" تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر معرکہ آراء مضامین،مقالات،توضیحات ،اداریے اور شاعری کا دلکش مرقع ہے۔ایک اہم تاریخی دستاویز کی رونمائی
" />

"مولانا ظفر علی خان اور فتنہ قادیانیت"

"مولانا ظفر علی خان اور فتنہ قادیانیت"
" تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر معرکہ آراء مضامین،مقالات،توضیحات ،اداریے اور شاعری کا دلکش مرقع ہے۔ایک اہم تاریخی دستاویز کی رونمائی

"مولانا ظفر علی خان اور فتنہ قادیانیت"

"مولانا ظفر علی خان اور فتنہ قادیانیت"
" تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر معرکہ آراء مضامین،مقالات،توضیحات ،اداریے اور شاعری کا دلکش مرقع ہے۔ایک اہم تاریخی دستاویز کی رونمائی

مولانا ظفر علی خان 10 دسمبر 1873ء کو سیالکوٹ کے نواحی قصبے کوٹ مہرتھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وزیر آباد سے حاصل کی اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ ان کے والد مولانا سراج الدین احمد محکمہ ڈاک میں ملازم تھے ۔ اس کے باوجود ان کا جبلی جھکاؤ شعر و ادب کی جانب تھا۔ وہ ایک گونہ صحافت سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ان کا اخبار ’زمیندار‘ تھا۔ اخبار کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس اخبار کا اجراء پنجاب کے مسلم زرعی محنت کشوں اور زمینداروں کی فکری و نظری پیشوائی اور رہنمائی تھا۔ یہ عجب حسن اتفاق کہ اردو شاعری کے جریدے پر مہر دوام ثبت کرنے والے اردو کے تینوں بڑے شاعروں کا تعلق سیالکوٹ ہی کے مردم خیز خطے سے ہے۔ علامہ اقبالؒ ، مولانا ظفر علی خان، اور فیض احمد فیض۔ اس تناظر میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ گیسوئے اردو جو منت پذیر شانہ تھے، ان کی مشاطگی میں فرزندان پنجاب کسی بھی طور اہل زبان سے پیچھے نہ رہے۔

مولانا شاعری کی جملہ اصناف پر قدرت کاملہ اور مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ غزل، قصیدہ، رباعی، قطعہ، نظم اور نعت کون سی صنف سخن تھی جس پر انہوں نے طبع آزمائی کی ہو اور ارباب فن سے داد وصول نہ کی ہو ۔ زمیندار کا مدیر شہیر نظم و نثر دونوں میں یکتا تاز تھا۔ وہ نظم کا رستم تھا تو نثر کا سہراب۔ وہ یقیناًان مشاہیر میں سے تھے جنہوں نے زمین سخن کو آسماں بنایا تھا۔ مولانا خالی خولی صحافی نہیں بلکہ جامع الصفات شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت قادر الکلام اور کامل الفن شاعر، صاحب اسلوب ادیب، بے باک صحافی، جگر دار سیاستدان ، بے مثل اور بے بدل خطیب تھے۔ آپ کوعربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر یکساں عبور تھا۔ انہوں نے اس دور میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کی جب متحدہ پنجاب میں گریجوایٹس کی تعداد انگلیوں کی پوروں سے بھی کم تھی۔ انہیں علی گڑھ یونیورسٹی میں مولانا شبلی نعمانی اور پروفیسر آرنلڈ ایسے عظیم اساتذہ کے دسترخوان علم و فضل سے خوشہ چینی کا اعزاز حاصل ہوا۔

مولانا شبلی نعمانی کی سفارش پر انہیں 21 برس کی عمر میں نواب محسن الملک نے اپنا سیکرٹری بنایا۔ بعد ازاں وہ دکن حیدر آباد چلے گئے۔ وہ دکن کے اسسٹنٹ ہوم سیکرٹری بنے۔ میر عثمان علی خان کے اتالیق بھی رہے۔ قیام دکن کے دوران آپ نے رڈیار کپلنگ اور رائیڈ بیگرڈ کی ایک کتاب کا ترجمہ کیا۔ اس سے قبل جب وہ نواب محسن الملک کے سیکرٹری تھے تو اس دور میں وہ ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کی معرکۃ الآراء کتاب کا اردو ترجمہ ’’معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ کے عنوان سے کر چکے تھے۔ 29 سال کی عمر میں انہوں نے ’دکن ریویو‘ جاری کیا۔ طبع تلون پسند نے ان کے لیے قیام دکن کو مشکل بنا دیا تو وہ سو مالی لینڈ چلے گئے۔ وہاں بھی جی نہ لگا تو ممبئی آ گئے۔ اسی دور میں مولانا شبلی نعمانی کی شہرہ آفاق کتاب ’الفاروق‘ سامنے آئی تو آپ نے اس کا انگریزی ترجمہ ‘‘عمر دی گریٹ‘‘ کے نام سے کیا۔ ترجمے کی وادی میں ان کا اشہب قلم اس طرح گامزن ہوا کہ مختصر عرصہ میں انہوں نے انگریزی کے کئی فلسفیانہ مضامین کو بھی اردو کے قالب میں اس شستہ و شگفتہ پیرائے میں ڈھالا کہ اگر ان کے مصنفین کو اردو آتی اور ان میں سے اُس وقت حیات ہوتے تو وہ بے ساختہ داد دے اٹھتے کہ ظفر علی خان نے ہمارے مضامین اور کتابوں کا ترجمہ اس مہارت اور چابکدستی کے ساتھ کیا ہے کہ ہمیں رشک آتا ہے کہ ہم اپنے مافی الضمیر کا اظہار اس حسن و خوبی کے ساتھ انگریزی میں نہیں کر سکے۔

مولانا ظفر علی خان بحیثیت ایک سیاسی رہنما ہراہم موقع پر ہراول دستے میں سرگرمِ پیکار دکھائی دیے۔ جب ڈھاکہ کی سلیم منزل میں نواب سلیم اللہ خان نے برصغیر کے مسلم اکابرین کی موجودگی میں 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیا تو شرکائے اجلاس کی اکثریت بالائی مسلم طبقہ پر مشتمل تھی۔ اس اجلاس میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی صرف دو شخصیات نمایاں تھیں۔ ان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ مولانا ظفر علی خان اور یو پی سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد علی جوہر نمایاں تھے۔ یوں 1906ء ہی سے مولانا ظفر علی خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ مولانا ایک سیماب صفت شخصیت تھے۔

1909ء میں جب وہ کرم آباد میں نظر بندتھے تو انہی دنوں انہوں نے اپنے والد کے اخبار زمیندار کی زمامِ ادارت اپنے ہاتھوں میں لی۔ تب یہ ایک ہفت روزہ تھا۔ 1911ء میں لاہور آمد کے بعد انہوں نے ہفت روزہ زمیندار کے ڈیکلریشن کو روزنامہ زمیندار کے ڈیکلریشن میں بدل دیا۔ روزنامہ صحافت میں زمیندار کی آمد نے مسلم صحافت کو نئے جلال و جمال سے متعارف کرایا۔ زمیندار برصغیر کا پہلا اخبار تھا کہ اس نے عوامی حلقوں میں وہ پذیرائی حاصل کی کہ شہری اس کے شمارے کے شائع ہونے اور بازار میں آنے کا انتہائی بے تابی سے انتظار کرتے۔ ادھر اخبار بازار میں آتا اور دیکھتی آنکھوں اس کی کاپیاں انگریزی محاورے کے مطابق گرم کیک کی قاشوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں۔ اخبار کی مقبولیت اس حد تک بڑھی کہ مولانا کو اس کے صبح اور شام کے الگ الگ ایڈیشن شائع کرنا پڑے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ برسوں تک زمیندار کی روزنامہ اشاعت 30 ہزار رہی۔ یہ اس زمانے کے مطابق ایک لائق رشک اشاعت تھی۔

زمیندار سے اس کے قارئین کی نظریاتی و جذباتی وابستگی کا عالم یہ تھا کہ اخبارکی اشاعت کے لیے حکومت 10 ہزار کا زر ضمانت مانگتی اور شہری سورج غروب ہونے سے قبل یہ خطیر رقم زمیندار کے دفتر پہنچا دیتے۔زمیندار اور اُس کے مدیر نے تحریک قیام پاکستان کے دوران بھی گرانقدر خدمات انجام دیں۔ وہ نقیب تحریک قیام پاکستان تھے۔ قرار دادِ پاکستان کا ترجمہ کرنے کا اعزاز و افتخار بھی مولانا ہی کا مقدر بنا۔ زنجیر و تعزیر کے خارزاروں میں برس ہا برس آبلہ پائی کرنے کے باوجود ظفر علی خان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔

زیر نظر کتاب "مولانا ظفر علی خان اور فتنہ قادیانیت" عصر حاضر کے پروفیسر الیاس برنی جناب محمد متین خالد صاحب کی نئی تالیف ہے۔یہ تحفظ ختم نبوت پر مولانا ظفر علی خان کے معرکہ آراء مضامین و مقالات،توضیحات،اداریے،خطبات،مکاتیب اور شاعری کا دلکش مرقع ہے۔مولانا نے اِس فتنہ کے خلاف اپنے روزنامہ میں مستقل بنیادوں پر بڑے زبردست اور انقلابی مضامین تحریر کیے ۔زمیندار وقتاً فوقتاً قادیان نمبر کا شائع کرنے کا بھی اہتمام کرتا رہا۔اس علاوہ مولانا نے گھن گرج کے ساتھ اس فتنہ کے تاروپود کو اپنی رجزیہ شاعری سے بھی بے نقاب کیا۔اور جلسے جلوسوں میں اپنی شعلہ بار خطابت سے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی کی۔جس کی پاداش میں بھاری جرمانوں،اخبار کی ضبطی، ڈیکلریشن کی تنسیخ ،اور پریس کی ضبطی کے پے درپے وار بھی سہنے پڑے۔لیکن مولانا نے یہ سب مصائب خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔

زیر نظر کتاب"مولانا ظفر علی خان اور فتنہ قادیانیت"مولانا کی اسی جدوجہد کی وہ روداد ہے جسے کم وبیش سو سال کے بعد مرتب کرنے کا اعزاز برادرم محمد متین خالد صاحب کو حاصل ہوا ہے۔یہ کتاب مولانا کے "مضامین ومقالات"،"اداریے،شذرات و توضیحات" ،"فکاہات" ،"مکاتیب" ، "خطبات"،"شاعری"اور"مشاہیر ،مولانا ظفر علی خان اور قادیانیت"،"جیسے اہم حصوں پر مشتمل ہے ۔پانچ سو نوے (590) صفحات کو محیط یہ کتاب ایک تاریخی اور دستاویزی اہمیت کی حامل ہے ۔جس کی ترتیب میں جناب محمد متین خالد صاحب بہت محنت و مشقت اور جانفشانی برداشت کی ہے۔

رد قادیانیت کے حوالے سے جناب محمد متین خالد صاحب نے ایک ایسے منفرد موضوع کا انتخاب کیا ہے جس پر تحقیق وجستجو کوئی آسان کام نہ تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی مرزائیت کے خلاف معرکہ آرائیوں کو ایک کتابی صورت میں مدون کرنا نہایت صبر آزما مشقت کا طالب تھا مگر جب ربّ کی رضا اور نبی کریم ﷺ کی عطا شامل حال ہو تو کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی۔ جناب محمد متین خالد صاحب ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کمال جستجو اور عرق ریزی سے ایک طرف تو مولانا ظفر علی خان کے اخبارات زمیندار اور ستارہ صبح کی فائلوں سے مواد ڈھونڈا ،مرتب کیا اور نظر قارئین کیا۔

"مولانا ظفر علی خان اور فتنہ قادیانیت" تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر مولانا ظفر علی خان کے معرکہ آراء مضامین،مقالات،توضیحات ،اداریے اور شاعری کا دلکش مرقع ہے ۔جو اپنے دامن میں روانی وسلاست اور فصاحت و بلاغت سے بھر پور نظم و نثر کا ایک جامع بلند پایہ اور سحر انگیز ادبی سرمایہ لیے ہوئے ہے۔یہ ایک شاہکار کتاب ہے جو پہلی مرتبہ شائع ہورہی ہے جس کا مطالعہ ہر مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ہم اس شانداراور گرانقدر کاوش پر جناب محمد متین خالد صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اوراس اہم تاریخی دستاویز کے قیمتی تحفہ کی فراہمی پر بے حد شکر گزار ہیں ۔اللہ کریم برادرم محمد متین خالد صاحب کے علم و عمل میں برکتیں عطا فرمائے۔ہمیشہ آسانی و فراوانی میں رکھے اور اُن کی اس سمیت تمام کوششوں و کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔آمین
جزاک اللہ خیرا فی الدارین
محمداحمد ترازی
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357587 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More