معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘حکام کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد کیلئے اضافی خیمے بھیجے گئے ہیں، لیکن متاثرین نے شکایت کی ہے کہ اْن کو ٹینٹس کی کمی کا سامنا ہے۔زلزلے سے بڑے پیمانے پر عمارتوں کے گرنے کے بعد حکام کی جانب سے تعمیراتی معیار کو نظرانداز کرنے پر صدر اردغان کی حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔حکومت کی جانب سے کئی بلڈرس کو ناقص معیارِ تعمیر کے سلسلہ میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ترکیہ حکومت کے ابتدائی منصوبے کے مطابق دو لاکھ اپارٹمنٹس اور دیہاتوں میں 70 ہزار مکانات تعمیر کیے جانے ہیں جن پر 15 ارب ڈالر کی لاگت بتائی گئی ہے۔امریکہ کے جے پی مورگن بینک کے تخمینے کے مطابق ترکیہ میں زلزلہ متاثرین کی رہائش گاہوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو کے لیے 25 ارب ڈالر درکار ہونگے۔
زلزلے کے بعد شامی صدربشارالاسد سے عرب پارلیمنٹرینز وفد کی ملاقات
دنیا کے حالات ہرروز بدل رہے ہیں آفات الٰہی کے بعد دشمنی دوستی میں تبدیل ہورہی ہے ۔ ایسا ہی کچھ ملک شام کے ساتھ بھی ہوا ہے ۔ سینئر عرب پارلیمنٹرینز کا ایک وفد اتوار کو شام کے صدر بشارالاسد سے دمشق میں ملاقات کی۔ واضح رہے کہ اس ملاقات کو شام میں تنازعے پر ایک دہائی سے زیادہ سردمہری کے بعد تعلقات میں مثبت پیشرفت کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔عرب نیوز کے مطابق عراق، اردن، فلسطین، لیبیا، مصر اور متحدہ عرب امارات کے ایوانِ نمائندگان کے ساتھ ساتھ عمان اور لبنان کے نمائندوں نے عرب بین الپارلیمانی یونین کے وفد کے طور پر شام کا سفر کیا۔عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد حلبوسی نے بتایا کہ ’ہم شام کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے اور شام اپنے عرب ماحول کے بغیر نہیں رہ سکتا جس کے بارے میں ہمیں امید ہے کہ وہ اس (عرب ماحول) میں واپس آ جائے گا۔‘یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ 2011 میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف بشار الاسد کے مہلک کریک ڈاؤن کے بعد شام بڑی حد تک باقی عرب دنیا سے الگ ہو گیا تھا۔عرب لیگ نے 2011 میں شام کی رکنیت معطل کر دی تھی اور کئی عرب ممالک نے اپنے سفیروں کو دمشق سے واپس بلا لیا تھا۔6؍ فبروری کو آنے والے زلزلے کے بعد بشار الاسد کو عرب ریاستوں کی حمایت سے فائدہ ہوا۔ اس زلزلے میں اقوام متحدہ اور شامی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں پانچ ہزار 900 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔شام کی امداد کرنے والے ممالک میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔متحدہ عرب امارات نے روس اور ایران سمیت کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امداد سے لدے طیارے بھیجے۔مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے پہلی بار7؍ فروری کو بشار الاسد سے فون پر بات کی اور اردن کے وزیر خارجہ نے 15؍ فروری کو دمشق کا پہلا دورہ کیا۔اس کے بعد بشار الاسد نے 20 فروری کو عمان کا سفر کیا۔ ان کا 2022 کا یو اے ای کا دورہ 2011 کی جنگ شروع ہونے کے بعد کسی عرب ریاست کا پہلا دورہ بتایا جاتا ہے۔مصر کی پارلیمنٹ کے اسپیکر حنفی الجبالی نے دمشق میں کہا کہ زلزلے کے بعد عرب وفد ’شامی عوام کی مدد کیلئے برادر ملک شام کا دورہ کر رہا ہے۔‘اب دیکھنا ہیکہ شامی صدر بشارالاسد سے عرب پارلیمنٹرینز کے وفد کی ملاقات کے بعد ملک میں کس قسم کا ماحول بنتا ہے ۔ عوام اور شامی صدر بشارالاسد کے درمیان ماحول بہتر ہوتا ہے تو ملک میں امن وآمان اور سلامتی کی فضائیں بحال ہوسکتی ہے ۔ کاش ایسا ہی ہو۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209886 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.