ہاتھرس میں ہونے والی عصمت دری اورقتل کے چار میں سے تین
ملزم بے قصور پائے گئے اور چوتھے کے بارے میں سبھی کو یقین ہے کہ وہ بھی
ہائی کورٹ میں رہا ہوجائے گا؟ اس اندھیر نگری کی وجہ اتر پردیش میں یوگی
ادیتیہ ناتھ کا رام راج ہے۔ رام چرت مانس کے آرنیہ کانڈ میں رام کا اپدیش
ہے:ساپت تاڑت پرش کہنتا، بپر پوجیہ اس گاوہی سنتا، پوجیہ بپر سیل گن ہینا،
سدر نہ گن گیان پروینا‘۔ یعنی بددعا دینے والا، مارنے والا، سخت الفاظ کہنے
والا برہمن بھی قابل پرستش ہے۔ ساری خوبیوں سے عاری برہمن کی بھی پوجا کی
جانی چاہیے اور اگر شودر کے خوبیوں حامل اور عالم ہو تب بھی اس کی پوجا
نہیں کرنی چاہیے۔اس لیےہاتھرس میں عصمت دری کرنے والے یوگی کے بھائی
بندراجپوتوں کو سزا کیسے ہوسکتی ہے؟ جہاں تک دلت مظلومہ کا تعلق ہےتو اس کے
متعلق رام چرت مانس کا فرمان ہے: ڈھول، گنوار، شودر، پشو، ناری،سکل تاڑنا
کے ادھیکاری یعنی شودر ،عورت، ڈھول ، جانور اور گنوار پٹائی کے حقدار ہیں۔
وہ بیچاری چونکہ دو وجوہات کی بناء پر سزا کی مستحق ٹھہرتی ہےاس لیے اس پر
ظلم کرنے والےسزا کے نہیں انعام کے مستحق ہیں۔ یہ ہندوتوا نوازوں کا وہ
اصلی چہرا جس پر انہیں ناز ہے اور جب اس کو لندن میں راہل گاندھی بے نقاب
کرتے ہیں تو انہیں مرچی لگ جاتی ہے۔
اتر پردیش کے ہاتھرس میں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت لڑکی کوتشدد کا نشانہ
بنایا گیا تھا ۔ دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں 29 ستمبر کو اس کی موت ہو
گئی۔ متاثرہ نے انتقال سے قبل اپنے بیان میں سندیپ، رامو، لو کش اور روی پر
اجتماعی عصمت دری کا الزام لگایا تھا۔ اس کی بنیاد پر پولیس نے چاروں
نوجوانوں کو توگرفتار کیا مگر شروع سے اس پر لاپرواہی کے الزامات لگنے لگے۔
اہل خانہ کو بتائے بغیر پولس نے متاثرہ کی لاش نذرِ آتش کردی اور پوسٹ
مارٹم رپورٹ کی بنیاد بناکراجتماعی عصمت دری کا انکار کردیا۔ اس شنیع حرکت
پر عدالت نےاس کو پھٹکار بھی لگائی تھی۔اس معاملے پرجب ساری دنیا میں
ہنگامہ ہوگیا تو یوگی حکومت نے سی بی آئی تحقیقات کی سفارش کردی۔اب یہ
معاملہ یوگی کی پولیس کے ہاتھ سے نکل کر مودی کی سی بی آئی کے پاس چلا گیا
مگر’چور چور موسیرے بھائی‘۔ سی بی آئی نے سترّ مرتبہ متاثرہ کے خاندان سے
پوچھ گچھ کی اور چاروں ملزمان کی پولی گرافی ٹیسٹ بھی کیا مگرپھر وہی ڈھاک
کے تین پات رہا کردیئے گئے۔
اس سنگین معاملہ میں خصوصی ایس سی/ایس ٹی عدالت نے رامو، روی اور لو کش کو
رہا کرکے صرف سندیپ کو قصوروارپایا ۔ عدالت کی نظر میں اس نے بھی نہ عصمت
دری کی اور نہ قتل کیا بلکہ غیر ارادی طور پر اس سے یہ جرم سرزد ہوگیا اس
لیے اسے پھانسی کے بجائے عمر قید کی سزا دی گئی۔ یعنی اگر اوپر کی عدالت
میں یہ برقرار بھی رہے تب بھی چودہ سال بعد اس سنسکاری بھیڑیے کو رہا کرکے
اس کا جشن منایا جائے گا ۔ تین ملزمان کےرہائی کے بعد متاثرہ کےاہل خانہ اس
نامعقول فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے کیونکہ ان کے مطابق یہ فیصلہ
ان کے لئے نہیں بلکہ اعلیٰ ذاتوں کے لئے تو انصاف ہے ۔ کانگریس کی ڈولی
شرما نے اس کے لیے پولیس کی کمزور تفتیش کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ان کے مطابق
اتر پردیش کی بی جے پی شروع سے اس معاملے کو دبانے کے لیے پولیس اور
انتظامیہ کا غلط استعمال کرتی رہی ہے۔ سرکاری مشینری نے ملزم کو بچانے اور
معاملے کو دبانے کے لیے اسے 'سازش' کا روپ دینے کی کوشش کی تھی ۔
یوگی سرکار نے اس کی جانب توجہ ہٹانے کی خاطرصدیق کپن جیسے جانباز صحافی پر
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے اور فسادات کی سازش رچنے کا بے بنیاد الزام
لگا کرانہیں گرفتار کرلیا ۔ ڈی ایم کے ذریعہ متاثرہ خاندان پر دباؤ ڈالنے
کا ویڈیو بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ بی جے پی کے اشارے پر انتظامیہ نے
متاثرہ خاندان کو ہراساں کرنے اور ملزمان کو بچانے کی بھرپور کوشش کی اوراب
اس میں کامیاب ہوگیا۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر متاثرہ کا آخری بیان جسے
قانونی زبان میں 'ڈائینگ ڈیکلریشن' کہا جاتا ہے نظر انداز کردیا گیا۔ سی بی
آئی کی چارج شیٹ میں موجود اجتماعی عصمت دری کے الزام کو بھلا دیا گیا۔
پولیس اور انتظامیہ نے ابتدائی تفتیش میں سنگین غفلت برتی اور شواہد کے
ساتھ کھلواڑ کیا۔ اس طرح عدالت کے سامنے ایک کمزور استغاثہ پیش کرکے ملزمین
کی مدد کی گئی۔سچ تو یہ ہے کہ حکومت کےرویہ سے بی جے پی کا 'بیٹی بچاؤ'
نعرہ بے نقاب ہوگیا اور دلت برادری کی ایک نابالغ لڑکی کو انصاف سے محروم
کرنے کا جرم عظیم کیا گیا۔
ہاتھرس کے خصوصی جج ترلوک پال سنگھ کی دلیل یہ ہے چونکہ سانحہ کے بعد
متاثرہ لڑکی آٹھ دن تک بات چیت کرتی رہی۔ لہٰذا، ملزم کا ارادہ یقینی طور
پر لڑکی کو قتل کرنے کا نہیں تھالیکن اگر وہ فوراً مرجاتی تب تو نہ اس کا
کوئی بیان ہوتا اور کوئی مجرم گرفتار ہوتا۔ اس فیصلے سے قاتلوں کو یہ ترغیب
دی جارہی ہے کہ مظلوم کوفوری طور پر مارڈالو تاکہ مقدمہ ہی نہ بنے لیکن اگر
مقتول کی موت میں تاخیر ہوجائے تب بھی اسے غیر ارادی قتل کے زمرے میں ڈال
کر بچا یا جاسکتا ہے۔ ویسے دہلی کی نربھیا بھی فوراً فوت نہیں ہوئی تھی اس
کے باوجود مجرمین کو پھانسی کیوں دی گئی؟ کیا اس لیے کہ وہ دلت نہیں بلکہ
راجپوت تھی؟ جج کصاحب روی، رامو اور لوکش کے خلاف کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
اس لیے وہ بری کردیئے گئے لیکن مرنے والی لڑکی نے ان کا نام کیوں لیا؟ کیا
کوئی مظلومہ بستر ِ مرگ پر جھوٹ بول سکتی ہے؟عدالت کو ملزم سندیپ سسودیا کے
خلاف مجرمانہ قتل کے’مناسب ثبوت نہیں ملنے کی وجہ سے اسے عمر قید کی سزا
سنائی۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا ثبوت نہیں ملنے کی بات ہائی کورٹ میں اس
کی رہائی کے لیے لکھی گئی؟
عدلیہ اگر غیر منصفانہ فیصلے صادر کرنے لگے اس کے خلاف غم وغصے کا پیدا
ہونا لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے متاثرہ کی بھابھی نے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ ہمیں انصاف نہیں ملا، صرف ایک لڑکے کو مہرہ بنایا گیا ہے۔یہ
فیصلہ ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دباؤ میں کیا گیا ہے۔‘ یہ
الزام بلاوجہ نہیں لگایا ان کے مطابق عدالت میں انھوں نے وکلا کو یہ کہتے
سنا کہ ’’بھنگی کی لڑکی کے لیے چار چار قربانیاں نہیں دی جائیں گی‘‘۔ یہی
رام چرت مانس کی تعلیمات ہیں جن قولاً اور عملاً اظہار ہوا ہے۔ اس فیصلے پر
متاثرہ کا بھائی سوال کرتا ہے کہ ’اگر وہ بے قصور ثابت ہو گئے ہیں تو پھر
انھیں ڈھائی سال تک جیل میں کیوں رکھا گیا؟ سی بی آئی نے بڑی بڑی دفعات کے
تحت الزامات کیوں ثابت نہیں کیے؟ ‘ ظاہر ہے یہ ملی بھگت تھی۔ وہ سب عوامی
احتجاج کر ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور جب وہ مقصد پورا ہوگیا تو یہ
سارےاپنی ظالمانہ روش پر آگئے۔ بھائی کے مطابق : ’آخری تاریخ تک سب کچھ
ٹھیک چل رہا تھا، ان کی تمام ضمانتیں مسترد کر دی گئی تھیں لیکن اس اچانک
فیصلے سے ہم خوفزدہ ہو گئے‘‘۔ ایسے میں اگر وہ الزام لگاتا ہے کہ :’قانون
وانون کچھ نہیں ہے۔ انصاف ذات دیکھ کر ملتا ہے۔‘ تو اس میں کیا غلط ہے؟فخر
سےخود جمہوریت کی ماں قرار دے کر اپنی پیٹھ تھپتھپانے والے وزیر اعظم کو
گریبان میں جھانک کردیکھنا چاہیے کہ ملک میں عدل و انصاف کا دامن کس قدر
تار تار ہے۔
متاثرہ کےاہل خانہ کو اپنی وکیل سیما کشواہا سے کوئی شکایت نہیں وہ کہتے
ہیں کہ ’سیما نے اپنی محنت، ایمانداری اور بے خوفی سے ان کی بیٹی کو انصاف
دلانے کی بھرپور کوشش کی اور اب وہ ہمت نہیں ہاری ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سی
بی آئی ضروری ثبوت جمع کیے مگر انتظامیہ نے چھیڑ چھاڑ کی کیونکہ خود اس کے
خلاف بھی چارج شیٹ ہے۔ سیما کشواہا ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ تک جانے کا عزم
رکھتی ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فیصلے میں متاثرہ کے وکیل کا کوئی ذکر
ہی نہیں ہے سارا کچھ سی بی آئی اور ملزمین کے وکلاء اور ان کےدلائل کی
بنیاد پر ہوا ہے۔ ملزمین کے وکیل منا سنگھ پنڈیر کوتوایک کی سزا پر بھی
افسوس ہے ۔ ان کے مطابق میڈیا ٹرائل کی وجہ سے اس بے قصور کو سزا دی گئی۔
وہ بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہیں یقین
ہے کو سسودیہ بری ہو جائے گا۔وہی نہیں بلکہ علاقہ کے سارے راجپوت اس پر
متفق ہیں۔ انھیں مظلومہ کے آنسو نہیں بلکہ اپنی ذات برادری اور اس کی
اندھی حمایت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ نسلی عصبیت کا زہر انصاف کو سولی
چڑھادیتا ہے۔
موت سے قبل دیئے جانے والے بیان کے خلاف منا سنگھ کی دلیل یہ ہے مجسٹریٹ نے
سادہ کاغذ پر وہ بیان اپنی زبان میں لکھا تواس میں غلط کیا ہے؟ کیا ایسی
حالت میں وہ اسٹامپ پیپر ڈھونڈ کر وکیل صاحب کی زبان میں بیان لکھتے؟منا
سنگھ ملزمین کے خلاف سارے شواہد کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عصمت
دری ثابت ہی نہیں ہوئی۔ وہ بھلا کیسے ثابت ہوتی جبکہ اس کی جانچ ۶؍ دن بعد
کی گئی تھی؟ منا سنگھ بھی لڑکی کے قاتلوں کو سزا دلانا چاہتے ہیں اور
اگرانہیں اختیار دے دیا جائے تو وہ مظلومہ کے اہل خانہ کو’آنر کلنگ‘ کے
الزام میں پھانسی پر لٹکا دیں کیونکہ یہی منوسمرتی ہے۔ اس طرح کی سفاکی کا
مظاہرہ دنیا کے کسی خطے میں نہیں ہوتا۔یہاں پر عدالت بابری مسجد کی شہادت
کا جرم تسلیم کرتی ہے مگر کسی کو سزا نہیں دیتی ۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں
دھماکہ ہوتا ہے لیکن کو ئی مجرم نہیں قرار دیا جاتا ۔ اس لیے کہ وہ سب
سرکار کے باجگذار ہوتے ہیں اور جو اس کے خلاف بولتے ہیں وہ چاہے یلغار
پریشد میں بولیں یا سی اے اے تحریک میں ملزم قرار دے کر جیل بھیج دئیے جاتے
ہیں۔ اسی کو اندھیر نگری چوپٹ راج کہتے ہیں ۔ |