|
|
کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جن کو انسان جب بھی یاد کرتا ہے
اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وقت دوبارہ سے لوٹ آئے۔ رمضان کی آمد ہو چکی ہے
ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زيادہ سے زيادہ وقت عبادت میں گزارے۔
رمضان کا مہینہ درحقیقت مسلمانوں کی تربیت کا مہینہ ہوتا ہے- |
|
تو اس مہینے میں صرف روزے کے دوران ہی نہیں بلکہ روزہ
کھولنے کے بعد بھی انسان کا فطری طور پر رجحان عبادات کی طرف ہی زيادہ ہوتا
ہے۔ اس وقت کو ضائع کرنے کے بجائے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت کو
ایسے مشاغل میں صرف کرے جو کہ اس کو اس مہینے کی فیوض وبرکات سمیٹنے میں
مددگار ثابت ہو سکے۔ |
|
جب رمضان کی آمد کی خبر
بریکنگ نیوز نہ ہوتی تھی |
جب تک ہم سب پاکستانیوں کے پاس پاکستان ٹیلی وژن کے نام
سے صرف ایک ہی چینل ہوتا تھا اور رویت ہلال کی خبر بھی اسی ایک چینل سے
ملتی تھی۔ نہ تو انٹرنیٹ ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی اور ذریعہ تو اس وقت میں
تمام لوگ پاکستان ٹیلی وژن لگا کر اعلان کا انتظار کرتے تھے- |
|
تراویح کی محافل |
رمضان کے حوالے سے پاکستان ٹیلی وژن بھی خصوصی ٹرانسمیشن
کا اہتمام کرتا تھا جس میں اسما الحسنیٰ اور معروف نعت خوانوں کی آواز میں
روزہ افطار کرنے تک نعتیں سنائی جاتی تھیں- |
|
اس کے بعد روزہ کھولنے کے بعد خانہ کعبہ میں پڑھی جانے والی تروایح کی
محافل سنائی جاتی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جبکہ پاکستانیوں کو معروف قاری شیخ
عبدالرحمن سدیس اور سعور الشریم کی تلاوت سے آشنا کروانے کا سہرہ بھی
پاکستان ٹیلی وژن کے سر ہی جاتا ہے- |
|
|
|
احترام رمضان |
رمضان کے احترام میں پاکستان ٹیلی وژن کے تمام موسیقی کے
پروگرام بند کر دیے جاتے تھے۔ اور ایسے کوئی اشتہار افطار سے قبل نہیں
دکھائے جاتے تھے جن میں کسی کو کچھ کھاتے ہوئے دکھایا جاتا تھا- نیوز
کاسٹرز اور میزبان کا میک اپ بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتا تھا اور وہ سر
پر دوپٹہ پہنے نظر آتی تھیں- اس موقع پر جتنے بھی پروگرام نشر کیے جاتے تھے
جو کہ لوگوں کی روحانی اور مذہبی تربیت کا باعث بنتے تھے- اس وقت میں نشر
کی جانے والی نعتیں آج بھی لوگوں کے دلوں میں نقش ہیں اور وہ ان کو بھول
نہیں سکے ہیں- |
|
سحری اور افطار کی
نشریات |
اس وقت میں سحری اور افطار کی نشریات میں لوگوں کو کسی
قسم کا لالچ یا انعامات دے کر اسکرین سے نہیں جوڑا جاتا تھا- بلکہ معروف
علما اپنے علم کا نچوڑ اور رمضان کی اہمیت کو اتنے مؤثر انداز میں بیان
کرتے تھے کہ لوگ پاکستان ٹیلی وژن کو سحر و افطار کے وقت اپنے گھر کے فرد
کی طرح اپنے ساتھ رکھتے تھے- |
|
آخری عشرے میں عبادات کا
زور |
آخری عشرے میں پاکستان ٹیلی وژن ملک بھر کی مساجد میں
ہونے والی شبینہ محافل دکھاتا تھا جس کی وجہ سے گھر بیٹھے لوگ بھی ان محافل
میں نہ صرف شریک ہو جاتے تھے- بلکہ اپنے وقت کو قرآن سنتے اور اس کو سمجھتے
ہوئے گزارتے تھے- |
|
اور جب چینلز کی بھرمار
ہوئی |
وقت کو بڑھنے سے نہیں روکا جا سکتا اور بدلتا وقت اپنے
ساتھ تبدیلیاں بھی لے کر آتا ہے- ایسی ہی ایک تبدیلی ٹیلی وژن پر کمرشل
چینلز کا اضافہ تھا۔ جس کا مقصد عوام کو صحت مند مقابلے کے ساتھ تفریح کے
مواقع فراہم کرنا تھا- مگر تفریح کی اس دوڑ میں ہم نے کب اخلاقیات کو خیر
آباد کہہ دیا اس کا ہمیں احساس ہی نہیں ہوا- مگر اب جب رمضان ٹرانسمیشن کے
نام پر بے ہنگم گیم شوز کا آغاز افطار کے فوراً بعد ہو جاتا ہے جس میں چینل
کا مقصد صرف عوام کو بائک، گاڑيوں اور سونے کے چند تولوں کے پیچھے بھاگتے
دکھایا جاتا ہے- تو بے ساختہ یہ افسوس ہوتا ہے کہ اس مہینے جب کہ اللہ
تعالیٰ ہر ایک نیکی کا صلہ کئی گنا زيادہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں تو ہم اس
ثواب کو چھوڑ کر ان انعامات کی دوڑ میں شامل ہوگئے- |
|
|
|
ایک ڈرامہ
مشہور ہوا تو سب اسی میں لگ گئے |
کچھ سال قبل ایک کمرشل چینل نے افطار کے فوراً
بعد ایک ڈرامہ پیش کیا جو کہ رمضان کے نام پر تو پیش کیا گیا مگر اس میں سب
کچھ تھا مگر رمضان ہی کہیں نہ تھا۔ ہلکے پھلکے انداز میں ایک لو اسٹوری کو
روزانہ افطار کے بعد دکھایا جانے لگا- جس کا اثر یہ ہوا کہ اس طرح کے ڈرامے
دکھانے کا سلسلہ ہر چینل نے شروع کر دیا اور اس کی تیاری رمضان سے سال بھر
پہلے کی شروع کر دی جاتی- یہاں تک کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ لوگوں کو
رمضان کی آمد سے زيادہ ایسے سوپ ڈراموں کا انتظار رہنے لگا- |
|
اب جب بھی ٹی
وی آن کریں تو ۔۔۔ |
اب جب کہ ٹی وی پر چینلز کی بھرمار ہے تو رمضان
کو صرف اسلامک چینلز تک محدود کر دیا گیا ہے- اور لوگوں کا کہنا ہے کہ جس
کو مذہبی پروگرام دیکھنے ہیں وہ مذہبی چینل لگا لیں ورنہ تفریحی چینل تو
یہی دکھائيں گے جس سے ان کو مالی فائدہ حاصل ہوگا- |
|
بدقسمتی سے اس بھیڑ چال کا سب سے برا اثر حالیہ
نسل پر پڑا ہے جس کے نزدیک روزہ صرف ایک مذہبی فریضہ کی طرح رہ گیا ہے اور
اس کے حوالے سے اہتمام کہیں خواب ہی ہو گیا ہے- |
|
ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت قوم ہم ایسے تمام
پروگرام کا بائيکاٹ کریں- تاکہ میڈيا چینلز والے بھی اس پر غور کریں اور
رمضان کے مہینے میں اچھے اور معیاری پروگرام لوگوں تک پہنچائيں جس سے ان کی
تربیت ہو سکے- |