میڈیکل سائنس کے کسی بھی طالب علم سے پوچھا جائے کہ تم
ڈاکٹرکیوں بننا چاہتے ہو ۔ تووہ فورا کہہ دے گا کہ میں دکھی انسانیت کی
خدمت کرنا چاہتا ہوں۔وہ غریب اور پریشان حال جو جیب میں پیسے نہ ہونے کی
وجہ سے علاج نہیں کروا سکتے ۔میں ان کی دل جوئی اور علاج کے لیے ہر ممکن
کوششیں کروں گا ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک صحافی کسی کام کے سلسلے میں امریکہ
گیا تو وہاں اسے کسی بیماری نے پریشان کردیا تھا ۔جس شہر میں اس کا قیام
تھا اس شہر میں ایک پاکستانی ڈاکٹر کی بہت دھوم تھی ۔وہ صحافی بھی اس کے
کلینک جا پہنچا ۔ اس نے کلینک کے عملے کو اپنے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ
میں پاکستان سے آیا ہوں اور بیمار ہوں، مجھے آپ کے علاج کی ضرورت ہے ۔
صحافی نے جس شخص سے بات کی تھی وہ سنتے ہی ڈاکٹر کے کمرے میں گیا اور انہیں
پاکستان سے آنے والے کا تعارف کروایا اور بتایا کہ اسے آپ کی مدد کی ضرورت
ہے ۔ یہ سنتے ہی پاکستانی ڈاکٹر سب سب مریضوں کوچھوڑ کر اپنے کمرے سے باہر
آیا اوراس پاکستانی صحافی کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلاگیا ۔ ڈاکٹر نے
اسی وقت کھانے کا اہتمام کیا اور کھانے کے بعد پوچھا اب بتائیں آپ کو کیا
مسئلہ ہے ۔پاکستانی صحافی، ڈاکٹر کے خوشدلانہ رویے سے بہت متاثر ہوا۔جب اس
کا چیک اپ ہو گیا اور ادویات مفت بھی مل گئیں تو اس نے ڈاکٹر سے اس
خوشدلانہ رویے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں جب ڈاکٹر بن رہا تھا تو
میرے والد مجھے اکثرکہا کرتے تھے کہ بیٹا جب تم مکمل ڈاکٹر بن جاؤ گے تو
کوئی ایسا پاکستانی مریض تمہارے کلینک سے اس لیے واپس نہیں جانا چاہیے کہ
اس کی جیب میں تمہاری فیس دینے کے پیسے نہ ہوں ۔ جب ڈاکٹر گفتگو کررہا تھا
تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے مزید بتایا بیشک یہ بات کہہ کر میرے
والد اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن آج بھی جب کوئی ،مفلوک الحال پاکستانی
میرے کلینک پر آتا ہے تو مجھے اپنے سامنے والد کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور وہ
کہہ رہے ہوتے ہیں کہ بیٹا کوئی پاکستانی مریض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے
تمہارے کلینک سے واپس نہ چلا جائے ۔ڈاکٹر نے پاکستانی صحافی کو مخاطب کرکے
بتایا کہ میں نے آپ کا علاج کرکے اور مفت دوائی دے کر کوئی احسان نہیں کیا
بلکہ میں نے اپنے مرحوم والد سے کیاہوا وعدہ پورا کیا ہے۔یہ تو اس پاکستانی
ڈاکٹر کی بات تھی جو امریکہ میں جا بسا اور وہاں کی کیمونٹی میں اپنے
خوشدلانہ رویے کی وجہ سے بہت مقبول ہوگیا۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے
پاکستان میں جتنے بھی ڈاکٹر مختلف شعبوں میں سپشلسلائز کرتے ہیں ۔وہ
انسانیت کی خدمت کو بھول کر صرف اور صرف پیسہ کمانے کی مشین بن جاتے ہیں ۔
میں نے ایک گھٹنے کا آپریشن ایک پرائیویٹ ہسپتال سے کروایا تھا اس وقت میں
، بنک آف پنجاب میں ملازم تھا ۔ آپریشن اور ہسپتال کے اخراجات بنک نے ادا
کردیئے۔ چند سال بعد ایک بار پھر میرے دونوں گھٹنوں میں اتنی شدید تکلیف
شروع ہوگئی کہ گھر میں بغیر سہارے کے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا تو میں
اسی آرتھوپیڈک ڈاکٹر کے پاس گیاجس نے آپریشن کیا تھا ۔اس کے معاون نے پہلے
مجھ تین ہزار روپے فیس وصول کی جو مجھے اپنی جیب سے ادا کرنی پڑی ۔ ڈاکٹر
صاحب سے میں نے مزید کہا میرا بائیں گھٹنہ بھی چلنے کے قابل نہیں ہے اس کا
بھی کچھ کردیں ۔یہ سنتے ہی ڈاکٹر نے ایک انجکشن لکھ کر اس کی پرچی میرے
بیٹے کو تھما دی جو ہسپتال کی فارمیسی سے خرید لایا ۔وہ انجکشن ڈاکٹر نے
میرے بائیں گھٹنے میں لگا تو دیا لیکن جب میں کمرے سے باہر نکل رہا تھا تو
ڈاکٹر کے معاون میرے قریب آکر کہا مزید دو ہزار روپے کی ادائیگی کردیں ۔یہ
فیس ڈاکٹر صاحب کے انجکشن لگانے کی ہے ۔ یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا کہ
بڑے ڈاکٹر کہلانے والے با ت کرنے کے بھی پیسوں مانگتے ہیں۔ مجبورا مجھے
مزید دو ہزار کی ادائیگی بیٹے سے لے کر کرنی پڑی ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ
ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ایک پیسہ بھی پنشن نہیں ملتی اور مزید کوئی ذریعہ
نہیں جہاں سے پیسے آنے کی امید رکھی جائے ۔ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ
میری داڑھ میں کچھ عجیب سا احساس ہونے لگا تو میں محلے کے ایک ڈینٹسٹ کے
پاس چلا گیا۔اس نے میرے داڑھ کا معائنہ کیا اور ایک روئی کا پھا دوائی میں
ڈبوکر اس جگہ پر رکھ دیا جہاں سے کچھ درد کا احسا س ہورہا تھا ۔میں جیسے ہی
گھر پہنچا تو پہلے سے زیادہ درد ہونے لگا بلکہ اس جانب سے چہرہ بھی اچھا
خاصا سوجھ گیا ۔دو دن تو پیناڈل ایکسٹرا سے کام چلا یا لیکن جیسے ہی پیناڈل
کا اثر ختم ہوتا ایک بار پھر درد اور تکلیف عروج پر ہوتی ۔میں تین ہزار
روپے بیگم سے اس کے ماہانہ اخراجات میں سے لے کردانتوں کے ایک ڈاکٹر کے
پرائیویٹ کلینک جا پہنچا اس نے چیک کر کے ادویات لکھ دیں جب میں واپس آنے
لگا تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں تو اس نے
کہا پانچ ہزار روپے دے دیں۔یہ سنتے ہی میری ہوائیاں اڑ گئیں میں حیرت سے اس
کا چہرہ دیکھنے لگا کہ پانچ ہزاراور وہ بھی ایک عمررسیدہ اور ریٹائر شخص کے
پاس کہاں سے آئیں گے ۔یہ سن کر مجھے وہ امریکہ والا پاکستانی ڈاکٹر بہت یاد
آیا جس کے باپ نے کہا تھاکہ بیٹا خیال رکھنا تمہارے کلینک سے کوئی غریب
پاکستانی تمہاری فیس نہ دینے کی وجہ سے واپس نہ چلا جائے ۔بمشکل وہ ڈاکٹر
تین ہزار روپے لینے پر آمادہ ہوا ۔ حالانکہ وہ ایک سرکاری ہسپتال میں ملازم
تھااور اس کو اچھی خاصی تنخواہ بھی ملتی ہوگی ۔لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے
انسان کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی ۔صرف قبرکی مٹی ہی انسان کا پیٹ بھرسکتی
ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ سپشلسٹ ڈاکٹروں کی بڑھتی ہوئی فیسوں کو کم
کرانے کی نہ حکومت کو فرصت ہے اور نہ ایف بی آر کی اس جانب توجہ ہے۔ پنشن
بھی صرف سرکاری محکموں سے ریٹائر ہونے والے ملازمین کو ملتی ہے بقیہ 80فیصد
عمررسیدہ لوگ در بدر ٹھوکریں کھانے کے لیے رہ جاتے ہیں یا اپنی اولاد پر
بوجھ بن جاتے ہیں ۔یہ صرف میری کہانی ہے مجھ جیسے لاکھوں عمر رسیدہ لوگ
ادویات اور علاج معالجے کے لیے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں کسی کو ان پر ترس
نہیں آتا ۔ |