خدا کی گرفت


پچھلے چند دنوں سے طبیعت عجیب سی بوجھل اور بے قرار تھی بے کلی کی امر بیل اندر تک اُتر تی جا رہی تھی اداسی غم افسردگی نڈھالی تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی اِس اداسی بے قراری کی وجہ دنیاوی اور ذاتی نہیں تھی بلکہ میں جب بھی کسی یتیم بے کس لاچار انسان یا بیٹی کو پھڑ پھڑاتے دیکھتا ہوں تو اُس کا غم میرے باطن پر دستک دینا شروع کر دیتا ہے پھر راتوں کو اٹھ کر نا لہ نیم شبنمی کی صورت میں خدا کے حضور دعا گو ہو تا ہوں کہ متاثرہ انسان کا مسئلہ حل ہو جائے اگر اداسی مزید گہری ہو جائے تو خلوت گزینی اختیار کر لیتا ہوں یا پھر کسی روحانی درگاہ اپنے مرشد خانے حضرت عبداللطیف کاظمی المعروف حضرت بری امام سرکار ؒ سلام کیلئے رُخ کر تا ہوں یا پھر کسی دوست کو درخواست کرتا ہوں وہ میری طرف سے پھولوں کا نذرانہ شہنشاہ ِ کوہسار کو پیش کر دے یا پھر خود اٹھ کر لاہور شہر کی کسی روحانی درگاہ پر سوالی بن کر حاضر ہو جاتا ہوں آج بھی کرہ ارضی کی عظیم ترین روحانی ہستی حضرت سید علی ہجویری ؒ کے مزار پر انوار پر حاضر تھا سلام کے بعد صحن میں ایک طرف خاموشی سے بیٹھ کر مزار پر انوار اور آنے والے متلاشیان حق کو دیکھنے لگا مجھے اِن سب میں اپنا پن نظر آتا کہ یہ میرے جیسے ہیں میں بھی اِن جیسا ہوں سکون کیف انگیز زیست آفریں لہریں میرے ظاہر و باطن کو سرشاری عطا کر رہی تھیں میں سلسلہ جنیدیہ کے اِس عظیم بزرگ سید علی ہجویری ؒ کی قسمت پر رشک کر رہا تھا کہ ہزار سال ہونے کو آیا اِس آفتاب معرفت کی شہرت وقار عزت میں کمی کی بجائے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہی اضافہ ہو تا جا رہا تھا اِس سید زادے نے اپنا وطن چھوڑ کر ریاضت مجاہدے کے کڑے مجاہدوں سے گزر کر خدائے عظیم کو اِس قدر راضی کیا کہ حق تعالی نے صدیوں کو آپ کا غلام بنا دیا صدیوں کا غبار وقت کا عروج و زوال حکومتوں کی تبدیلی اِس عظیم انسان کی شہرت کو نہ دھندلا سکی ہر گزرتے دن کے ساتھ سید زادے کی عقیدت عشق دیوانگی میں اضافہ ہی ہو تا جا رہا ہے میں بھی آپ کے دیوانوں غلاموں میں شامل ہونا اپنی عظیم ترین سعادت سمجھتا ہوں اِس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ میرے لاڈلے خواجہ خواجگان سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کا آپ ؒ کے مزار پر انوار پر حاضری پھر چلہ کشی کے بعد اپنے دامن کو نور معرفت سے بھرنا جب میری نظر خواجہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے چلہ کشی کے حجرہ مبارک پر پڑتی ہے تو نشیلا سیال مادہ رگوں میں دوڑنے لگتا ہے وہ عظیم سرور آمیز گھڑیاں یاد آجاتی ہیں جب میں غلام چند سال پہلے ہندوستان میں شہنشاہ اجمیر خواجہ پاک ؒ کے مزار پر ننگے پاؤں حاضر ہوا ۔ خواجہ خواجگان سلطان الہند ؒ کی درگاہ پر حاضری دینا درو دیوار کو چومنا چھو نا وہاں پر سانس لینا اپنی بے نور آنکھوں کو درگاہ کو دیکھ کر روشن کر نا آج بھی خواب لگتا ہے کہ مُجھ غلام کو شاہ اجمیر نے اپنے در پر حاضری کا موقع دیا کیا بات ہے میرے خواجہ پاک ؒ کی جو دلنوازی محبوبیت حق تعالی نے آپ کو دی کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئی کیونکہ دھرتی کی واحد روحانی درگاہ جہاں پر مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم حاضری دیتے ہیں اپنے من کے اجالوں سے منور کرتے ہیں مجھے وہ صبح آج بھی یاد ہے جب میں فجر کے وقت شہنشاہ داتا حضور ؒ پر حاضری اور اجازت کے بعد ہندوستان خواجہ خواجگان کو سلام کر نے کے لیے یہاں سے روانہ ہو ا تھا آج بھی ہر سانس ہر دھڑکن کے ساتھ یہ خواہش مچلتی ہے کہ دوبارہ کب اجمیر شریف کی فضاؤں میں سانس لینے کا موقع ملے گا درگاہ کی طرف جانے والی سڑک پر ننگے پاؤں دوڑنے کا موقع ملے گا کب شہنشاہ اجمیر ؒ کے دروازے پر نظر پڑے گی اور دل دھڑکنا بھول جائے گا میں اجمیر شریف کی گلیوں میں خود کو محسوس کررہا تھا آنکھیں بند کئے اُن پر سعادت ساعتوں کو یاد اور لطف لے رہا تھا آنکھیں سرور مستی سے بوجھل ہو کر بند ہو چکی تھیں میں اپنی ہی خلوت سے انجمن کا لطف لینے میں مصروف تھا کہ اچانک گلاب کا معطر پھولوں سے مہک سا اٹھا کسی نے تازہ سرخ گلابوں کا ہار میرے گلے میں ڈال دیا تھا جس کی خوشبو سے میں اپنی خلوت اور مراقباتی کیفیت سے نکل آیا سامنے دیکھا تو چھ سالہ بچہ جو عقیدت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا یہ پھولوں کا تحفہ اُس نے میرے گلے میں ڈالا تھا میں شکریہ اور مسکراتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا اُس کو پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا یا اور کہا شکریہ جناب آپ کے والد صاحب کدھر ہیں تو معصوم بچے نے چند گز دور کھڑی عورت کی طرف اشارہ کیا کہ وہ میری ماں کھڑی ہے اب مجھے سمجھ آئی کہ پھولوں کا ہار کہاں سے آیا ہے میری نظریں بچے کے اشارے کی طرف بڑھتی چلی گئیں وہاں پر مقدس بیٹی کھڑی تھی جو اپنی ماں کے ساتھ کئی سالوں سے میرے پاس روحانی مشاورت کے لیے آتی تھی میں نے اشارہ کیا تو مقدس بیٹی میرے پاس آکر سر جھکا کر پیار لینے کے لیے کھڑی ہو گئی مقدس کے انگ انگ سے عقیدت خوشی پھوٹ رہی تھی خوشی سے سرشار لہجے میں بولی باباجی آج تو کمال ہو گیا میرا دل کل سے چیخ رہا تھا کہ داتا صاحب سلام کرنے جاؤں تمہاری مراد پوری ہو گی اور آج دیکھیں آپ کا دیدار ہو گیا میں نے مقدس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹھ جاؤ تو وہ سراپا ادب و احترام بیٹھ گئی مقدس بیٹی کو کوئی لنگر کے گلاب جامن دے گیا تھا اُس نے لنگرکی پوٹلی کھول کر میرے سامنے کر دی اور عقیدت سے لبریز لہجے میں بولی باباجی داتا حضور ؒ کا لنگر قبول فرمائیں میں نے ہاتھ بڑھا کر سالم گلاب جامن پکڑا اور منہ میں رکھ لیا ذائقے کی لہریں میرے حلق کو تر کرنے لگیں مجھے مقدس بیٹی سے مل کر اچھا لگا تھا وہ بھی خوشی کے ساتویں آسمان پر تھی اپنی اپنے میاں اور بچوں کی باتیں کرنے لگی بہت ساری باتیں کرنے کے بعد سید علی ہجویری ؒ کے مزار کی طرف اشار ہ کر کے بولی سرکار ؒ جی کا کرم ہے اور آپ کی دعا میری طرف اشارہ کر کے بولی جو آج میں اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہو ں نہیں تو میں تو خود کشی کر کے کب کی مر چکی ہو تی پھر مقدس عقیدت کا بہت سارا اظہار کر کے اپنے بچے کو لے کر چلی گئی تو مجھے اُس کے جانے کے بعد مقدس کا مسئلہ یاد آگیا جب بہت ساری دعاؤں کے بعد مقدس کی شادی شروع ہو ئی تو چند ماہ بعد ہی مقدس کی ماں میرے پاس آئی کہ مقدس نے خود کشی کی کو شش کی ہے تو میں لرز گیا مقدس پچھلے کئی سالوں سے اپنی ماں کے ساتھ پہلے تو شادی ہی نہیں ہوتی تھی اﷲ اﷲ کر کے ذکر اذکار کے بعد شاد ی ہوئی تو بہت خوش لیکن شادی کے چند ماہ بعد ہی خود کشی کی کو شش میں نے مقدس کی ماں سے کہا فوری میرے پاس لے کر آؤ تو ماں دکھوں میں لپٹی مقدس کو میرے پاس لے آئی مجھے دیکھ کر بہت دیر تک روتی رہی پھر بتا یا کہ میرا خاوند سسرا ل والے مُجھ سے حصہ مانگتے ہیں ہم سات بہنیں ہیں میں سب سے بڑی ہوں تین مرلے کا گھر ہے جس کی قیمت چند لاکھ سے میری بیوہ ماں مکان بیچ کر چھ بہنوں کو لے کر کہا جائے گی لیکن میرے سسرا ل والے ضدی ہیں کہ ہمیں نہیں پتہ اپنا حصہ لے کر آؤ میں بھی مقدس کی بات سن کر پریشان ہو گیا پوچھا تمہارا حصہ کتنا بنتا ہے تو اُس نے تھوڑے سے پیسے بتائے جو میں نے اپنے مخیر امیر دوست سے کہا اُس نے اپنی زکوۃ دے دی اِس طرح مقدس کا گھر زندگی بچ گئی لیکن وطن عزیز میں پتہ نہیں کتنی ایسی بیٹیاں ہیں جو سسرال میں حصہ لاؤ کی سولی پر چڑھتی ہیں اﷲ تعالی ایسے ظالموں کو ہوش کے ناخن دے کہ کل کو ان کی بیٹیوں بہنوں نے بھی سسرال جانا ہے اور خدا کی لاٹھی حرکت میں ضرور آتی ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.