مقام محمود کا راستہ تہجد

مقام محمود کا راستہ نماز تہجد ہے ،رات کی تاریکی میں خالق حقیقی سے گفتگو کا طریقہ

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:
”خیرکم من اطاب الکلام واطعم الطعام وصلی باللیل والناس نیام“۔
َََٖتم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو بات بڑے ادب سے اور پاکیزگی سے کرے، بھوکوں کو کھانا کھلائے اور رات جب لوگ سورہے ہوں وہ اٹھ کر نماز پڑھے
دن بھر کا شور مختلف حوالوںسے انسان کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے اور انسانی افکار کو طرح طرح کی وادیوں میں لئے لئے پھر تا ہے ،ایسے میں دل جمعی اور حضورِ قلب بہت مشکل ہوتا ہے ،لیکن رات کی تاریکی میں وقتِ سحر جب مادی زندگی کا ہنگامہ نہیں ہوتا اور کچھ دیر سوجانے کے بعد جب انسانی جسم وروح کو سکون ملتا ہے ،اس وقت انسان نشاط اور توجہ کی ایک خاص بے مثل کیفیت میں ہوتا ہے، ریا کے پاک، خود نمائی سے دور اور حضورِ قلب کے اس ماحول میں انسان میں آمادگی کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو بہت زیادہ روح پرور اور کمال آفریں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ دوستانِ خدا اور محبانِ خدا ہمیشہ رات کے پچھلے پہر عبادے کے ذریعے روح کی پاکیزگی ، دل کی زندگی، ارادے کی تقویت اور خلوص کی تکمیل کے لئے قوت حاصل کرتے ہیں ۔
ابتدائے اسلام میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے اسی روحانی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی تربیت اور ان کی شخصیت کو اتنا بلند کردیا کہ وہ پہلے والے انسان معلوم ہی نہ ہوتے تھے گویا آپ نے ان کے اندر سے نئے انسان پیدا کردئے، وہ انسان جن کا ارادہ پختہ تھا، جو بہادر، باایمان، پاک باز اور باخلوص تھے اور شاید مقامِ” محمود“کہ جس کا ذکر زیرِبحث آیت میں نمازِ شب کے نتیجے کے طور پر ہے اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہو ۔
لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے،اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے،اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدارہونے کے بھی ......اسی رات کی نمازکواصطلاح شرع میں نمازتہجدکہاجاتاہے،اورعموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیرسوکراٹھنے کے بعدجونمازپڑھی جائے وہ نمازتہجدہے،لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت (ومن اللیل فتهجدبه)کااتناہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نمازکے لیے سونے کوترک کردو،اوریہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کرنمازپڑھنے پرصادق آتاہے اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیندکومؤخرکرکے نمازپڑھنے پربھی صادق ہے،اس لیے نمازتہجدکے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کامدلول نہیں،پھربعض روایات حدیث سے بھی تہجدکے اسی عام معنی پراستدلال کیاہے۔امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجدکی جوتعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پرشاہدہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا‘‘۔

اس کاحاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعدم النوم ہوناشرط نہیں،اورالفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں ،لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہاہے کہ نمازآخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی‘‘۔
رات کو سونا یا جاگنا۔ اسلامی شرع میں آدھی رات کے بعد نماز پڑھنا۔
قرآن میں صرف ایک جگہ سترھویں سورت میں یہ لفظ آیا ہے۔
ترجمہ۔
” اے نبی رات میں تہجد پڑھ یہ تمہارے لیے نفل ہیں۔
فرض عشاء پڑھنے کے بعد سو رہے پھر شب میں طلوع صبح سے پہلے جس وقت آنکھ کھلے وہی تہجد کا وقت ہے۔ وضو کرکے کم از کم دو رکعت پڑھ لے، تہجد ہو گئی اور سنت آٹھ رکعت ہیں اور معمولِ مشائخ بارہ رکعت۔

قرات کا اختیار ہے جو چاہے پڑھے اور قرآن یاد نہ ہو تو ہر رکعت میں تین تین بار سورۃ اخلاص بہتر ہے کہ جتنی رکعتیں پڑھے گا اسے ختم قرآن مجید کا ثواب ملے گا۔ احادیث شریفہ میں نماز تہجد کی بڑی فضیلتیں وارد ہیں، تہجد کی کثرت سے آدمی کا چہرہ نورانی اور زیادہ خوبصورت ہو جاتا ہے۔ تہجد پڑھنے والے بلا حساب جنت میں جائیں گے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس نماز کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ آپ ازواج مطہرات کو اور حضرت علی رضی اللّٰہ اور حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ کو بھی ان کے گھر جاکر تہجد کے لیے بیدار فرماتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ بھی اس نماز کو پابندی سے پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں اس کے لیے ایک جگہ مخصوص کر دی تھی۔ رمضان شریف میں ایک دفعہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو تہجد کی نماز جماعت سے پڑھائی۔ دوسری شب اور زیادہ آدمی جمع ہو گئے اور تیسری شب اس سے بھی زیادہ۔ تو پھر آپ تشریف نہ لائے کہ کہیں لوگ اس نماز کو بھی فرض نہ سمجھنے لگیں حالانکہ تہجد کی نماز فقط سنت ہے۔ یہ نماز گھر اور مسجد دونوں میں پڑھی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے تہجد کی نماز میں دو رکعت بھی پڑھیں، چار بھی اور آٹھ بھی اور بارہ بھی۔
نماز تہجد کی ہو یا کوئی بھی، اس کی نیت کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بس دل میں یہ نیت کافی ہے کہ میں تہجد کی نماز ادا کر رہاہوں، اور الفاظ ادا کرنے ہوں تو تہجد کی نیت اس طرح کرے:
" نَوَیتُ أَن أُصَلِّيَ رَكْعَتَيْ صَلَاةِ التَّهَجُّدِ سُنَّةَ النَّبِیِّ ﷺ، یا اپنی زبان میں یوں نیت کرے کہ " میں دوو رکعت تہجد کی نماز پڑھ رہا ہوں" اللہ اکبر،نیز اگر رات کو صرف نفل نماز کی نیت سے نماز پڑھےگا، تب بھی تہجد کی نماز ہوجائےگی۔
تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے پہلے تک رہتا ہے، بہتر یہ ہے کہ آدھی رات گزرنے کے بعد تہجد کی نماز پڑھی جائے، باقی عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کسی بھی وقت تہجد کی نماز پڑھنے سے تہجد کی نماز ہوجائےگی، نیز تہجد کے لیے سونا شرط نہیں ہے، البتہ رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے۔
لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے،اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے،اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدارہونے کے بھی ......اسی رات کی نمازکواصطلاح شرع میں نمازتہجدکہاجاتاہے،اورعموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیرسوکراٹھنے کے بعدجونمازپڑھی جائے وہ نمازتہجدہے،لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت (ومن اللیل فتهجدبه)کااتناہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نمازکے لیے سونے کوترک کردو،اوریہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کرنمازپڑھنے پرصادق آتاہے اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیندکومؤخرکرکے نمازپڑھنے پربھی صادق ہے،اس لیے نمازتہجدکے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کامدلول نہیں،پھربعض روایات حدیث سے بھی تہجدکے اسی عام معنی پراستدلال کیاہے۔امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجدکی جوتعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پرشاہدہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا‘‘۔

اس کاحاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعدم النوم ہوناشرط نہیں،اورالفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں ،لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہاہے کہ نمازآخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی‘‘۔
امیرالمومنین حضرت علی رضی اللّٰہ فرماتے ہیں:
قیام اللیل مصحة للبدن ومرضات للرب عزوجل وتعرض للرحمة وتمسک باخلاق النبیین۔
رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنا صحتِ بدن اور خوشنودی خدا اور اس کی رحمت کا وسیلہ ہے اس عبادت سے انسان نبیوں کے اخلاق سے وابستہ ہوجاتا ہے ۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558218 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More