زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں
ہے سب کا سب اللہ تعالی کے حکم سے اپنی جگہ پر قائم ہے حتیٰ کہ وہ چٹان بھی جس
کے بارے میں سوال کیا گیا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح
ہے
بلاشبہ اللہ تعالی ہی آسمان و زمین کو تھامے ہوئے کہ وہ نہ گریں ، اور اگر وہ
گر جائيں تواس کے بعد کوئی اور انہیں تھام ہی نہیں سکتا
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کچھ اس طرح فرمایا
اور اس ( اللہ تعالیٰ ) کی نشانیوں میں سے ہی ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے
قائم ہیں۔
بیت المقدس کی چٹان ہوا میں معلق نہیں کہ اس کے ہرطرف خلاء ہو بلکہ وہ ابھی تک
پہاڑ والی جانب سے پہاڑ کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور وہ اپنے پہاڑ کے ساتھ چمٹی
ہویئ ہے پہاڑ اور چٹان دونوں عادی اور کونی اسباب کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم ہيں
اور یہ اسباب سمجھ میں بھی آنے والے ہیں ، پہاڑ اور چٹان کی حالت بھی کائنات کی
دوسری اشیاء کی طرح ہی ہے ۔
لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار نہیں کرتے کہ وہ فضاء میں کائنات کی کسی
چيزکا کوئی جز پکڑ کر معلق کر دے، اور پھر سب کی مخلوقات تو اللہ تعالیٰ کی
قدرت سے فضاء میں قائم ہیں جس کا ذکر اوپر بھی گزر چکا ہے ۔
قوم موسیٰ جس نے ان کی شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر طور
پہاڑ کو اٹھا دیا جو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے معلق تھا ، اسی کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
اورجب ہم نے تم سے وعدہ لیا اورتم پر طور پہاڑ کو اٹھا کر کھڑا کردیا اور کہا
کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد
کرو تاکہ تم بچ سکو البقرۃ ( 63 ) ۔
اور فرمان باری تعالیٰ کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے
اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ اٹھا کر سائبان کی طرح ان کے اوپر
معلق کر دیا اور ان کو یقین ہوگيا کہ اب ان پر گرا ( اور ہم نے کہا ) کہ جو
کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور اس میں جو کچھ احکام ہیں
انہیں یاد کرو توقع ہے کہ تم اس سے متقی بن جاؤ گے الاعراف ( 171 )۔
لیکن یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو چٹان بیت المقدس میں ہے وہ ہر
جانب سے فضاء میں معلق اور پہاڑ سے کلی طور پر علیحدہ نہیں بلکہ ایک طرف سے
پہاڑ کے ساتھ منسلک اور چمٹی ہوئی ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم |