صرف ”چینی“ سے کام نہیں چلے گا

ایک خبر کے مطابق سندھ حکومت نے 2013 ءسے چینی زبان کو سکولوں میں لازمی مضمون قرار دیدیا ہے۔ یقیناً یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، قدرے تاخیر سے کیا گیا ہے لیکن دیر آید درست آید۔ چین کی معیشت اس وقت دنیا کی تیز ترین ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے نیز چین اس وقت معاشی ترقی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا ملک ہے۔ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اسی حوالے سے چینی سرکاری زبان” مینڈرین“ ایک ارب 37کروڑ سے زائد بولنے والے افراد کے ساتھ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہمیں ترقی کرنا ہے ، قوموں کی دوڑ میں آگے جانا ہے، آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اور روشن پاکستان دینا ہے اور مادی لحاظ سے ترقی یافتہ کہلوانا ہے تو دنیا کے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا اور اس کے لئے ہمیں حصول علم کے لئے انگلش زبان کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں پر بھی عبور حاصل کرنا ہوگا تاکہ ان کی ترقی کی ”سٹڈی“ کرکے اپنے ملک اور قوم کے لئے کچھ کرسکیں۔ حکومت سندھ اس کام کے لئے مبارکباد کی مستحق ہے، سندھ حکومت نے یہ فیصلہ یقیناً سوچ بچار کے بعد کیا ہے اور شائد 2013 تک کا ٹائم فریم اس لئے دیا گیا ہوگا کہ اس وقت تک تمام مطلوبہ امور کی تکمیل کرلی جائے گی اور چینی زبان پر عبور رکھنے والے اساتذہ کی تقرریاں بھی کر دی جائیں گی۔ویسے اکثر لوگوں کو سندھ حکومت کے باقی کارنامے دیکھ کر یہ شدید خطرہ و خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں چینی زبان سکھانے کے لئے سندھ بھر میں علیحدہ سکول اور کالج نہ کھل جائیں جہاں بعد میں وڈیروں اور جاگیرداروں کے مویشی باندھے جاسکیں، سندھ حکومت کو اس پر بھی ضرور غور کرنا ہوگا۔

دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم صرف چینی زبان سیکھ کر ترقی کرسکیں گے یا اس کے لئے کچھ دیگر عوامل کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہوگا۔ کیا چین کے لوگوں نے یا وہاں کی حکومت نے ترقی کے لئے کوئی غیر ملکی زبان سیکھی یا سیکھنے کا انتظام کیا یا انہوں نے اپنی ہمت، لگن، خلوص نیت اور ایک قوم بن کر کوشش اور کاوش کی؟ یقیناً انہوں نے بطور قوم کوئی دیگر زبان سیکھنے کی بجائے کچھ ایسے معیار مقرر کئے جن کے بل بوتے پر وہ اتنی تیز رفتار ترقی کرنے کے قابل ہوئے کہ آج اگر امریکہ بھی (مسلمانوں کے بعد) اگر کسی سے خوف زدہ ہے تو وہ چین کی ترقی سے ہے۔ چینی قوم بھنگ پی کر مدہوش رہنے والی قوم تھی، تو آخر وہ کونسی خصوصیات اور ”کوالیٹیز“ ہیں جن کی بناءپر ماﺅزے تنگ اس قوم کو نہ صرف اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگیا بلکہ وہی قوم آج سپر پاور بن چکی ہے۔ میں چینی زبان سیکھنے کا مخالف ہرگز نہیں ہوں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت سندھ پہلے عربی زبان کو لازمی مضمون قرار دیتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکمتیں قرآن کریم میں بیان فرما دی ہیں اور جو فرمودات ہمارے پیارے نبی ﷺ کی احادیث میں ملتے ہیں، ان سے نہ صرف اللہ کے دین کی سمجھ آسکتی ہے بلکہ دنیاوی ترقی کے راستے بھی کھل جاتے ہیں۔ کیا کوئی قوم اپنی ”اصل“ سے ہٹ کر کامیاب ہوسکتی ہے، اس کا جواب ”نہیں“ کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ دوسری بات یہ کہ اگر ہم ایک قوم ہی نہ بن سکیں، اگر ہم لسانی اختلافات، قومیتوں کے فخر، علاقائی و گروہی تعصب اور فرقہ بندیوں سے ہی نکل سکیں تو کیا فائدہ اپنے بچوں کو مشکلات میں ڈالنے کا؟ اگر ہم ”گورننس“ کے بدترین معیار پر حکومتیں چلاتے رہیں، کرپشن، لاقانونیت، اقربا پروری، ذاتی مفادات کے چکر سے ہی نہ نکل سکیں، اگر ہم بوری بند لاشوں، بھتہ مافیاﺅں، قبضہ گروپوں اور لسانی فسادات کے گرداب سے اپنی قوم کو باہر نہ نکال سکیں تو صرف چینی زبان سیکھنے سے کس قسم کی ترقی ممکن ہے؟

چین میں مالی کرپشن کی سزا موت ہے جبکہ پاکستان میں مالی معاملات سمیت ہر قسم کی کرپشن کے بعد ”ترقی“ کے نئے دروازے کھلنا شروع ہوجاتے ہیں اور کرپٹ لوگ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے دیکھے جاتے ہیں، ہمارے اس ملک خداد میں جو جتنا بڑا مجرم ہے اس کے پاس اتنا ہی بڑا اور شاندار عہدہ ہے جو پیچھے رہ جانے والوں کو ہر لمحہ اس بات پر اکساتا ہے کہ ”دل مانگے اور“، اگر ہم چین سے اور چینی عوام سے چینی زبان کے ذریعہ کرپشن جیسا ناسور ختم کرنے کا ہنر جان سکیں ، اگر ہم چینی زبان کے توسط سے ایک قوم بننے کا طریقہ سیکھ سکیں، اگر ہم اپنے شہروں کو Ownکرسکیں، اپنے علاقوں کی سٹریٹ لائٹس اور مین ہولز کی حفاظت ہی کرسکیں تو بڑی بات ہے۔ سندھ میں دنیا کا بہترین کوئلہ موجود ہے جس سے بجلی اور ڈیزل بنا کر ہم پورے پاکستان کی انڈسٹری کو بالکل فری بجلی فراہم کرسکتے ہیں، روزگار کے بے شمار مواقع پیدا کرسکتے ہیں اور پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کو اپنے پیچھے لگا سکتے ہیں لیکن کرپشن وہ واحد وجہ ہے جو اس کام کو ہونے نہیں دیتی۔ کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندر کے اندر تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن غیروں کے ہاتھوں میں کھیل کر اور ان کے ایجنڈے پر عمل کرکے سندھ کی کسی حکومت نے آج تک کوئی ایسی کوشش نہیں کی۔ ہم کرائے کے ناکارہ بجلی گھروں کی مد میں کروڑوں ڈالر خرچ کرسکتے ہیں لیکن سندھ اور پاکستان کی ترقی کے لئے اپنے بجٹ میں کوئی رقم نہیں رکھتے، کیا اس کی کوئی وجہ اس کے علاوہ ہے یا ہوسکتی ہے کہ پھر ہمارے وزراءاور حکومتی عہدیداران پٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں کمیشن اور کک بیکس کس طرح کما سکیں گے؟اگر ہم بجلی اور ڈیزل میں خود کفیل ہوجاتے ہیں تو وہ کروڑوں ڈالر جو ملٹی نیشنل کمپنیاں ماہانہ کماتی ہیں اور جس میں سے وہ ہماری حکومتوں اور بیوروکریسی کی ”مٹھی“ گرم کرتی ہیں وہ کیسے ہوپائے گا؟ کیا سندھ اور کراچی کے وسائل ہی وہاں کے مسائل کی وجہ نہیں بن چکے؟ یہی وجوہات ہیں جن کی بناءپر پوری دنیا خصوصاً امریکہ اور بھارت ”منی پاکستان“ کراچی کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ چکے ہیں اور ہمارے کٹھ پتلی حکمران اور سیاستدان ان کے پیچھے دم ہلاتے پھرتے ہیں۔

جناب شاہ صاحبان! بچوں کو چینی زبان ضرور سکھائیں لیکن کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ”آپ“ یعنی ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی کچھ سیکھ لیں، اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے نہیں سیکھنا تو چین، چینی حکومت اور وہاں کے عوام سے ہی سیکھ لیں۔ اگر چین میں کوئی وزیر صرف کرپشن کے الزامات کا ہی شکار ہوجائے تو اس کی وزارت قائم نہیں رہ سکتی اور اگر الزام ثابت بھی ہوجائے تو اس کی جان سلامت نہیں رہ سکتی جبکہ یہاں ملک دشمنی اور اسے توڑنے کے الزامات اپنی ہی پارٹی کے لیڈر لگاتے ہیں اور نہ صرف وزارتیں قائم و دائم رہتی ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ دھڑلے سے، اگر پاکستان میں کرپشن ختم نہ کی گئی تو یہ دیمک ہمیں مکمل طور پر چاٹ لے گی، اس سے پہلے ہوش کے ناخن لے لیں! نہیں جناب والا! صرف چینی زبان سیکھنے سے کام نہیں چلے گا، ان کے اچھے کام بھی سیکھنا پڑیں گے خصوصاً کرپشن کے حوالے سے۔ پہلے خود یہ ”نیک“ کام چھوڑ دیں، توبہ کرلیں اور اس کے بعد اپنے سے نیچے والوں کو سیدھا کردیں، دنیا تو آپ کی پہلے ہی ہے، آخرت میں بھی جگہ بن جائے گی....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222584 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.