امسال دہلی کے عالمی کتاب میلہ میں بائیبل کی فروخت پر تو
اعتراض نہیں کیا گیا مگر اس کے مفت میں تقسیم کو بزور قوت روکنے کی کوشش کی
گئی اور توڑ پھوڑ کی واردات بھی ہوئی ۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ جس کتاب کو
خریدا جاسکتا ہے اسے مفت میں حاصل کرنے پر پریشانی کیوں ہو اس کا خیر مقدم
کیا جانا چاہیے ۔ جہاں تک زور زبردستی کا سوال ہے وہ تو دونوں صورتوں میں
یہ ممکن نہیں ہے لیکن چونکہ مفت تقسیم میں ترغیب و دعوت کا پہلو ہے اس لیے
اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ عصرِ حاضر میں فسطائی طاقتیں اظہارخیال یا دین کی
پیشکش پر علیٰ الاعلان قدغن لگانے سے تو کتراتی ہیں مگر دعوت دین پر بگڑ
جاتی ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی اور انجبیر عمر گوتم کی گرفتاری کی اصل وجہ
یہی ہے۔ اس معاندانہ رویہ سے متاثر ہوکر کچھ لوگ دعوت و تبلیغ کے درمیان
فرق کرنےکی وکالت کرتے ہیں حالانکہ یہ بے معنیٰ تفریق ہے ۔ انسان بلانے کے
لیے ہی بتاتا ہے اور چونکہ دین کے معاملے میں زور زبردستی سے اسلام نے منع
کیا ہے اس لیے جبر سے بچنے کی خاطر مذکورہ احتیاط کااطلاق دین فطرت پر نہیں
ہوتا۔
ملک کی فسطائی قوتیں چونکہ آخرت کے عذاب سے خبردار کرنے کو ڈرانا دھمکانا
اور جنت کی ترغیب کو بھی لالچ دینے کے مترادف سمجھتی ہیں اس لیے ان کے بے
معنیٰ اعتراضات کا پاس و لحاظ کیا جائے تو دین کی تبلیغ یعنی ابلاغ کا کام
بھی نہیں ممکن ہے ۔ داعیان ِ دین اس سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ دعوت وابلاغ
کی یہ تفریق ایسی ہے جیسے کسی درس گاہ میں تعلیم و تدریس کا اہتمام کرنے کے
بعد امتحان اور اس میں کامیابی و ناکامی کے ذکرکو جرم قرار دے دیا جائے۔
یعنی طلباکو پڑھایا تو جائے مگر یہ نہ کہا جائے کہ سال کے آخر میں محنت
کرنے والے کامیاب ہوں گے اور غفلت میں مبتلا بچے ناکام ونامراد ہوجائیں گے
کیونکہ یہ بھی لالچ دینا اور ڈرانا دھمکانا ہوجائےگا ۔امتحان اگر نہ ہو تو
سند بھی نہیں ملے گی اور درجات طے نہیں ہوسکیں گے ۔اس طرح تعلیمی ارتقاء کا
عمل رک جائے گا ۔ ایسی درسگاہ میں تعلیم کا معیار کتنا بھی اونچا کیوں نہ
ہو کوئی سرپرست اپنے بچوں کو نہیں داخل کریں گے ۔ یہ مثال حرص وطمع اور خوف
و ہراس کے معاملے کو آخرت تک وسیع کرنے والوں پر صادق آتی ہے۔
انبیاء کی سیرت گواہ ہے کہ دعوت ِ اسلامی کو کبھی بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت
نہیں کیا گیا ۔ اس لیے مخالفت کے خوف سےاصطلاحات بدلنا بے سود عمل ہے۔
مخالفین کا اصل اعتراض تو اس بات پر ہے کہ اکثریت کے دین سے علی الرغم کوئی
بات ہی نہ کی جائے ۔ ملک میں گھر واپسی کی اجازت تو ہومگر کسی کا اپنے ضمیر
کی آواز پر اسے ترک کرناگوراہ نہ ہو۔ مخالفین اسلام الفاظ کے بجائے عمل
اور اس کے اثرات سے نالاں ہیں اس لیے الفاظ کا کھیل ان کو مطمئن نہیں
کرسکتا۔ دعوت کا کام کسی کے اطمینان و اجازت پر موقوف نہیں ہے ۔دوسروں کی
مخالفت سے حیرت زدہ یا خوفزدہ ہونے کی چنداں ضرورت بھی نہیں ہے۔ ارشادِ
ربانی ہے: ’’اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو تم لوگوں کو نجات کی
طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو‘‘۔یہاں راہِ نجات
اور دعوتِ نار سے مراد یہ ہے کہ:’’ تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں
اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اُن ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنہیں میں
نہیں جانتا، حالانکہ میں تمہیں زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا
ہوں‘‘۔ گویا دعوت ِتوحید کے مقابلے کفر و شرک کی جانب پیش رفت آگ میں جانے
کے مترادف ہے۔
اس تمہید کے بعد مخالفین کادباو بڑھنے کی صورت میں داعیانِ اسلام کو نہایت
پامردی کے ساتھ یہ اعلان کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ :’’ نہیں، حق یہ ہے اور
اِس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اُن کے لیے نہ
دنیا میں کوئی دعوت ہے نہ آخرت میں، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے،
اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں ۔ آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں،
عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اُسے یاد کرو گے‘‘۔ یعنی بروزِ قیامت تمہیں
اپنی غلطی کا احساس تو ہوجائے گا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس
وقت مہلت عمل ختم ہوچکی ہوگی ۔ اہل ایمان جب چہار جانب سے گھر جاتے ہیں اور
ان کو بظاہر کوئی سہارا نظر نہیں آتا تب بھی وہ حزن و یاس کا شکار ہوئے
بغیر کہتے ہیں :’’ اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں
کا نگہبان ہے" ۔رب کائنات پر غیر متزلزل توکل کے بغیر بندۂ مومن آزمائشی
حالات میں اپنا فرضِ منصبی نہیں ادا کرسکتا ۔ آیات کا یہ سلسلہ اس بشارت
پر اختتام پذیر ہوتاہے کہ :’’آخرکار اُن لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اُس
مومن کے خلاف چلیں، اللہ نے اُن سب سے اُس کو بچا لیا، اور فرعون کے ساتھی
خود بدترین عذاب کے پھیر میں آ گئے ‘‘۔ ماضی میں یہی ہوتا رہا ہے اور
مستقبل میں بھی اسی سنت اللہ کا ظہورہوگا۔
|