دکھ نہ ہو تو کیسے نہ ہو۔ اپنے
ہی دین کی جن تعلیمات کی اہمیت کو ہم نہیں سمجھ پارہے ہمارے حریف ان کی
اہمیت ٬افادیت اور اثر انگیزی کا بخوبی ادراک کررہے ہیں۔داڑھی سے لے کر
حجاب تک اوراذان سے لے کر باجماعت نماز تک دیکھ لیجئے۔ہمارے ہاں کے باشعور
مسلمان بھی ان دینی شعائر کا احترام اور پابندی اس لیے کرلیتے ہیں کہ اس کی
تربیت انہیں بچپن میں ہی دے دی گئی یاپھرکسی دینی جماعت کے خاص ماحول کے
زیرِ اثران امور کو بطورِ عادت اختیارکرنا ان کے لیے آسان ہوگیا۔کسی عمل کو
اپنے خاندان کے مذہبی رجحان کے زیرِ اثر اور بطورایک عادت اور رسمی عمل کے
اختیار کرنا ایک چیز ہے اور اس کے اثرات وثمرات کو سمجھتے ہوئے اس کی اصل
روح کے ساتھ اس کو اپنانا یکسر مختلف چیز ہے ۔ہر عمل کی اخروی برکات تو ہیں
ہی‘ ان کی اہمیت کو گھٹانا مقصود نہیں۔لیکن اس امر کا ادراک بھی ضروری ہے
کہ ایک مسلم فرد کی ذہنی ‘ فکری وعملی تربیت او رایک جان دار مسلم معاشرہ
کی تشکیل میں بھی ہر عمل کا ایک خاص کردار ہوتا ہے ۔ جب عمل سے اس کی یہ
روح نکال لی جائے تو ظاہر میں صرف ڈھانچہ باقی رہ جاتا ہے جس کی حیثیت ایک
رسمی اور رواجی عمل سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اول تو
دین کے قریب پھٹکتے نہیں اور اگر کسی دینی تعلیم کو اپنا بھی لیں تو اس کی
ظاہری زیبائش وآرائش تک ہی محدود رہتے ہیں جس کی وجہ سے عملی زندگی پر مرتب
ہونے والی اس کی روحانی برکات سے محروم رہتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ
شلوار کو ٹخنوں سے اونچا رکھ کر بھی ہم اپنے من کو تکبر کی غلاظت سے پاک
نہیں کرپاتے اور سینہ ہر وقت غرور سے تنا رہتا ہے ۔کھانے کے وقت بیٹھنے کی
مخصوص مودبانہ ہیئت اختیار کرکے بھی ہم رزق کی ناقدری کے مرتکب ہوتے رہتے
ہیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے اندر یہ تصور قائم نہیں کرپاتے کہ ہمیں
کھانا ویسے ہی کھانا ہے جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے کھاتا ہے ۔(آنحضور
صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے وقت مخصوص مودبانہ شکل اسی لیے اختیار فرماتے
تھے ۔)باجماعت نماز میں کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی ہونے والی یہ امت ‘خارجی
زندگی میں ایک امت ہونے کا کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کرسکتی۔ہرنماز کے آخر
میں اردگرد کے سب مسلمانوں کے لیے خیروعافیت اور رحمت وبرکت کی دعا کرنے کے
باوجود(سلام کے الفاظ دعاہی پر مشتمل ہیں)ہم آپس کی کدورتیں دل سے دور نہیں
کرپاتے اور بدستورغیراسلامی نفرتیں اپنے سینوں میں پالتے رہتے ہیں۔اس کا
سبب بالکل ظاہر ہے کہ ہم کسی نہ کسی وجہ سے دین کے کچھ احکام کو ان کے ظاہر
پیرہن کی حد تک تو پورا کرہی لیتے ہیں‘ مگر ان سے جو تزکیہ اور فکری
ونفسیاتی تربیت ”مقصد کے درجہ“ میں مطلوب ہے ‘ اس کو قبول کرنے کے لیے ہرگز
تیار نہیں کیونکہ یہی وہ ”ٹرننگ پوائنٹ “ ہے جہاں پر آکے ہمیں اپنی پوری
زندگی کو عبادت کا پرتو بنانا پڑتا ہے اور اپنی ان بہت سی من مانیوں کو
قربان کرنا پڑتا ہے جن کا ارتکاب ہم ”عابدوزاہد“ بن کر بھی کرتے رہتے
ہیں۔تاہم مغرب کے تھنک ٹینکس اسلام کے اس ظاہری پیرہن سے بھی خوف زدہ
ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے اسی ”پیٹرن“ نے ماضی کے وہ قدآور
اور تاریخ ساز مسلمان جنم دیے تھے جنہوں نے مشرق ومغرب کو مسخر کرلیا
تھا۔انہیں خطرہ ہے کہ اگر مسلمان یوں ہی اپنی میراث سے جونک کی طرح چمٹا
رہاتو کسی بھی وقت اعمال کے ظاہری پیرہن میں چھپی ہوئی چنگاری اس کو اپنی
خاکستر سے پورے قد اور نئی شان کے ساتھ کھڑا کرسکتی ہے ۔اس لیے جیسے تیسے
ہو ‘ اس کے تن سے اعمال اور عبادات کا ظاہری پیرہن بھی اتار لینا چاہئے ۔
مسجد اور مسلمان کا باہمی رشتہ جو ”امت سازی “ کی پہلی اینٹ ہے ‘اس وقت
مغرب اور مغربیت زدگان کا نیا ہدف ہے ۔اس رشتہ کو کم زور کرنے اور امت شکنی
کا مقصد پوراکرنے کے لیے ترقی یافتہ اور روشن خیال ممالک میں مختلف جبری
ہتھکنڈوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔سب سے پہلے یہ خبر اسپین سے موصول ہوئی کہ وہاں
پر مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے لیے ان کے حسبِ ضرورت مساجد دستیاب
نہیں۔نماز کی ادائیگی کے وقت بعض مساجد میں‘باہر سڑکوں تک صفیں بن جاتی ہیں
جس پر وہاں کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کہ اس سے ہماری سیکولر روایات
مجروح ہوتی ہیں ۔آئندہ سڑک پر صفیں بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مسلمانوں کا
مطالبہ ہے کہ اس صورت میں پھر انہیں نئی مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے
‘مگر ان کا یہ مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا جارہا۔بعدازاں یہ خبر فرانس سے
موصول ہوئی کہ وہاں پر بھی بعض علاقوں میں مسلمان اسی مشکل سے دوچار
ہیں۔پھر ایک تفصیلی رپورٹ روس کے دارالحکومت ماسکو کے بارہ میں نظر سے گزری
کہ قریباً ایک لاکھ مسلمانوں کے اس شہر میں صرف چار مساجد ہیں جن میں ظاہر
ہے کہ نماز کے اوقات میں رش لگ جاتا ہے اور جماعت کی کچھ صفیں باہر سڑک پر
بھی بنانی پڑجاتی ہیں۔ وہاں پر بھی حکومت اپنے مسلمان شہریوں کو نئی مساجد
تعمیرکرکے دینے کی بجائے ‘ انہیںسڑک پر صفیں بنانے سے روکنے کے لیے اقدامات
کررہی ہے ۔”سیکولر جبر“ کا یہ ایک نیا نمونہ ہے جس کی لپیٹ میں مسلمان آرہے
ہیں۔ہمارا سوال یہ ہے کہ سیکولر ازم اور لبرل ازم کے دعویدار ‘ ان دونوں
”بے چارے الفاظ“ کو بدنام کرنے کے لیے اپنے منہ پر مزید کتنی کالک ملیں گے
؟حکومت کے عدمِ تعاون کی وجہ سے ‘ ماسکو میں عید کے موقع پر بڑے اجتماعات
بھی انہیں تنگ مساجد میں ہوئے جس پر ہمارے ہاں کے ایک سیکولر اخبار نے سرخی
کچھ یوں جمائی :”نمازِ عید کے لیے مسلمانوں کے بڑے اجتماعات ‘ماسکومیں
ٹریفک جام‘شہریوں کو دقت کا سامنا“ سبحان اللہ !ان یک رخے اور یک چشمے
کانوں(ایک آنکھ والے )سے آدمی کیا شکوہ کرے ۔تاجکستان ہمارا ہمسایہ اور ایک
مسلم اکثریتی ملک ہے ۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد اس میں عوامی سطح پر
اسلامی بیداری کے بڑھتے ہوئے گراف کے باوجود ‘ حکومتی ایوانوں میں مذہب
پسندوں کا اثرورسوخ نہ ہونے کے برابر ہے ‘ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ
دنوں اس کی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے تحت مسلم نوجوانوں پر
مساجد میں جانے پہ سرے سے پابندی عائد کی گئی ہے ۔”وزنِ بیت“ پورا کرنے کے
لیے اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسیحی نوجوانوں پر کلیسا میں جانے پہ بھی
پابندی ہوگی۔مگر کوئی ان ”پگلوں“ سے پوچھے کہ کیوں تم دنیا کو بے وقوف
بناتے ہو۔ کیا ساری دنیا جانتی نہیں کہ مسیحی نوجوانوں کا آج کلیسا سے کتنا
تعلق باقی ہے اور کیاتم اس بات پر کوئی پردہ ڈال سکتے ہوکہ تاجکستان میں
مسلمانوں کا تناسب مسلمانوں کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہے ؟گزشتہ دنوں
امریکا میں ایک ویڈیو گیم بنائی گئی جس میں تاجکستان کو اسلام پسندوں سے
بچانے کی لیے ‘امریکی افواج کو تاجکستان میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا
تھا۔ اس پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف نے احتجاج کیا۔ اب انہی کے
حکم پر پارلیمنٹ میں پاس ہونے والاحالیہ ”کالا قانون“ شاید اسی احتجاج کو
موثر بنانے اور طاغوتی قوتوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے ہے ۔
کفر تو اپنا کام کیے جارہا ہے ۔ کیا ہم بھی اپنی ذمہ دار ی کا کوئی احساس
رکھتے ہیں؟خداکرے کہ باطل کے یہ اقدامات مسلمانوں کا جمود توڑنے کا باعث بن
جائیں ۔ ان کو اپنے دین سے قریب تر کردیں ۔ ان کی مساجد کو آباد کردیں اور
دینی احکامات کو ان کی اصل روح کے ساتھ اپنانے کا جذبہ اور ذوق ان میں زندہ
کردیں۔یہی راستہ ہی مسلمانوں کو ایک ناقابلِ تسخیر قوت بنا سکتا ہے ‘ باقی
سارے راستے ”سرپھٹول “ کے سوا کسی کام کے نہیں۔ |