معروف کالم نگار اور محقق یاسر پیرزادہ کے کالم میں
بہت شوق سے پڑھتا اور حظ اُٹھاتا ہوں۔ وہ عصرِ نَو کی بھرپور ترجمانی کرتے
ہیں اور میں تیزگام کاروانِ ہستی میں اپنی کہن سالی کے سبب عہدِ ماضی میں
اُلجھا ہوا۔ اُن کی دیدہ وری اور اپنی بے بصری کا ادراک ہونے کے باوجود بعض
موضوعات پر اُن سے چشمک جاری رہتی ہے مگر شائستگی اور حدود وقیود کو ملحوظِ
خاطر رکھتے ہوئے۔ عورت مارچ اور سیکولرازم اُن کے پسندیدہ موضوعات ہیں جن
پر اُن کی تدقیق وتحقیق کے گُل کھلتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُنہوں نے
’’پچھتر برس کا آڈٹ کیسے کیا جائے‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا جس میں
قائدِاعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’’اِس کا
مطلب سوائے اِس کے اور کچھ نہیں تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔ جن
لوگوں کو اِس لفظ سے تکلیف پہنچتی ہے، وہ اپنی کوئی لغت اُٹھائیں اور اِس
میں سیکولر کا لفظ تلاش کرکے معنی دیکھیں اور پھر اُسے قائد کی تقریر کے
ساتھ ملا کر پڑھیں۔ اﷲ نے چاہا تو تکلیف دور ہو جائے گی‘‘۔
حیرت ہے کہ سیکولر ذہن رکھنے والے صاحبانِ فکرونظر کو بطور حوالہ قائدِاعظم
کی صرف 11گست کی تقریر ہی کیوں نظر آتی ہے جبکہ قائد نے ایک سو سے زائد
مرتبہ نوزائیدہ مملکت کے لیے پوری قطعیت کے ساتھ اسلامی نظام کے نفاذکا ذکر
بھی کیا ہے۔ پاکستان میں سیکولر نظام کے نفاذ کی تگ ودَو کرنے والے قائدِ
اعظمؒ کا جواب سُن لیں، شائد اُنہیں اِس سے کچھ افاقہ ہو۔ قائد نے 25 جنوری
1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’میں اُن لوگوں
کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پراپیگنڈہ
کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی
پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اطلاق اُسی طرح ہوتا ہے جس طرح 13 سو برس پہلے
ہوتا تھا‘‘۔ جہاں تک اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات ہے تو 14 اگست 1947ء
کو جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے شہنشاہ اکبر کی رواداری کا ذکر کیا تو قائد نے
فرمایا ’’وہ رواداری جواکبر بادشاہ نے غیرمسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی
بات نہیں، یہ تو مسلمانوں کی 13 صدی قبل کی روایت ہے جب پیغمبرِ اسلام حضڑت
محمد ﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد اُن کے ساتھ نہ
صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاؤ کیا۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اِس قسم کے
واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی
پاکستان کا نظام چلائیں گے‘‘۔ اب اگر سیکولر بھائی قائدِاعظمؒ کے اِس جواب
کو 11 اگست کی ’’تقریر سے ملا کر پڑھیں‘‘تو شاید اُنہیں اندازہ ہو جائے کہ
قائد کا یہ خطاب بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھا۔ اسلامی نظام میں
غیرمسلموں کے حقوق کا اُسی طرح سے تحفظ کیا جاتا ہے جیسا قائدؒ نے 11 اگست
کی تقریر میں فرمایا۔ اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو قائد کے چند اور فرمودات
حاضر ہیں۔ اُنہوں نے 14 فروری کو دربار بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا
’’ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی اصولوں پر
رکھیں‘‘۔ 12 دسمبر 47ء کو مسلم لیگ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’میں صاف طور
پر واضح کر دوں کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی ایک مملکت ہوگی‘‘۔
یاسر پیرزادہ صاحب نے اپنے کالم میں فرمایا ہے ’’آئین ساز اسمبلی چاہتی تو
قائدِاعظم کی 11 اگست کی تقریر کے متن کو آئین کے دیباچے کا حصہ بنا سکتی
تھی مگر اُس نے ایسا نہیں کیا اور قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنا کر
واضح پیغام دیا کہ ریاست اپنے شہریوں کے مذہب اور عقیدے کے معاملات میں
مُنہ مارتی رہے گی اور پھر ایسا ہی ہوا‘‘۔ بصد ادب گزارش ہے کہ قراردادِ
مقاصد میں واضح طور پر لکھا ہے ’’اِس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا
کہ اقلیتیں اپنے مذہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی
دینے کے لیے آزاد ہوں۔ مزید برآں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کا
قرارواقعی انتظام کیا جائے گا‘‘۔ یہی کچھ تو قائدِاعظم نے اپنے 11 اگست کے
خطاب میں فرمایا پھر قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے پر اعتراض کیوں؟۔
اگر کوئی قراردادِ مقاصد کو آئین کا دیباچہ قرار دینے پر معترض ہے توپھر
لامحالہ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ
وجود میں نہیں آیا کیونکہ قراردادِ مقاصد کی ابتدا ہی میں لکھا گیا ہے ’’اﷲ
تعالیٰ ہی کُل کائینات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے
ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے وہ اُس کی مقرر کردہ حدود کے
اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا‘‘۔ یہی عین ایمان ہے اور
دینِ مبین کی بنیاد جس پر عمل کرتے ہوئے قائدِاعظم نے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل
کیا۔ 16 دسمبر 1942ء کو اُنہوں نے فرمایا ’’پاکستان کا مقصد اِس کے سوا کیا
ہے کہ پاکستان میں اﷲ کے دین کا نظام قائم ہوگا۔ مسلمانوں کے لیے پروگرام
تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اُن کے پاس 13 سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود
ہے اور وہ ہے قُرآنِ پاک‘‘۔ جب ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا وجودقائداعظم کی
کوششوں اور کاوشوں کا ثمر ہے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ قراردادِ
مقاصد آئینِ پاکستان کا جزوِ لاینفک ہونا بھی ضروری کیونکہ قائدِاعظم کی
ساری تگ ودَو زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے تھی جسے وہ اسلام کی تجربہ گاہ میں
ڈھال سکیں۔
اگر پاکستان کی اساس نظامِ اسلام ہے تو پھراِسی تناظر میں مرد وزَن کے حقوق
وفرائض پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ محترم یاسر پیرزادہ نے ’’عورت مارچ، مرد اپنی
حدود میں رہیں‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھاجس میں اُنہوں نے جہاں خواتین کے
حقوق کی بھرپور عکاسی کی وہیں اُن کے فرائض سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مردوں کو
اپنی حدود میں رہنے کی تلقین بھی کر ڈالی۔ یہ بجا کہ اُنہوں نے محض توازن
قائم کرنے کے لیے اپنے کالم میں مردوں کے حق میں بھی ایک مختصر سا پیراگراف
لکھ دیا۔ حقیقت مگر یہ کہ ’’حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘۔ دینِ مبیں
میں مردوں اور عورتوں کے حقوق برابر ہیں۔ سورۃ النور آیات 30,31 میں جہاں
عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا
گیا ہے وہیں یہ حکم مردوں کے لیے بھی ہے۔ فرقانِ حمید کے مطابق مردوں اور
عورتوں کے بنیادی حقوق اور مراعات یکساں ہیں۔ سورۃ آل عمران آیت 95 میں
ارشاد ہوا ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد
ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو‘‘۔ سورۃ توبہ میں ربِ لم یزل نے
تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایک دوسرے کا دوست، مددگار اور معاون
قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوا ’’مومن مرد اور مومن عورتیں سب ایک دوسرے کے
مددگارومعاون ہیں جو بھلائی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘‘ (
سورۃ توبہ آیت 70)۔ اِس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عورتیں مردوں کی
تابع نہیں البتہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے مخصوص حالات میں حفظِ مراتب ہو
سکتا ہے۔ جیسے مرد کو ’’قوام‘‘ مقرر کیا گیا ہے۔ اب یہ تو طے ہے کہ کوئی
ملک ہو، قبیلہ یا خاندان، اُس کا جب تک قوام یعنی نگہبان مقرر نہیں کیا
جاتا، کاروبارِ حیات چلانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر مرد کو قوام مقرر کیا گیا
ہے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت اُس کے تابع ہوگئی۔ اسی لیے سورۃ
النساء آیت 32 میں ارشاد ہوا’’جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق اُن
کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق اُن کا حصہ
ہے‘‘۔سوال یہ ہے کہ پھر گڑبڑ کہاں پر ہے؟۔ میرے خیال میں اِس کا سبب یہ ہے
کہ ایک طرف تو ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ہے تو دوسری طرف مغرب کی نقالی
ہمارا نصب العین۔ اگر ایک طرف مرد اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو
دوسری طرف عورت بھی مادر پدر آزادی مانگتی ہے اور وجہ نزع بھی یہی ہے۔ اِس
کا واحد سبب دین سے دوری ہے۔ایسے میں فلاح کی راہ نکلنا ناممکن۔ اگر ہمیں
مردوزَن میں توازن برقرار رکھنا ہے تو پھر ہمیں پورے کا پورا دینِ اسلام
میں داخل ہونا ہوگاکیونکہ نہ تو ادیانِ عالم میں سے کسی دین میں یہ توازن
نظر آتا ہے اور نہ ہی سوائے اسلامی معاشرے کے کسی معاشرے میں۔ ایسے نہیں
چلے گاکہ مرد فرقانِ حمید میں اپنے حقوق تلاش کرتے پھریں، عورتیں اپنے اور
دونوں ہی اپنے اپنے فرائض سے صرفِ نظر کریں۔
|