بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندو ؤں کو بسانے،
انہیں کشمیری شہریت دینے اور آزادی پسندکشمیریوں کی زمین و جائیداد ضبط
کرنے کا سلسلہ تیز کرتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر میں جاری ہموار اور پرامن
ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف پروپگنڈہ شروع کر دیا ہے تا کہ اس کی آڑ میں
حقائق کو دنیا سے چھپا دیا جائے۔ اس کا مقصدمقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی
افواج کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں، ریاستی دہشتگردی سے عالمی
برادری کی توجہ ہٹاناہے۔خالصتان تحریک سے خوفزدہ مودی حکومت کی کوشش ہے کہ
آزاد جموں و کشمیر اور پاکستانی عوام کے درمیان نفرت پھیلادی جائے۔ خود
ساختہ جلاوطن لوگ بھارتی سازشوں کا جال پھیلانے کے لئے بروئے کار لائے جا
رہے ہیں۔ پاکستان بیورو آف شماریات کشمیریوں کو آزاد جموں و کشمیر کے شہری
کے طور پر رجسٹرکر رہا ہے۔لوگ آن لائن مردم شماری کا فارم جوش و خروش کے
ساتھ بھر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے شہریوں کو پاکستان میں کہیں بھی جائیداد
خریدنے اور بیچنے کی آزادی حاصل ہے، پاکستانیوں کو آزاد کشمیر میں جائیداد
خریدنے کی اجازت نہیں کیوں کہ پاکستان اس خطے کوایک متنازعہ علاقہ سمجھتے
ہوئے کشمیریوں کو یو این قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینے کی وکالت
کرتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرتے ہوئے
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کئے گئے وعدوں کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ 5
اگست 2019 کے بعد بھارتی شہریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرنے اور بین
الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ ریاست میں مستقل طور پر آباد ہونے کی
اجازت دی گئی ہے۔کشمیری بھارتی پروپگنڈہ کے جھانسے اور دھوکے میں آ کر آزاد
کشمیر کے پرسکون ماحول کو خراب کرنے کی کسی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے پر
عزم ہیں۔وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان نے بھی
واضح کر دیا ہے کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر میں جاری مردم شماری کے حوالے سے
حکومت اور آزاد کشمیر کے عوام کے کسی بھی تحفظات دور کرے گی۔آزاد کشمیر
قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت
کرتے ہوئے انھوں نے یہ اعلان کیا۔ آزاد کشمیر کا خطہ پاکستان کے لئے
انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ آزاد کشمیر
میں شہریت، زبان، رہائش یا کسی بھی حوالے سے ابہام اور تحفظات سے پاک مردم
شماری یقینی بنا رہی ہے۔حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ایسی مردم
شماری چاہتی ہے جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو ۔
اس کے برعکس بھارت کی ہندو آبادی کو کشمیر کی شہریت دے کرانہیں انتخابات
میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی ووٹر لسٹ میں 10لاکھ سے
زیادہ ہندو ووٹرز کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نئی انتخابی حدود قائم کی گئی
ہیں۔ علاقائی اسمبلی میں ہندو ووٹ بینک بڑھانے کے لئے مزید سات نشستوں کا
اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کے ڈھانچے کو مسلم اکثریت سے ہندو اکثریتی علاقے
میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، جموں میں تقریباً
53لاکھ باشندے ہیں، جن میں سے 62 فیصد ہندو ہیں۔ وادی کشمیر میں 67لاکھ
باشندے ہیں، جن میں سے 97 فیصد مسلمان ہیں۔دسمبر2022 تک 60لاکھ سے زیادہ
بھارتی شہریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے جا چکے ہیں۔بھارتی حکومت کے
تمام کالے قوانین جیسے ڈومیسائل اور حد بندی (حدود میں تبدیلی) کا مقصد
مقبوضہ ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو اقلیت میں بدل دینا ہے۔ بی جے پی نے
مغربی پاکستان یا آج کے بنگلہ دیش کے 650,000 سے زیادہ ہندوپناہ گزینوں، جو
تقسیم برصغیرکے بعد جموں میں آبادکئے گئے کوپہلی بار مکمل شہریت دی ہے۔ یہ
لوگ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت بھارت میں بسائے جانے تھے، مگر منصوبہ
بندی سے انہیں متنازعہ جموں کشمیر میں غیر قانونی طور پر آباد کیا
گیا۔ہندوستانی فوج نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت مرنے والے بھارتی فوجیوں کے
اہل خانہ، ان کی خدمت کرنے والے، ریٹائرڈ ، بیواؤں اور والدین کے لئے جموں
شہر میں ایک ہاؤسنگ کالونی تعمیر کر رہی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کو اراضی کے نئے کالے قانون کے تحت
زمینوں سے جبری بے دخل کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی ہندوستانی شہری کو زمین
خریدنے کا اہل قرار دیاگیا ہے۔اب غیر رہائشی دوبارہ جموں اور کشمیر میں
سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔آرٹیکل 370 منسوخ ہونے کے بعد جموں و کشمیر میں
اراضی قوانین تبدیل ہو گئے۔ بگ لینڈڈ اسٹیٹس ابالیشن ایکٹ اور جموں و کشمیر
ایلینیشن آف لینڈ ایکٹ دونوں کو منسوخ کر دیا گیا ۔بھارت کاکوئی بھی غیر
کاشتکار جسے جبری طور پر زمین الاٹ کی گئی ہے، اسے مکمل طور پر غیر زرعی
مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی غیر قانونی اجازت ہے۔زمین کی ملکیت کے قانون
میں ناقابل قبول تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔ غیر زرعی اراضی خریدتے وقت ڈومیسائل
کا ٹوکن ازم بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
بھارتی حکومت نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کر لیا،
اسے تقسیم کر دیا اور اسے بھارتی یونین میں ضم کر دیا۔ یہ اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یو این کی کشمیر پر 11
قراردادیں ہیں۔ خاص طور پر، یہ یو این ایس سی کی قرارداد 38 کی خلاف ورزی
ہے، جس کے پیرا 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تنازعہ کا کوئی بھی فریق
کشمیر کی صورت حال میں مادی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ 47 صدارتی احکامات کے تحت
ہندوستانی آئین کے 395 آرٹیکلز میں سے 260 کو کشمیر تک بڑھا دیا گیاجبکہ
مقبوضہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی توثیق کے بغیر متنازعہ ریاست
میں بھارتی قوانین کا اطلاق و نفاذ نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیری پنڈتوں کے لئے
الگ بستیاں قائم ہو رہی ہے۔ پنڈتوں کے ساتھ مزید لوگ ان کے رشتہ دار، دوست
بن کر وادی کشمیر پر یلغار کر رہے ہیں۔مگر بھارتی پروپگنڈہ کرنے والے بھارت
کے کشمیر دشمن اقدامات پر بالکل خاموش ہیں۔
|