دربار نبوت کے آداب

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
عزیزانمن شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی الاعظمی رحمتہ اللہ علیہ کا نام ہمارے مفسرین ، اکابرین اور علماء کرام میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے آپ کی تمام تصانیف ہمارے لئے اور ہماری تمام نسلوں کے لئے مکمل راہ ہدایت ہیں آپ علیہ الرحمہ کی ایک معروف تصنیف" قرانی تقریریں" کے عنوان سے ہمارے لئے ایک بیش قیمت تحفہ ہے اس کتاب میں اپ علیہ الرحمہ نے ایک مضمون دربار نبوت کے آداب کے عنوان سے تحریر کیا ہے جو واقعی ہر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پڑھنے کے قابل ہے آپ علیہ الرحمہ کی اس تحریر سے متاثر ہوکر میں یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوگیا اور آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کررہا ہوں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ مجھے حق بات کہنے آپ لوگوں کو پڑھنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء الامین الکریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابئہ کرام علیہم الرضوان کی زندگیوں کا اولین مقصد صرف اور صرف سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ادب اور تعظیم کرنا تھا تاریخ اسلام میں ہمیں ایک سے بڑھکر ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ملتا ہے جن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ادب اور تعظیم کرنے پر وہ مقام نصیب ہوا جس کی تاریخ اسلام گواہ ہے اور ویسے بھی اس پوری کائنات کو تخلیق کرنے والے میرےاور آپ کے رب العزت نے قران مجید فرقان حمید میں کئی جگہوں پر ارشاد فرمایا کہ اگر عذاب جہنم اور میرے قہر و غضب سے بچنا چاہتے ہو تو کبھی بھی میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی نہ کرنا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی نے قران مجید فرقان حمید کی سورہ الحجرات کی آیت 2 میں واضح فرمایا ہے ترجمعہ کنزالایمان کہ " اے ایمان والوں اپنی اوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو "

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس آیت مبارکہ میں خالق حقیقی ، مالک مولا اور رب الکائنات اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں کو بھی مخاطب کیا ہے جو سرکار علیہ وسلم کی زندگی میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے رہے یعنی صحابئہ کرام علیہم الرضوان اور رہتی قیامت تک آنے والے تمام مومنین کو بھی جو مدینہ پاک میں دربار نبوت کی حاضری کی غرض سے جاتے ہیں اللہ رب العزت نے صاف اور واضح الفاظ میں فرمادیا کہ اگر زندگی میں تم نے کوئی نیکیاں کی ہیں نیک اعمال کئے ہیں تو دربار نبوت کی کبھی بھی کہیں بھی کسی طرح سے بھی بے ادبی نہ کرنا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے قہر اور غضب میں گرفتار ہوکر عذاب جہنم کے مستحق ہوجائو تمہاری زندگی بھر کی کمائی ہوئی نیکیاں اکارت وغارت ہوجائیں گی اور تمہیں خبر تک نہ ہوگی ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ویسے تو اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں سے مخاطب ہوکر یہ الفاظ فرمائے لیکن وقت نزول جو لوگ اس خطاب الہی سے سرفراز ہوئے وہ صحابئہ کرام علیہم الرضوان تھے چنانچہ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی آپ رضی اللہ عنہ بہت ہی مخلص ، جاں نثار اور پکے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے آپ علیہ الرحمہ خطیب رسول اور کاتب وحی بھی تھے آپ علیہ الرحمہ کو ثقل سماعت جیسی بیماری لاحق تھی یعنی وہ کم سنتے تھے یا اونچا سنتے تھے اس بیماری میں مبتلہ لوگ عام طور پر زور زور سے بلند آواز سے بات کرتے ہیں اور حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا بھی یہ ہی معمول تھا بلکہ وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے بھی چیخ چیخ کر بلند آواز سے گفتگو فرماتے تھے لیکن سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ناراضگی نہ فرمائی لیکن خالق حقیقی رب العزت کو یہ بات گوارہ نہ ہوئی اور اس نے یہ آیت مبارکہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور قیامت تک آنے والے تمام مومنین کے لئے دربار نبوت کے آداب سکھانے کے لئے نازل فرمائی ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے خدوند کریم کے قہر و غضب میں کہے ہوئے یہ الفاظ سنے تو آپ پر لرزہ طاری ہوگیا اور خوف و وہشت ربانی سے آپ علیہ الرحمہ کے ہوش اڑگئے اور گھر اپنی بیوی جمیلہ کے پاس پہنج گئے وپاں پہنچ کر کہنے لگے اے میری رفیقئہ حیات مجھ پر ایک بہت بڑے مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑاہے کہ میرے بارے میں عتاب الہی کی ایک آیت نازل ہوگئی ہے لہذہ تم مجھے ایک کوٹھری میں بند کردو تاکہ میں تنہائی میں بیٹھکر خوب رو رو کر توبہ و استغفار کروں شاید رب العالمین کو میرے حال پر رحم آجائے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے بخش دے گا گویا آپ رضی اللہ عنہ ایک کوٹھڑی میں بند ہوکر بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری میں مشغول ہوگئے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اپنی اس شرمندگی کے باعث باجماعت نماز پرھنے کے لئے مسجد جانا چھوڑ دیا تھا وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے خوف سے گھر پر بیٹھے روتے رہے سرکار علیہ وسلم ہمخشہ اپنے صحابہ سے بیت پیار کرتے تھے اور ان کی خبر گیری بھی رکھتے تھے جب کچھ دن گزر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ثابت بن قیس نظر نہ آئے تو آپ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابو عمرو تمہارے ہمسائے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے کیا حال ہیں بیمار ہے مسجد میں نظر نہیں آرہے تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاں وہ میرے ہمسائے ہیں لیکن بیماری کی کوئی اطلاع نہیں ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنےوالوں شام ہوئی تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے گھر چلے گئے اوریہ بتایا کہ اللہ تبارک وتعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے تم کہاں ہو مسجد بھی نہیں آرہے یہ سن کر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کوٹھڑی سے نکل کر برے بےتابانہ انداز میں بارگاہ اقدس میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اللہ رب العزت نے جو آیت نازل کی ہے میرا گمان ہے کہ وہ میرے بارے میں ہےاس دربار میں میرے علاوہ کوئی بلند اواز میں بات نہیں کرتا اس لئے میرا گمان ہے کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس تصور سے میرے دل و دماغ کے گوشے گوشے کو رنج و غم نے گھیر لیا ہے اور میرا پورا بدن خدا کے خوف سے کانپ رہا ہے یہ سن کر سرکار علیہ وسلم کو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ پر پیار آگیا۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار مدینہ صلی اللہ یہ وآلیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ میں تمہیں آج تین بشارتیں دیتا ہوں انہیں غور سے سن کو ایک تو یہ ہے کہ تمہاری زندگی نہایت ہی قابل تعریف گزرے گی دوسری یہ کہ تمہیں شہادت نصیب ہوگی اور تیسری یہ کہ تم جنتی ہو حضرت ثابت بن قیس یہ شاہانہ بشارتیں سرکار علیہ وسلم کے منہ سے سن کر فرط مسرت سے وجد میں آگئے اور عرض کیا کہ یارسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میں آج سے عہد کرتا ہوں کہ کبھی بھی آپ علیہ وسلم کے دربار میں بلند آواز میں بات نہیں کروں گا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہ بات کہتے ہی قران مجید کی سورہ الحجرات کی آیت نمبر 3 نازل ہوئی جس میں باری تعالی ارشاد فرماتا ہے ترجمعہ کنزل الایمان
" بیشک وہ اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل پرہیزگاری کے لئے اللہ نے پرکھ لیا ہے اور ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے "

میرے محترم یاروں آپ نے دیکھا کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر اور جاں نثار صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے لیکن تھوڑی سی دربار نبوت کی بے ادبی کے سبب اللہ رب العزت نے انہیں جھنجوڑ کر رکھ دیا اور جب تک سرکار علیہ وسلم نے رحمت نہ فرمائی تب تک مالک و مولا نے بھی رحم نہ کیا اور جیسے ہی آپ علیہ وسلم نے اپنی کریمانہ نظریں آپ پر کیں اور شاہانہ بشارتوں سے انہیں نوازا تو خالق کائنات نے بھی انہیں اپنی شان کے مطابق اجر عظیم سے بہرامند فرمادیا اور عظیم دولتوں سے مالامال کردیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ نے دیکھا کہ دربار نبوت میں زرا سی لرزش اور غلطی کے سبب قہر الہی اور اس کے غضب نے ایک جنتی اور جلیل القدر صحابی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اللہ رب العزت نے ایک آیت نازل فرما کر نہ صرف ان کو بلکہ رہتی قیامت تک کے مومنوں کے لئے ایک پیغام دے دیا کہ دربار نبوت کی بے ادبی کے سبب جب تک سرکار علیہ وسلم اپنی رحمت نہیں فرماتے اللہ تبارک وتعالی بھی معافی نہیں دے گا اور جب کوئی اپنی غلطی سے توبہ و استغفار کرلیتا ہے اور دربار نبوت کے آداب اور تعظیم کا خیال رکھتا ہے تو اللہ رب العزت اپنی شان کے مطابق اسے نوازدیتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی خوش نصیبی پر ہزاروں جانیں قربان یعنی دربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے تین بشارتوں کا ملنا قابل تعریف زندگی ، شیادت اور پھر جنتی کا خطاب سبحان اللہ کیا اس بڑھکر بھی کوئی نعمت ہوگی کسی مسلمان کے لئے اللہ اکبر یعنی سرکار علیہ وسلم کی کرم نوازی اور رب العزت کی عطا نے ایک فقیر کو بادشاہ بنادیا سچ ہے
جس سے تم روٹھو وہ برگشتہ دنیا ہوجائے
جس کو تم چاہو وہ قطرہ ہو تو دریا ہوجائے

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس سارے معاملے میں دو باتیں مکمل طور ہر واضح ہوکر سامنے آجاتی ہیں اور جس طرح دن کے رات میں تبدیل ہونے اور رات کے پھر دن میں تبدیل ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکل اسی طرح ان دو باتوں کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ایک تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا اللہ تبارک وتعالی کے اذن سے مختار دوعالم ہونا اور دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا غیب داں ہونا اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو مختیار دو عالم بناکر یہ اختیار و اقتدار عطا کیا ہے کہ جس کو چاہیں اچھی زندگی شہادت کا رتبہ اور اور جنت کا ٹھکانہ عطا فرمادیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمیشہ اپنا عقیدہ یہ ہی رکھیں کہ
دربار رسول سے اے راز کیا ملتا نہیں
کوئی پلٹ کر خالی نہ گیا مدینہ سے

جبکہ امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے اپنے انداز میں کیا فرماتے ہیں
" فلاورب العرش " جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
اور محبت رسول میں ہمارا یہ ایمان ہے کہ
ہم گدائے در محمد ہیں
ہم کو سب کچھ یہیں سے ملتا ہے

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں انشاء اللہ میں کوشش کروں گا کہ حضرت ثابت بن قیس کی زندگی کے بارے میں اگلی تحریر میں کچھ عرض کروں اور یہ بتائوں کہ سرکار علیہ وسلم کی عطا کی ہوئی وہ بشارتیں جو آپ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو خوشخبری کے طور پر سنائی تھی وہ کس طرح پوری ہوئی میرے یاروں آج بھی جو لوگ حج یا عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب روانہ ہوتے ہیں اور جب مدینہ پاک میں مسجد نبوی میں موجود روزہ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی حاضری نصیب ہوتی ہے تو آپ دیکھتے ہوں گے کہ وہاں بڑی خاموشی ، ادب اور تعظیم کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں یہ ہی ادب دربار نبوت کا ادب ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں زندگی کے ہر اس عمل میں ہمیں احتیاط برتنی ہوگی جسکی وجہ سے اللہ رب العزت کا ہم سے ناراض ہوجانے کا اندیشہ ہو اور ہم گناہگاروں کی وہ تمام نیکیاں جو ہمیں بروز محشر اپنے گناہوں کے پلڑے کے مقابلہ میں کام آئیں وہ ضایع ہوجائیں اور ہم مسلمان ہونے کے باوجود قہر الہی اور عذاب الہی کا شکار ہوکر جہنم میں داخل کردیئے جائیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہی ہمارا ٹھکانہ ہوجائے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دربار نبوت کے آداب کا موضوع اتنا طویل ہے کہ میں لکھتا رہوں اور آپ پڑھتے رہیں لیکن ختم نہ ہو لہذہ کوشش کروں گا اس موضوع پر پھر کوئی تحریر لیکر حاضر ہوجائوں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر اس بے ادبی سے محفوظ رکھے جس کا انجام صرف اور صرف جہنم ہے اور وہ کام کروائے جس میں اس رب الکائنات کی اور حضور صلی اللی علیہ وآلیہ وسلم کی رصامندی اور خوشنودی شامل ہو ۔آمین آمین بجاء النبی الامین الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم۔
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.