کراچی میں گداگروں کا سیلاب اُمڈ آیا

کراچی میں شہری ایک جانب اسٹریٹ کرائم سے تنگ تو ہیں ہی دوسری جانب شہر میں جگہ جگہ غول کے غول نظر آنے ہیں والے یہ گداگروں کی موج ظفر موج ہے. جو زندگی میں وبال جان بنتے جارہے ہیں۔
پولیس حکام ہوں یا سرکار کی جانب سے گداگروں کے خلاف کریک ڈاون برائے نام کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا افسران کا ہمیشہ سے یہ ہی کہنا ہے کہ اب تک ایسی کوئی گرفتاری عمل میں نہ آئی جو براہ راست جرائم میں ملوث ہو لیکن بھکاریوں کے جرائم میں ملوث ہونے سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں اس ماہ رمضان اور عید کی آمد پر پورے پاکستان سے گداگروں و فقیروں کی آمد کا سلسہ جاری و ساری ہے ایک اندازہ کے مطابق تین سے چار لاکھ سے زائد بھکاری موجود ہیں اور جو ماہ رمضان میں خاص طور پر اندرون سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے کراچی آرہے ہیں۔ اب عام آدمی اس میں کیا کرسکتا ہے۔جب تک حکومت ذرائع و ابلاغ کے قدیم و جدید ذرائع استعمال کرتے ہوئے ،اس مافیا کے خلاف کوئی عملی اقدامات نہ کیے جایں ۔لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ سامنے ہوتا ہے عموماً وہ لوگ جو صاحب اقتدار کرسیوں پہ براجماں ہوتے ہیں ایسے جرائم کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں گداگری و بھیک مانگنے کو برا کہا گیا ہے
۔" قیامت کے دن بھیک مانگنے والے کے ماتھے پر داغ کا نشان ہو گا(الحدیث)۔
o گداگری ایک ناسور کی طرح معاشرے کو جکڑ لیتی ہے۔
o گداگر معاشرے کا عضوِ معطل ہوتے ہیں۔
o گداگری کے پردے میں اور بے شمار جرائم جنم لیتے ہیں۔
o معصوم بچوں اور بچیوں کو بچپن میں اغوا کر کے انھیں معذور بنا دیا جاتا ہے۔اور ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔
o مافیا۔۔۔ان بھیکاریوں پر طرح طرح کے ظلم کرتا ہے۔
o گدا گروں میں احساس اور عزت نام کی کوئی سوچ نہیں رہنے دی جاتی۔
o گداگروں کی زندگی انتہائی برے حالات کا شکار ہو تی ہے۔

جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ضرورت کے علاوہ ہاتھ پھیلانے کو سخت ناپسند کیا ہے۔

گداگروں کی اکثریت جنوبی پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان، راجن پور، خانپور کٹورہ، صادق آباد، بہاولپور، ملتان اور اندرون سندھ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے۔ صبح و شام کو شہر کراچی کے تمام تجارتی و تفریح مراکز کلفٹن، ڈیفنس، نارتھ ناظم آباد، حیدری، گلشن اقبال، طارق روڈ اور صدر کے بازاروں ، لیاقت آباد مارکیٹ، گلستان جوہر وغیرہ پر اور ہر ٹریفک سگنلز پر بچے،بوڑھے و خواتین اور مرد مختلف واسطے دے کر گداگری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان پیشہ ور گداگروں کی وجہ سے متوسط طبقے کہ لوگوں کو آئے دن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے نہ ہی وہ صیح طرح سے خریداری کرسکتے نہ ہی وہ کچھ لمحے اپنی فیملی کے ساتھ باہر نکل کر اپنے اور اپنے بچوں کو تھوڑی بہت تفریح کراسکتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ کراچی کی سڑکوں ، شاپنگ مال و تجارتی مراکز وغیرہ پر بھی کہ کوئی ریاض ملک نے ان فقیروں اور گداگروں کو کراچی شہر پر مُسلط کردیا ہے کوئی ادارہ ان کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے ان پیشہ ور بھکاریوں اور گداگروں نے تو اتنی آفت مچا دی ہے کہ راہ چلنا مشکل کردیا ہے ان پیشہ ور بھیکاریوں کی بڑی تعداد کے باعث شہر میں ٹریفک مسائل میں بڑھ رہے ہیں اور ٹریفک چلنے میں جو مشکلات بندریج اضافہ ہورہا ہے اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے. اس کے تدارک کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ وہ گداگر جو کبھی اللہ کے نام پر مالی مدد کی درخواست کیا کرتے تھے اب ان کی جگہ پیشہ ور بھکاریوں نے لے لی ہے جو ہر بندے کو پکڑ کر، راستہ روک کر، دروازہ کھٹکھٹا کر بھیک وصولنے کو حق سمجھنے لگتے ہیں۔ اکثر اوقات تو یہ کم بھیک ملنے پر خوب صلوت سناتے نظر آتے ہیں اور بددعائیں تک دینے سے گوارہ نہیں کرتے. یہ افراد بعض جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ گویا گداگری ضرورت نہیں بلکہ کراچی میں تو ایک کاروبار بنتی جارہی ہے جیسے منظم نیٹ ورک کی صورت میں چلایا جا رہا ہے۔

یہ کراچی میں ایک طاقت ور مافیا کی صورت اختیار کرگیا ہے. جس کا باقاعدہ ٹھیکے دیے جاتے ہیں اور ان ٹھیکوں کی بولی کروڑوں میں لگتی ہے خاص کر رمضان و عید اور بقر عید کے مواقع پر اگر اب بھی انتیظامیہ اور ان سے مُنسلق اداروں نے اب بھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا تو آنے والے ادوار میں اس کو سنبھال نا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائیگا. اس وقت کراچی شہر میں لاکھوں گداگر تاحال شہر قائد کے روڈوں اور گلیوں پر موجود ہیں جو آئے دن پولیس اور ان سے منسلک اداروں کی نظر میں آتے رہتے تو ہونگے ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں اس وقت تقریبا تین سے چار لاکھ موجود ہیں اور ماہ رمضان میں یہ تعداد بتدریج 5 لاکھ سے بھی زائد ہوجائیگی.یہ گداگر جو فی الحال بغیر کسی ڈر و خوف کے دھڑلے سے اپنی روزمرہ زندگی میں شہر کراچی کی عوام کو تکالیف دینے میں مصروف کار ہیں ہر گلی کوچے اور بازار میں گداگروں نے مانگنے کے نت نئے طریقے ایجاد کررکھے ہیں اکثر تو معذور بن کر کسی بھی پبلک مقام پر صبح براجمان کرکے بیٹھے ہوے ہیں. اگر یہ معذور ہے تو صبح صبح ایسے چوراہے پر بیٹھا کہ کون گیا سوچنے کی بات ہے. کچھ فقیروں نے وہیل چئیر کو چلانے کے لیے کوئی بندہ/بندی کرائے پہ رکھا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اکثر پہچانے جاتے ہیں کہ یہ پیشہ ور فقیر ہیں۔ اب تو ہر تیسرا گداگر مانگنے کے لیے لاوڈ اسپیکر کا استعمال بھی بےدھڑک کرنے لگے ہیں . جس سے پورے کراچی شہر میں صوتی آلودگی کا اضافہ کا بھی بنتا جارہا ہے. صبح سے لیکر رات تک غول کے غول شہریوں کو لوٹنے میں مصروف عمل رہتے ہیں مجال ہے کوئی ادارہ ان کو روکنے کی دیوار بنا ہو اوپر تک تمام سرکاری انتظامی مشینری اس دھندے میں ملوث ہے۔ پولیس اور ان سے منسلق کوئی ادارے نے ان کے خلاف کوئی کاروائی کی ہو یہ سب بری طرح بھکاریوں کو روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ کراچی میں لمبے فاصلے ہونے کی وجہ سے ان گداگروں کے گروہ کے سربراہ گداگروں کو لانے اور لے جانے کی پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کررہے ہیں جبکہ مختلف شاپنگ سینٹرز، گلیوں، محلوں اور ٹریفک سگنلز کے الگ الگ گداگر مافیا نے بھتے منتخب کیے ہوئے ہیں جن کا تعین بھی یہ مخصوص گروہ کرتے ہیں۔ان گداگروں کی تعداد میں اضافہ جہاں انہیں کراچی شہر میں بھیک زیادہ ملتی ہے . وہاں ہی ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ کی دوسری وجہ یہ چوراہے پر سماجی تنظیموں سیلانی، چھیپا، ایدھی، جے ڈی سی، اعظم ویلفیئر ، المصطفیٰ ٹرسٹ ، جعفر ٹرسٹ ، القادر وغیرہ سمیت دیگر اداروں کے بنائے ہوئے دستر خوان اس کی خاص وجہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں دو وقت کا مفت میں پیٹ بھر کے کھانا تو مل ہی جاتا ہے. ان سماجی تنظیموں اور رہنے کے لیے کراچی کی سرکاری زمینوں پر قبضہ مافیا کی طرف سے مفت رہائش بنی بنائی جھونپڑی اورہیڈ برج کے نیچے یہ اپنے کنبہ کے ساتھ پڑاؤ ڈال کر شہر کے ہر اوور ہیڈ برج کے ارد گرد کراچی کا نقشہ اقوام متحدہ کے کسی افریقن ملکوں کے کیمپوں جیسا منظر کشی کرتا ہے. ( ان سماجی تنظیموں کو چاہیے سفید پوش جو اس مہنگائی میں کس طرح جی رہے ہیں کبھی ان کے لیے بھی اپنا سماجی کام نمایاں کرے جس سے ان کی عزت نفس پر حرف آخر نہ آئے) اب تو کراچی کے زیادہ بھیک دینے والے ایریا جن میں شاپنگ سینٹرز، گلیوں، محلوں اور ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگنے کیلئے ٹینڈرز کی طرز پر باقاعدہ بولیاں لگائی جاتیں ہیں اور زیادہ منافع بخش جگہیں مہنگے داموں مخصوص گروہوں کو باقاعدہ الاٹ کی جاتی ہیں اور پولیس بھی اس گھناؤنے عمل میں برابر کی شریک تو نہیں مگر خاموشی اختیار کی ہوئی نظر آتی ہے. جس سے کراچی کے شہریوں کا شق یقین میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے ۔مختلف گروہوں کے زیراہتمام گداگری کا پورا نیٹ ورک چلایا جاتا ہے. کوئی بھی مستحق یا مجبور شخص گداگر مافیا کی مرضی کے بغیر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا . گداگر مافیا خواتین کے ذریعے بھی اپنے نیٹ ورک کو فعال رکھ کر بھیک کے ذریعے اپنی کمائی میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کراچی رقبے، آبادی، صعنت و تجارت اور کاروبار کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ دیگر کاروبار کی طرح یہاں گداگر مافیا کا نیٹ ورک بھی خاصا منظم اور مستحکم ہے اور مستحکم ہوتا نظر آرہا ہے.

ان پیشہ ور بھکاریوں و گدگروں اور مافیاز کی روک تھام کے لئے صوبائی یا بلدیاتی سرکار کو ضروری اقدامات کرنا چاہیے۔ اگر ٹریفک پولیس اور انتیظامیہ ٹریفک سگنلز سے ہی پیشہ ور بھکاریوں کو ہٹا دیا جائے تو سمجھیں شہر میں گداگروں اور بھیکاریوں کو شہر میں روکنے کا آدھا کام تو ہوگیا۔ اصل اور بنیادی کام شہری انتظامیہ کا ہی ہے جو مافیا کا حصہ ہوتی ہے ۔ بڑے شہروں میں یہ انفرادی کوششیں محدود بلکہ ناقابل ذکر اثر ڈال سکتی ہیں جس سے مافیا پر کوئی فرق پڑنے کا امکان نہیں اور عوام کی خیراتی رقوم بھی اصل حقداروں تک پہنچ سکیں۔

آج کل عوام کو یہ یاد دلانا ہے کہ پیشہ ور گداگروں کو خیرات دینا ملک میں "ہڈ حرامی" کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ اس سے بہتر اپنے قریبی لوگوں کو اپنے آس پاس دیکھو جو اپنی سفید پوشی کی وجہ سے ہاتھ نہیں پھیلاتے. ان کی مدد کرؤ ایسی کے ان کو احساس نہ ہو یہ ہی تمھارا ہم سب کا صدقہ جاریہ ہے. ان پروفیشنل گداگروں اور فقیروں کو دیکر آپ ملک میں ہڈ حرامی فروغ دے رہے ہیں. ماہ رمضان میں عہد کریں اور اپنے قریبی عزیز، دوست ، محلہ دار کے سفید پوش کی خدمت کریں اللہ آپ کی روزی میں خیر و برکت دے.
آمین

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 84014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.