جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں اس زمانے میں مجھے
جن ان گنت مسائل اور پریشانیوں کا جوسامنا مجھے کرنا پڑا۔ وہ شاید ہی کسی
اور کے حصے میں آئی ہوں۔اس وقت زندگی بہت سستی اور سلو بھی تھی لیکن مالی
وسائل نہ ہونے کے برابر تھے ۔آپ اس بات کا اندازا کرسکتے ہیں کہ جب میں
سکول جانے لگا تو ابتداء میں مجھے پندرہ پیسے آدھی چھٹی میں کھانے کے لیے
ملا کرتے تھے ۔اس وقت پندرہ پیسوں میں ہی سکول کی دوکان پر بیٹھے ہوئے
دوکاندار سے کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جاتا تھا ۔ایک اور خوانچہ فروش ابلے
ہوئے کالے چنے کاغذ کی پڑیاں میں ڈال کر اس پر نمک مرچ کا چھڑکاؤ کرکے دیتا
۔بعد ازاں لیموں کا رس بھی ڈال دیتا تو یہ ایک اچھی تفریح بن جاتی تھی ۔
کچھ عرصے بعد مجھے ایک ایسا بے مثال دوست ملا جس کا نام محمد اشرف تھا ، وہ
گورومانگٹ پنڈ گلبرگ تھرڈ لاہور کا رہائشی تھا، ان کے گھر پر دھوبی گھاٹ
تھا جس پر اس کے والد لوگوں کے کپڑے دھویا کرتے تھے ۔ ان کے مکان کے ساتھ
ہی ایک دوکان بھی تھی جہاں دھلے ہوئے کپڑوں کو بھاری بھرکم کوئلوں والی
استری سے پریس کیا جاتا تھا ۔ چونکہ والد کا ہاتھ بٹانے میں اشرف بھی اپنا
کردار ادا کرتا تھا ۔اس لیے اس کے پاس اکثر پیسوں کی فراونی رہتی ۔ آدھی
چھٹی کے وقت میں چارآنے ( چونی ) اس کے سپرد کردیتا اور وہ اپنے پاس سے
بارہ آنے ڈال کر دو نان لے لیتا جن پر دال کی لپائی کی ہوتی ۔ ہم دونوں مزے
مزے سے کھاتے ۔ نہ میں نے کبھی شرمندگی محسوس کی اور نہ اس نے کبھی مجھے
طعنہ دیا کہ تم چار آنے ہی کیوں لے کر آتے ہو ۔ وقت گزرتا رہا اور ہر آنے
والے وقت میں ہم پہلے سے بڑی کلاس میں ترقی کرتے چلے گئے ۔ یہ بھی بتاتا
چلوں کہ اس زمانے میں کولڈ ڈرنک ( یعنی بوتل ) پینے کا ہمیں بہت شوق تھا
کیونکہ بوتل پینا بھی ایک اعزاز بن چکا تھا لیکن جیب میں اتنے پیسے نہیں
ہوتے تھے کہ بوتل کو خرید کر پی جا سکے۔ اس لیے جب بھی بوتل پینے کو دل
کرتا تو میں سائیکل پر سوار ہوکر اپنے کلاس فیلو اشرف کے گھر چلا جاتا ۔
ایک مرتبہ میرے ساتھ دو تین اور بھی دوست بھی شامل ہوگئے ۔ عید کا دن تھا
اور دل بار بار بوتل پینے کو کر رہا تھا چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اشرف کو
عید مبارک کہنے کے لیے چلتے ہیں ۔جب ہم اس کی دوکان پر پہنچے تواس نے ہمارا
والہانہ استقبال کیا۔ ہماری ضیافت کے لیے اپنی دوکان پر رکھی ہوئی چار
بوتلیں کھول کر ہمارے سپرد کردیں ۔ جب بوتلیں ہمارے ہاتھ میں آئیں تو ہم نے
اپنے دوست اشرف سے ایک اور درخواست کی کہ اپنے گھر سے کیمرہ لے کر آئے اور
ہماری تصویر بنائے ۔ جب کیمرہ آگیا تو ہمارے ایک پختہ گھر کی دیوار کے ساتھ
قطار بناکر کھڑے ہوگئے اور بوتلیں ہاتھ میں پکڑے ہووں کی تصویر بنا لی
گئی۔یہ تصویر اب بھی شاید میرے گھر میں محفوظ ہو۔جبکہ ہمارے گھر میں اگر
کوئی مہمان آتا تو اسے شکرکولا ہی پلایا جاتا ۔جب مہمان شکر کولا پی رہا
ہوتا تو والدہ ہمیں گھور کر آنکھوں ہی آنکھوں سے اس جگہ سے دور چلے جانے کا
حکم دیتیں ۔والدہ کی آنکھوں کا اشارہ ہم سمجھ جاتے اور اپنے دل پر پتھر رکھ
کر وہاں سے دور چلے جاتے ۔ہمارے رشتے میں ایک خالو ( محمد منیر) بھی تھے۔
جب بھی عارف والا سے ہمارے گھر آتے تو ہمارے لیے کھانے پینے کی اچھی خاصی
چیزیں لے کر آتے -اس لیے وہ ہمیں بہت اچھے لگتے تھے بلکہہم ہمیشہ ان کے آمد
کا انتظارکرتے رہتے ۔آج وہ دنیا میں نہیں ہیں تو ہر نماز میں کے لیے ان کے
لیے دعا مغفرت نکلتی ہے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ میری خالہ اقبال بیگم ایک
مرتبہ ہمارے گھر تشریف لائیں تو اس نے پیار سے مجھے اپنے پاس بلایا اور
اپنے دوپٹے کے پلو سے دوآنے نکال کر مجھے تھمادیئے ۔دو آنے لے کر یوں محسوس
ہورہا تھا جیسے مجھے قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔خالہ نے مجھے کہا بیٹا جاؤ
ان پیسوں کی کوئی چیز کھا لو ۔ میں نے کہا خالہ میں ان پیسوں سے اپنے گھر
میں ہینڈ پمپ لگواؤں گا ۔ تاکہ ہمیں گھر سے دور ایک کنویں سے پانی نہ لانا
پڑے ۔ میری اس بات پر خالہ اقبال بیگم نے قہقہ لگایا اور میری والدہ کو
مسکرا کرکہنے لگی یہ تمہارا بیٹا بڑی سمجھ دار لگتا ہے یہ بہت دور کی سوچتا
ہے ۔اس خالہ کے سمیت مزیدتین خالائیں دنیا سے باری باری رخصت ہو چکی ہیں
لیکن جب بھی میں تہجد کی نماز کی ادائیگی کے لیے مصلے پر کھڑا ہوتا ہوں تو
اپنی خالہ سمیت تمام عزیز و اقارب کی بخشش کے لیے دعا کرتا ہوں ۔میں سمجھتا
ہوں یہ ان کا حق ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں مجھے بہت پیار دیا ۔حسن اتفاق
سے میرے والدین سمیت تمام فوت ہونے والے عزیز مجھے خواب میں ملتے ہیں ان سے
ملنے کے بعد مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی میری زندگی میں موجود ہیں ۔
...............
ایک دن کسی کے بتانے پر والدین کو اطلاع ملی کہ گورومانگٹ روڈ کے قریب ون
کیو چوک کے پاس ایک فیکٹری ہے جس میں روئی سے مشین کے ذریعے بنولہ الگ کیے
جاتے تھے اور روئی الگ ہو جاتی ۔وہاں بھی اڑھائی روپے دیہاڑی کے ملا کرتے
تھے ۔ اس فیکٹری میں ملازمت کے خواہاں لوگ گیٹ کے باہر ہر صبح قطار میں
آکھڑے ہو جاتے تھے ۔ جتنے افراد کی فیکٹری والوں کو ضرورت ہوتی، ان کو
ملازم رکھ لیا جاتا اور باقی لوگ مایوس ہوکر واپس لوٹ جاتے ۔دو تین دن تو
میں بھی قطار میں کھڑا ہوتا رہا لیکن مجھے نوکری نہ ملی ۔جس سے سخت مایوسی
کا شکار ہوا۔ایک صبح اپنے دل میں ایک بار پھر یہ امید لے کر بنولہ فیکٹری
کے باہر جا کھڑا ہوا ۔اﷲ نے کرم کیا اور ملازمت کے لیے منتخب کرلیا گیا
۔یہاں میرے ذمے روئی کے بڑے بڑے بوروں کو کھینچ کر مشین کے قریب لانا اور
بوری کا منہ کھول کر ساری روئی اس مشین میں ڈال دینا تھا۔ جس سے روئی اور
بنولہ الگ الگ کرنے کا حتمی کام مشین ہی انجام دیا کرتی تھی ۔چونکہ وہاں
بھی رات کی ڈیوٹی ہوتی تھی، اس لیے ساری رات جاگنا میرے لیے کئی مسائل پیدا
کررہا تھا ۔ پھر تھکاوٹ بھی خاصی ہو جاتی ۔ انہی دنوں میرے بڑے بھائی محمد
رمضان خاں لودھی جو گلبرگ فیکٹری ایریا میں موجود سروس شوز فیکٹری میں
دیہاڑی دار کی حیثیت سے کام کرتے تھے ان کو رات نو دس بجے چھٹی ہوا کرتی
تھی ۔ سردیوں کے موسم میں جب فیکٹری ایریا کی درمیانی سڑک سنسان ہو جاتی
تھی بلکہ رات کے اندھیرے میں اس قدر ڈوب جاتی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ
دیتا تھا کئی دن تو بھائی خیریت سے گھر پہنچتے رہے۔ ایک دن جب وہ ہفتہ وار
تنخواہ لے کر اپنے جسم پر نئی گرم چادر لپیٹ کر فیکٹری سے نکل کر گھر کی
جانب روانہ ہوئے تو سرتاج سلائی مشین کی مسجد کے قریب ( جہاں آجکل ڈان
اخبار کا دفتر ہے )اندھیرے میں پہلے سے چھپے ہوئے ایک ڈاکو نے بھائی رمضان
پر اچانک حملہ کردیا ۔ یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ بھائی رمضان بوکھلااٹھے
اور اس سے اپنی جان چھڑانے لگے ۔ اس ہاتھا پائی میں بھائی رمضان کے اوپر جو
نئی گرم چادر تھی وہ ڈاکو کے ہاتھ میں رہ گئی اور بھائی رمضان اپنی جان بچا
کروہاں سے اس لیے تیز بھاگے کہ ڈاکو ان کا پیچھا نہ کررہا ہو۔ جب رات گیارہ
بجے وہ گھر پہنچے تو والدہ نے دروازہ کھولتے ہوئے پیار کے لہجے میں کہا
میرا شیر آگیا اے ۔ بھائی رمضان پر چونکہ اچانک حملے کا خوف طاری تھا اور
وہ بھاگتے ہوئے گھر پہنچے تھے ۔اس حالت میں انہوں نے صرف اتنا کہا ہا ں آپ
کا بیٹا ڈاکووں سے بچ کے گھر آگیا ہے ۔یہ سنتے ہی والدہ پر بھی خوف طاری
ہوگیا ان کو اس بات کا خوف تھا کہ ہوسکتا ہے وہ ڈاکو اپنے ساتھیوں کے ساتھ
پیچھا کرتا ہوا گھر نہ پہنچ جائے ۔ ہم ابھی چھوٹے ہی تھے۔ اس لیے گہری نیند
سو رہے تھے ۔ حسن اتفاق سے اس وقت میرے والد جو بہت بہادر اور دلیر مانے
جاتے تھے وہ ابھی ڈیوٹی سے واپس نہیں آئے تھے۔ ان کے آنے کا وقت رات بارہ
بجے تھا ۔ اس خوفزدہ ماحول میں والدہ اور بھائی رمضان کے لیے ایک گھنٹہ
گزارنا مشکل ہو گیا ۔والدہ نے گھر کے دروازہ کو نہ صرف لاک کیا بلکہ بھاری
بھرکم چیزیں لاکر دروازے کے پیچھے اس لیے رکھ دیں کہ اگر کوئی طاقت سے
دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا تو تب بھی دروازہ نہ کھل سکے۔بھائی رمضان
سردی اور خوف سے کانپ رہے تھے، والدہ نے گرم چادر کے بارے میں پوچھا تو
بھائی نے بتا یا کہ وہ ڈاکو نے چھین لی ہے ۔والدہ نے اسے اپنی رضائی میں
لیٹایا اور خود ایک لاٹھی لے کر متوقع صورت حال سے بچنے کے لیے چھوٹے سے
گھر میں ٹہلنے لگی ۔۔وقت تھا کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ تھوڑی سی
آواز بھی خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھی ۔ اﷲ اﷲ کرکے رات کے بارہ بجے اور
والد صاحب کے آنے کا وقت ہوا ۔ والد صاحب نے جب دروازے پر دستک دی تو والدہ
نے گرج کر پوچھا تم کون ہو ۔ والد صاحب نے اپنا نام بتایاکہ میں ہوں ۔تب
والدہ نے تمام بھاری چیزیں دروازے کے پیچھے سے ہٹاکر دروازہ کھولا ۔ والد
صاحب نے گھر میں داخل ہوتے ہی ان حفاظتی اقدامات کے بارے میں پوچھا تو
والدہ نے بتایا کہ بیٹا رمضان ہفتہ وار تنخواہ لے کر فیکٹری سے واپس آرہا
تھا کہ سرتاج سلائی مشین کی فیکٹری کے قریب ڈاکووں نے اس پر اچانک حملہ
کردیا ۔ رات کے اندھیر ے میں اس کا چہرہ تو دکھائی نہیں دیا لیکن وہ نئی
گرم چادر جو ہمارے بیٹے رمضان نے اپنے جسم پر اوڑھ رکھی تھی وہ چھین لی گئی
ہے ۔ یہ خوفناک کہانی سنتے ہی والد صاحب غصے سے لال پیلے ہوگئے اور لاٹھی
ہاتھ لے کر گھر سے اس جگہ کی جانب چل پڑے جہاں ڈاکووں نے بھائی پر حملہ کیا
تھا ۔
(جاری ہے)
|