تعلیمات از مولانا سید ابولاعلی مودودی ؒ

تلخیص و مختصر تبصرہ

راجہ محمد عتیق افسر
گزشتہ صدی کےمیں عالم اسلام میں احیائے اسلام کے لیے جو آوازیں اٹھیں ان میں ایک توانا آواز مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ کی تھی۔ عظیم عالم دین اور محقق سید ابوالاعلی مودودی 1903 "ءبمطابق 1321ھ میں خواجہ قطب الدین مودود کے خانوادے میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔آپ کے اباء اجداد میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں جوکہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیرکے شیخ الشیوخ تھے سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر مودودی کہلاتا ہے۔آپ نے ایک مذہبی گھرانہ میں آنکھ کھولی اور ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں گزارے اور گھرپررہ کر تعلیم حاصل کی بعدازاں ان کومدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیاگیا۔1914ء انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتفل ہوئے تو وہاں سیدمودودی کو عالم کی جماعت میں داخل کروا دیاگیا۔ دارالعلوم کے صدر حمیدالدین فراہی تھے جومولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے تاہم والد کے انتقال کی وجہ سے وہ دار العلوم میں 6 ماہ ہی تعلیم حاصل کرسکے۔
اللہ تعالی نے مولانا مودودی کو لکھنے کی خداداد صلاحیت سے نوازاتھا اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے اور اسی کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کیا چنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیااور متعدد اخبارات میں بطور مدیر کام کیا جن میں اخبار ’’مدینہ،،(بجنوراترپردیس) ’’تاج،،جبل پور اور جمعیت علمائے ہندکا روزنامہ ’’الجمیت،، دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔1925ءمیں جب جمعیت علما ئے ہندنے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سیدمودودی نے بطور احتجاج اخبار ’’الجمیت،،کی ادارت چھوڑ دی ۔قلم پہ دسترس آپ کی شہرہ ٔ آفاق کتب سے جھلکتی ہے ۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی اپنےفکروفلسفہ اور کارنامہ حیات کی بدولت بجاطورپراس کے مستحق ہیں کہ ان کے قلم سے ٹپکا ہوا ایک ایک جملہ اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک بیان محفوظ کرلیا جائےتاکہ اہل نظر کو ان کے کارنامہ زندگی کے تجرباتی مطالعہ میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کر نا پڑھے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒزندگی بھر تجدیدو احیاء دین کےلیے کوشاں رہے ایک باشعو رصاحب فکر کی طرح انہوں نے اپنی تاریخ پرتنقیدی نظرڈالی اس کا تجربہ کیا اور ایک راہ عمل متعین کرنے کی کوشش کی، ان کی مساعی کا نتیجہ جماعت اسلامی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
انہوں نے زندگی کے ہر پہلوپرکچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ان کی فکرسے اختلاف ممکن ہے لیکن اسے نظرانداز کر دیناممکن نہیں ہے۔سیدمودودی نے تعلیم کے مسائل پروقتافوقتا اظہار خیال کیا ہے ۔تعلیم کے حوالے سے آپ کے خطبات پر مبنی کتاب تعلیمات زیر بحث ہے ۔ اس کتاب میں مولانا مودودی ؒ مضامین اور خطبات پیش کیے گئے ہیں جن کے ذریعے مولانا نے ہمارے نظام تعلیم میں موجود نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا حل تجویز کیا ہے ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ، ندوۃ العلماء اور اسلامیہ کالج جیسے تعلیی اداروں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے اس کا حل پیش کیا ہے ۔ اسکے علاوہ پاکستان میں اسلامی نظام تعلیم کے قیام ، ایک اسلامی یونیورسٹی (اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ)کے قیام کی ضرورت اور اس کے لیے نصاب اور امت کے نوجوانوں کی ذمہ داریوں کو بھی احسن انداز میں بیان کیا ہے ۔جماعت اسلامی کی مجلس تعلیمی کی روداد بھی کتاب کا حصہ ہے ، اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ تاسیس جماعت اسلامی کے بعد مولانا مودودی نے تعلیمی نظام پر کس قدر توجہ دی ہے ۔ یہ کتاب انتہائی مفید ہے اور اس کا عمیق مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کا مختصر خلاصہ کچھ اسطرح بیان کیا جا سکتا ہے:
ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی نقص
جدید تعلیم کا مزاج ہمارے مزاج سے ہم آہنگ نہیں بلکہ اس کے بالکل منافی ہے۔مٖربی تعلیم کا فلسفہ ہے خدا سے عاری ہے ۔ اس نظام تعلیم میں اسلامی علوم بھی پڑھائے جائیں تب بھی نتیجہ وہی نکلے کا جو مغربی تہذیب کا منشاء ہیں ۔ جدید علوم کو جوں کا توں لے لینا درست نہیں بلکہ علوم عصریہ کو اسلامانے کی ضرورت ہےجبکہ علوم اسلامیہ کو اپنی اصل سے جوڑنے اور نئے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تقلید اعمی ٰ کو چھوڑ کر اجتہاد کی ضرورت ہے ۔
حل کی تجاویز
ہمارے ارباب فکر اس مسئلے سے نمٹنے اور اسلامی سپڑٹ پیدا کرنے کے لیے درسی کتب میں ردوبدل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس صورتحال سے نمٹنے کا درست طریقہ نہیں ۔ اصل میں مغربی اور اسلامی علوم کے باہم امتزاج میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے اور اس پہ مستزاد یہ کہ مغربی عنصر حاوی ہے ، غیر نصابی سرگرمیاں اور اداروں کا تمدن مغرب زدہ ہے ۔اس کے خاتمے کے لیے تعلیمی اداروں سےفرنگیت / مغربیت کا استیصال لازمی ہے جو غلامانہ ذہنیت اور ونائت(Inferiority Complex) کا باعث ہےاور لباس، زبان اور آداب و اطوار کے ذریعے اپنا تسلط جمائے ہوئے ہے۔ اس مقصد کے حسول کے لیے ضروری ہے کہ ایسے معلمین تدریس کے لیے مقرر ہوں جو دین و دنیا کے علوم پر یکساں عبور رکھتے ہوں اور ساتھ ہی اسلامی سیرت و کردار کا پیکر ہوں ۔عربی زبان کو لازمیر دی جائے کیونکہ یہی اسلام کے مآخذ اصلیہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم تک بنیادی عقائد، اسلامی اخلاق ، احکام فقہیہ ، اسلامی تاریخ( سیرت النبی ﷺ اور سیرت صحابہ ؓ)، عربی ، قرآن کے ساتھ جدید علوم کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر پڑھایا جائے ۔ اسلامی علوم میں تحقیق کی جائے اور ایسے افراد کی خدمات حاصل کی جائیں جو مختلف زبانوں سے اسلامی مواد اخذ کر سکیں ۔ اس طریقے سے مسلسل کام کیا جائے تو اس کے تکمیلی ثمرات پچاس برس کے بعد آنا شروع ہوں گے ۔
گلا تو دبا دیا تیرا اہل مدرسہ نے (اسلامیہ کالج کانوکیشن خطاب)
اس نظام تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پودے کو اس کی جائے پیدائش سے الگ کر دیا جائے اور لیباڑٹری میں اس پر تجربات کر کے دوبارہ اسی جگہ لگا دیا جائے ۔ پہلا ظلم تو یہ ہے کہ طلبہ کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو انہیں اسلامی فکر اورتمدن سے دورلے جاتی ہے پھر ان پر دوسرا ظلم یہ ڈھایا جاتا ہے کہ انہیں دوبارہ اسی معاشرے میں رہنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جس کا تمدن ، انداز فکر اور طرز حیات ان سے یکسر مختلف ہوتا ہے ۔اسطرح فارغ ہونے والے طلبہ امت مسلمہ کے لیے مفید نہیں رہتے بلکہ اس کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں ۔ اس کی کسی حد تک تلافی کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ ازخود اپنے آپ کو امت مسلمہ سے جوڑیں ۔ عربی زبان کو سیکھیں ، قراں کو سیکھیں اور سمجھیں ، سیرت النبی ﷺ کو پڑھیں اور اس پر عمل کریں ، اور اسلام سے متعلق جو رائے اذہان میں قائم ہو چکی ہے اسے تحقیق کے پیمانوں سے پرکھیں اور اور ایک مجتہدانہ رائے قائم کریں۔
نیا نظام تعلیم (ندوۃ العلماء سے خطاب خطاب)
انسان کو دنیا میں امامت کا فریضہ سونپ کر بھیجا گیا ہے اور اسے اشرف المخلوقات ہونے کا یہ اعزاز اسکے علم کی بنیاد پہ اسے دیا گیا ہے ۔ انسان کو سمع ، بصر اور فؤاد کی نعمتیں دی گئی ہیں ۔ سمع سے مراد دوسروں سے حاصل کردہ معلومات، بصر سے مراد ذاتی مشاہدہ اور فؤاد سے مراد ان دونوں معلومات سے اخذ کردہ نتیجہ ہے ۔ ان تینوں صلاحیتوں سے حاصل کردہ علم ہی ہے جس نے کبھی مصر ، کبھی یونان، کبھی بابل ، کبھی اسلام اور کبھی مغرب کو دنیا کا امام بنا دیا ۔امامت کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کے پاس موجود علم خدا شناس ہے یا نہیں ۔جب تک اس علم میں ترقی اور اضافہ ہوتا رہتا ہے وہ گروہ غالب رہتا ہے اور جب وہ گروہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس کا علم مکمل ہو گیا تو وہ امامت کے درجے سے ہٹ جاتا ہے یا ہٹا دیا جاتا ہے ۔اسلامی تہذیب کے زوال کا سبب یہ تھا کہ بصر اور فؤاد عرصہ دراز سے معطل رہے ہیں جبکہ سمع بھی پہلے کی حاصل شدہ معلومات تک محدود تھی اسکے مقابل مغرب نے تینوں صلاحیتوں کا استعمال کیا اور مسند امامت ہم سے چھن گئی ۔ انفرادی و اجتماعی طور پر امامت کے حصول کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ ہم تعلیم کو عام کردیں لیکن خدا شناس امامت کے لیے محض اتنا کافی نہیں ہے ۔ خدا شناس مامت محض ایک شخصی یا گروہی امامت نہیں ہے جو دنیاوی کامرانی کی منازل طے کر لے اور بس۔ خدا شناس امامت کے ذمے ایک طرف تو انسانوں کو دنیا میں کامیابی دلوانا ہے تو دوسری جانب اسے انسانوں کوآخرت میں بھی کامیاب کرانا ہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ انقلاب امامت کے لیے انقلاب تعلیم برپا کیا جائے ۔کیونکہ خدا ناشناس امامت کے زیر سایہ خداشناس امامت پنپ ہی نہیں سکتی۔صرف سمعی علوم تک محدود رہنے اور بصری و فؤادی علوم ترک کرنے سے تقلید اعمیٰ کا کلچر تو پیدا ہو سکتا ہے ایک اجتہادی فضا ء قائم نہیں ہوتی جو امامت کا خاصہ ہے۔جو نظام تعلیم خدا کو عملی زندگی سے منہا کرنے کے فلسفے پہ قاہم ہو اسے اپنے تعلیمی اداروں میں نافظ کر کے اداروں کو اسلامی نام دے دینے کا مطلب قوم کو کفر اور ارتداد کے راستے پہ ڈالنا ہے ۔اسی طرح اسلامی علوم کے ساتھ مغربی علوم کو جوڑ کر بھی کوئی انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا۔
مجوزہ نظام تعلیم کا خاکہ
مجوزہ نیا نظام تعلیم مندرجہ ڈیل خصوصیات کا حامل ہوگا:
1. اس نظام تعلیم میں دینی و دنیوی تعلیم کا امتیاز ختم کر دیا جائے گا۔ یہ امتیاز ہی دراصل مغرب کے اہداف میں سے ایک ہے۔
2. تکمیل تعلیم کے بعد کسی کو بھی مولانا قرار دینا اور جملہ مسائل میں فتوی ٰ کا اہل سمجھنا ممنوع قرار پائے گا۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم میں بندے کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ دین اور دنیا کے علوم کی بنیادوں کو سمجھ سکے ۔ اس کے بعد کسی ایک شعبے میں تخصص کی طرف لگا دیا جائے ۔ ہر شعبے کے متخصص کو اس شعبے سے متعلق فتوی ٰ کا حق دیا جائے ۔
3. اس نظام تعلیم کی تیسری خصوصیت یہ ہو گی کہ یہ تعلیم بے مقصد نہیں ہوگی بلکہ اس کا مقصد مسلک خدا پرستی کی امامت دنیا میں قائم کرنے کے لیے جہاد کبیر کرنے کی تیاری ہوگا۔
اس نظام تعلیم کے نتیجے میں ایسے لوگ تیار ہوں گے جو ذہنی غلامی سے آزاد ہوں گے اور ان میں اتنی قوت ہو گی کہ وہ اپنے قول اور عمل کے ذریعے جاہلیت جدیدہ اور جاہلیت قدیمہ سے مرغوب انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی جانب لے آئیں گے ۔البتہ یہ سب کرنے کے لیےایسی تربیت گاہ کی ضرورت ہے جو علم و عمل کے دھنی معلمین تیار کر سکے ، استعداد کار رکھنے والے متعلمین تلاش کرنا ہوں گے اور اس نظام کو قائم کرنے کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا ہوں گے جو اس نظام کو قائم کرنے کے لیے کوشاں افراد مہیا کریں گے ۔
تربیت گاہ کے قیام کے لیے تجاویز(مجلس تعلیم کی روداد)
یہ بات ذہن نشین ہونا چاہیے کہ اس وقت کوئی بھی حکومت اس نظام تعلیم کے قیام کا بیڑہ نہیں اٹھا رہی لہذا جو جماعت اس نظام تعلیم کے قیام کے لیے کوشاں ہو اسے فرض اولین سمجھتے ہوئے اس کام کو آگے بڑھانا ہے ۔ لہذا پہلے مرحلے میں عمرانی علوم کو ہدف بناکر اس نظام کے لیے افراد سازی کی جائے گی ۔ اس حوالے سے اعلی ٰ تعلیم کے ضمن میں فلسفہ ، تاریخ ، معاشیات، قانون اورعلوم اسلامیہ جیسے علوم اور ان کے جزئیات سے متعلق علمی افراد تیار کریں گے ۔جو ذہنی و فکری لحاظ سے پورے مسلمان ہوں اور اسلام کے لیے دنیا سے لڑنے کا جذبہ رکھتے ہوں ۔تفقہ فی الدین اور مومنانہ فراست رکھتے ہوں ، اوصاف حمیدہ سے متصف اور اوصاف رذئلہ سے پاک ہوں اور ساتھ ہی ساتھ خوددار ، جفا کش اور صابر ہوں ۔
ثانوی تعلیم کے لیے عربی اور دیگر زبانوں پہ عبور ، قرآن فہمی کی ابتدائی مششقیں اور اصول حدیث اور کچھ احادیث کی عمومی تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے لیے مخصوص کردہ علوم کی تدریس کے لیے تیاری کرنا ہے ۔
ابتدائی تعلیم کے لیے معیار اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ پیدا کرنا اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنا ہے ، عملی طور پر انہیں صحت مند اور توانا بنانا اور علمی طور پر لکھنے پڑھنے کے قابل بنانا ہے ۔
معیار مطلوب:
قرآن و حدیث پہ اس قدر دسترس کا حصول کہ طلبہ ان مآخذ سے رہنمائی لینے کے قابل ہو جائیں ۔اصول فقہ سے اس قدر واقفیت کہ مختلف مذاہب فقہ سے دلیل و حجت اخذ کر سکیں ۔قدیم علوم سے اس قدر واقفیت کہ قدماء سے استفادہ کر سکیں اور جدید علوم سے اس قدر واقفیت کہ حالات کا صحیح اندازہ کر سکیں ، تمدنی مسائل کی سمجھ اور تاریخ پر اجمالی نظر رکھ سکیں ۔
اسلامی نظام تعلیم
اسلامی نظام تعلیم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ برصغیر میں موجود قدیم اور جدید نظام تعلیم کو سمجھا جائے ۔ قدیم نظام تعلیم سے مراد وہ نظام تعلیم ہے جو انگریز کی آمد سے قبل یہاں پہ رائج تھا ۔ یہ اس دور کے تقاضوں کے مطابق امور دنیا نمٹانے کے لیے وضع کیا گیا تھا ۔ یہ نظام تعلیم اسلامی تو نہ تھا لیکن دینی ضرورتوں کو کسی حد تک پورا کرتا تھا اس لیے علماء نے اس سے جڑے رہنے کا فیصلہ کیا ۔اس کے متوازی جدید نظام تعلیم ہے جو انگیز نے یہاں نافذ کیا ۔ اس کا مقصد انگریز کے استبداد کو دوام دینا تھا لہذا انہوں نے ایسا نظام وضع کیا جو برصغیر کی آبادی کو ذہنی غلام بنا سکے ۔یہ نظام تعلیم ملحدانہ تعلیم کا حامل ہے جو اخلاقی اقدار سے تہی ہے ۔ ہمارے ارباب اختیار نے اسی نظام کے تحت دینیات کی درسی کتب کو اس کا حصہ بنا کر اسے اسلامے کی کوش کی جو کہ ایک غلط تدبیر ہے ۔اس کا حل ایک اسلامی نظام تعلیم ہے جو
مقصدیت سے بھرپور ہو، دین و دنیا کی تفریق نہ کرتا ہو ، اور تعمیر سیرت کا آئینہ دار ہو۔ابتدائی ، ثانوی اور اعلی ٰ تعلیم میں خیال رکھا جائے کہ اسلامی عقائد خالص صورت میں نئی نسل کو منتقل ہوں ، وہ اخلاقیات کی تعلیم سے لیس ہوں اور یہ اخلاقیات ان کے کردار کا لازمی جزو بن جائیں ، وہ علوم فقہیہ پہ دسترس رکھتے ہوں ، عربی پہ اس قدر دسترس رکھتے ہوں کہ قرآن و سنت سے خود استفادہ کر سکیں ۔ اسکے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم اور فنون پہ بھی دسترس رکھتے ہوں تاکہ دنیوی معاملات کو بجا طور پہ نمٹا سکیں ۔جبکہ کچھ افراد کو اپنے اپنے شعبے میں اختصاص کی تعلیم بھی دی جانا چاہیے تاکہ اس شعبے میں تعلیم میں تحقیق کا عمل بھی جاری رہے ۔خواتین کی تعلیم کا بھرپور انتظام ہو لیکن انہیں مرد بنا کر تلاش روزگار سے وابستہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ تعمیر معاشرہ کی ذمہ داری نبہانے کے لیے ۔اسی طرح اس نظام تعلیم میں قومی زنان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور انگریزی کو محض ایک زبان کی حیثیت سے سیکھا جائے ۔ عربی رسم الخظ کو فروغ دیا جائے رومی ، لاطینی اور ہندی رسم الخط میں لکھائی سے پرہیز کیا جائے ۔
اسلامی درسگاہ کا تصور
ایک ایسی درسگاہ کی ضرورت ہے جو ایسے افراد تیار کر سکے جو امت مسلمہ کو جدید دور کے مطابق دین کے معاملے میں ٹھیک ٹھیک رہنمائی کر سکیں ۔یہ ادارہ سکونتی ہو جہاں طلبہ و اساتذہ رہائز پزیر ہوں ۔اس کا ماحول اسلامی ثقافت کا آئینہ دار ہو اور اس سے متعلقہ افراد اخلاق و کردار کا نمونہ ہوں ۔یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ۔اس کے اساتذہ للہیت کے پیکر ہوں اور اس سے فارغ التحصیل طلبہ اسلمی تۃذیب پہ فخر کرتے ہوئے اسے دنیا پہ غالب کرنے کا عزم لیے ہوئے ہوں ۔
نوجونوں کی ذمہ داریاں
اللہ کی زمیں پر ہماری تہذیب و ثقافت، ہمارا تمدن ، ہمارا نظام زندگی اگر قائم رہ سکتا ہے تو اسی صورت میں کہ جو اسلاف سے میراث پائی ہے وہ اگلی نسل کو دیاند داری سے منتقل کر دی جائے ۔کوئی قوم محض اسلیے فنا نہیں ہوتی کہ اس کی نسل ختم ہو جائے بلکہ اس لیے بھی فنا ہوتی ہے کہ اس کا تشخص ختم ہو جائے ۔یہ سرزمین اللہ نے ہمیں اس لیے عطا کی ہے کہ یہاں اسلامی تہذیب جلوہ گر ہو۔اس پہ اللہ کا دین غالب ہو۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ جو نسل اس وقت درسگاہوں میں زیر تعلیم ہے وہ اسلامی تہذیب کی حامل ہو ۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ حکومت ایسا نظام تعلیم وضع کرے جو انہیں اسلامی تہذیب سے آراستہ کرے اور دوسرا حل یہ ہے کہ طلبہ ازخود اس سے اپنا تعلق استوار کریں ۔
طلبہ کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان ہیں اور اس سرزمین پہ انہیں مسلمان کی حیثیت سے رہنا ہے اسکے لیے انہیں اپنے عقائد سے پوری طرح جڑے رہنا ہے اور کسی ملحد نظریے کا شکار ہونے سے خود کو بچانا ہے ۔اسلامی اخلاق اور اسلامی تہذیب کے ساتھ کود کو وابستہ کرنا ہے ۔ مسلم معاشرے میں غیر اسلامی تہذیب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور کسی صورت غیر اسلامی تہذیب کو کھلی چھوٹ فراہم نہیں کرنا۔
حکومت کو چاہیے کہ نوجوانان ملت کی تعمیر سیرت کا بیڑہ اٹھائے،ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلامی نظام تعلیم کو رائج کرے اور ایسے افراد جو غیر اسلامی تہذیب کو عام کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے ۔تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کا انتظام کیا جائے تاکہ درسگاہوں سے فارغ ہونے والے نوجوان اپنے اپنے شعبوں میں مثالی افراد بن کر خدمات انجام دے سکیں ۔
اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تحریر و تقریر سے بڑھ کر عملی جدو جہد کرنے والا یہ روشن ستارہ 22ستمبر 1979ءکو 76 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ آپ نے جانے سے پہلے امت مسلمہ میں بیداری کی ایک تحریک برپا کر دی ہے جس کے اثرات چار دانگ عالم میں نظر آتے ہیں ۔ آپ نے جس نظام تعلیم کا نقشہ امت مسلمہ کو پیش کیا ہے وہ امت مسلمہ کے لیے زوال سے نکلنے کے لیے شاہ کلید کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس وقت عالم اسلام کی حکومتوں پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان خطوط کے مطابق اپنے زیر انتظام علاقوں میں نظام تعلیم کو از سر نو ترتیب دیں ۔اگر انہی خطوط پہ ہمارا نظام تعلیم ترتیب دیا جائے تو آئندہ نصف صدی میں ہم دوبارہ عروج کی جانب اڑان بھرنے کے قابل ہو جائیں گے ۔


Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 106371 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More