ساہیوال بلا شبہ نیشنل ہیروز کا شہر ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جو بھی یہاں
سے نکلا پھر نہ پلٹا منٹگمری بسکٹ فیکٹری کے مالک شیخ بشارت نے ساہیوال کے
نوجوانوں کے لیے بہت کام کیاخاص کر انہیں کھیلوں کی طرف راغب کرنے میں انکا
بہت بڑا ہاتھ ہے کرکٹ کی دنیا کے روشن ستارے مشتاق احمدسمیت تین بھائیوں
منظور الٰہی، ظہور الٰہی اور سلیم الہی بھی شیخ صاحب کی بدولت اس سطح تک
پہنچ پائے لیکن ان کے بعد ساہیوال میں کھیلوں کے میدان برباد ہو گئے منشیات
کا استعمال بڑھ گیا اور پھر نیشنل ہیروز کا یہ شہر بانجھ پن کی طرف گامزن
ہوگیا لیکن شیخ صاحب کی کرم نوازیوں سے ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ
کرکٹر سلیم الہی نے شہر کی نوجوان نسل کو برائی سے بچانے کے لیے شیخ بشارت
صاحب کا مشن دوبارہ شروع کردیا اس وقت ساہیوال میں اگر کوئی کھیل کے میدان
آباد کرنے کی کوشش کررہا ہے تو وہ سلیم الہی ہے جنہوں نے 1995 سے 2004 کے
درمیان 13 ٹیسٹ میچ اور 48 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے۔ ستمبر 1995
میں سری لنکا کے خلاف بین الاقوامی کرکٹ میں ڈیبیو کرتے ہوئے انہوں نے 102
ناٹ آؤٹ رنز بنائے اس طرح وہ ون ڈے ڈیبیو پر سنچری بنانے والے پاکستان کے
پہلے کھلاڑی بن گئے ایک محدود اوورز کے ماہر سمجھے جانے والے الٰہی کی اوسط
ون ڈے میں 36.17 اور لسٹ اے کرکٹ میں 52.30 ہے اوپنر کے طور پر کھیلے گئے
48 ون ڈے میں سے 28 میں ان کی اوسط 42 رہی جو کہ کسی بھی پاکستانی کھلاڑی
کے لیے بہترین ہے سلیم الہی 1976 میں ساہیوال میں پیدا ہوئے انکے کے دو بڑے
بھائی منظور الٰہی اور ظہور الٰہی دونوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی
کی فرسٹ کلاس کرکٹ نہ کھیلنے کے باوجود سلیم الٰہی کو 1995-96میں سری لنکا
کے خلاف ہوم سیریز کے لیے منتخب کیا گیا گوجرانوالہ میں کھیلی گئی تین ایک
روزہ بین الاقوامی میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں سلیم الہی نے 133 گیندوں
پر ناٹ آؤٹ 102 رنز بنائے اس طرح وہ ون ڈے ڈیبیو پر سنچری بنانے والے
پاکستان کے پہلے کھلاڑی بھی بن گئے سلیم الہی کی مین آف دی میچ جیتنے والی
اننگز نے پاکستان کو نو وکٹوں سے فتح دلانے میں مدد کی تھی جسکے بعد انہوں
نے اگلے دو میچوں میں 77 رنز بنائے اس طرح سیریز میں 179 رنز جمع ہو گئے اس
کے بعد انہیں اسی سال شارجہ میں سنگر چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے منتخب
کیا گیا دونوں ٹورنامنٹوں میں مسلسل کامیابی کے ساتھ الٰہی کو نومبر 1995
میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے منتخب کرلیاگیا دو ٹیسٹ میں وہ
10.75 کی اوسط سے 43 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے اس کے بعد انہیں وقفے وقفے
سے منتخب کر نے کے بعد سائیڈ سے ڈراپ کر دیا گیا اپنے ڈیبیو سے 2002 کے
درمیان سلیم الٰہی نے پاکستان کے لیے 13 ٹیسٹ کھیلے جس میں 18.95 کی اوسط
سے 436 رنز بنائے ون ڈے میں اپنی کامیابی کے برعکس وہ ٹیسٹ کرکٹ میں صرف
ایک نصف سنچری بنانے میں کامیاب رہے 2002 کے آخر میں جب پاکستان نے زمبابوے
اور جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تو انہوں نے چار میچوں میں تین سنچریاں اسکور
کیں ان میں سے ایک میچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف انہوں نے اپنا سب سے زیادہ
سکور 135 بنایا اس میچ میں انہوں نے عبدالرزاق کے ساتھ دوسری وکٹ کے لیے
257 رنز کی شراکت داری کرکے پاکستان کو 335 رنز تک پہنچانے میں مدد کی اتنی
محنت اور جانفشانی کے بعد آخر کار سلیم الہی 2003 کے ورلڈ کپ کے لیے منتخب
ہوئے اور چار میچوں میں انہوں نے 102 رنز بنائے ایک بار نصف سنچری کی سرحد
بھی عبور کی ورلڈ کپ کے بعد انہوں نے دو ٹورنامنٹس میں پاکستان کی نمائندگی
کی جس کے بعد انہیں ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں ٹیموں سے ڈراپ کر دیا گیا اور اب
ساہیوال کے لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ساہیوال میں ہی ہیں اور یہاں کے
نوجوانوں کو کرکٹ کھیلنا سکھا رہے ہیں پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ کرکٹ کے
ٹاپ سٹار ز میں ایسے افراد شامل رہے اور اب بھی ہیں جن کا تعلق غریب
گھرانوں سے ہے جو ایک بلا خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تھے لیکن ان کے
اندر ٹیلنٹ موجود تھا پھر جیسے ہی کسی عقابی نظر رکھنے والے مخلص پاکستانی
کی نظر اس پر پڑی تو پھر وہی غریب خاندان کا بچہ نہ صرف شہرت کی بلندیوں تک
پہنچا بلکہ مال و دولت میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا سلیم الہی بھی ایسے
ہی بچوں کو تراش خراش کر قومی نیشنل ہیرو بنانا چاہتا ہے اس کام کے لیے
انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال میں اپنی اکیڈمی کے لیے جگہ بھی حاصل
کرلی ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہر اچھے کام میں مشکلات زیادہ ہوتی ہیں مخالفت
اس سے بڑھ کر ہوتی ہے وسائل محدود اور مسائل زیادہ ہوتے ہیں اکیلا بندہ بھی
ایک حد تک کام کرتا ہے جب مشکلات اور مصیبتیں بڑھ جاتی ہیں تو پھر دل ٹوٹ
جاتا ہے سلیم الہی بھی مڈل کلاس خاندان سے ہے اپنی جیب سے جو اس نے کردیا
وہ بہت زیادہ ہے اب اگر ساہیوال کا ہر شہری صرف ایک سو روپے انہیں اس
اکیڈمی کے لیے دیدے تو ساہیوال ایک بار پھر نیشنل ہیروز کا شہر بن سکتا ہے
یہ تو سلیم الہی کا ساہیوال پر احسان ہے کہ انہوں نے اس شہر کے قدرومنزلت
محسوس کرتے ہوئے اپنی زندگی کے باقی کے سال اس شہر کو دیدیے ورنہ مشتاق
احمد،مجید امجد،طارق عزیز،ایچ کے ایل بھگت( بھارت کے پارلیمانی امور کے
سابق مرکزی وزیر)،دلدار پرویز بھٹی،،بریگیڈیئر کلدیپ سنگھ چاند پوری،عطاش
درانی،منظور الٰہی،ظہور الہی،رانا محمد حنیف خان(پاکستان کے سابق وزیر
خزانہ)،نذیر ناجی،ایمانوئل نینو(عیسائی مصنف اور مترجم)،کنور مہندر سنگھ
بیدی سحر(اردو کے نامور شاعر) اورسائیں ظہور( صوفی موسیقار) سمیت کئی نامور
ہیروز ہیں قیامت تک ساہیوال کا نام بلند کرگئے مگر واپس پلٹ کر ساہیوال
نہیں آئے اب سلیم الہی نے اپنے شہرکا حق ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو شہری
انکا بھر پور ساتھ دیں تاکہ یہ تاریخی شہر دوبارہ پھر نیشنل ہیرو پیدا
کرسکے ۔
|