ہند تہوار کے موقع پر مغربی بنگال سے جموں تک مسلم اقلیت پہ حملے
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
بھارت میںیوں تو اقلیتوں پر اکثریتی ہندوئوں کے پرتشدد حملوں کی ایک پوری تاریخ ہے جو بغیر کسی تعطل کے اب تک مسلسل جاری ہے تاہم بھارت میں انتہا پسند ہندو گروپوں کی نمائندگی کرنے والی '' بھارتیہ جنتا پارٹی '' کی نریندر مودی کی سربراہی میں حکومت کے قیام کے بعد اقلیتوں کے خلاف قتل و غار ت گری اور ہندو گروپوں کے ہاتھوں تشدد کی کاروائیوں کا سلسلہ حکومتی سرپرستی میں تیز سے تیز تر ہوا ہے۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف انتہا پسند ہندو تنظیموں کی پرتشدد کاروائیوں میں بڑی تعداد میں اقلیتی فرقوں کے افراد کو ہلاک اور زخمی کیا گیا اور ان کی جائیدادوں کو تباہ کیا گیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے علاوہ امریکہ کی دنیا میں مذہبی آزادی کی صورتحال کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں بھی بھارت میں اقلیتوں کے خلاف قتل و غارت گری کی کاروائیوں کی مسلسل صورتحال کو بیان کرتے ہوئے اس انسانیت سوز صورتحال پر گہری تشویش کا اظہا رکیا گیا ہے۔
اقلیتوں کے خلاف کاروائیوں کے لئے یوں تو کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی، انتہا پسند ہندو جتھے ' جے شری رام' کے نعرے لگاتے ہوئے کسی بھی وقت اقلیتوں پر حملے شروع کر دیتے ہیں تاہم اقلیتوں کے مذہبی دنوں اور ہندوئوں کے مقدس تہواروں وغیرہ کے موقع پر بھارت کے تمام علاقوں میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کاروائیاں وسیع پیمانے پہ شروع ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی گزشتہ دس روز کے دوران مغربی بنگال سے جموں تک ہندو ئوں کے ' رام نومی' تہوار کے موقع پر بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارائیوں کی لہر دیکھی گئی جس دوران ہندو جتھے مسلمانوں کی مساجد اور ان کی دکانوں پر حملہ آور ہوئے اور ہر جگہ انہیں پولیس کی آشیر باد بھی حاصل رہی۔
بھارتی میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق ہندوں کے مذہبی تہوار کے دوران بھارت کئی ریاستوں میں تشدد پھوٹ پڑے اور اس دوران وسیع پیمانے پہ مسلم کش فسادات پھیلنے سے روکنے اور مسلمانوں پر حملے کے واقعات کو چھپانے کے لئے انٹرنیٹ پرپابندی عائید کر دی گئی۔ ریاست بہار کے ضلع نالندہ کے بہار شریف قصبے میں اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب ہندو رام نومی کے موقع پر جلوس نکال رہے تھے۔اس سے پہلے اسی علاقے میںانتہا پسند ہندو گروپوں نے تہوار کو جوش و خروش سے مناتے ہوئے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کوآگ لگا دی۔اسی طرح ایک ممتاز مسلم سکول کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ہندوستان کے کئی حصوں میں رام نومی کے تہوار میں ہندو تلواروں، لاٹھیوں، ترشولوں اور یہاں تک کہ بندوقیں لے کر بڑے جلوس نکالتے ہیں۔حالیہ برسوں میں، ریلیاں اشتعال انگیز طور پر مسلم محلوں میں مذہبی - اور اکثر نفرت سے بھرے موسیقی کے ساتھ - طاقتور سانڈ سسٹم کے ذریعے چلتی ہیں۔نالندہ پولیس کے سربراہ کے مطابق ہزاروں افراد پر مشتمل ہندو گروپوں نے مسلح ہو کر مسلم اکثریتی علاقوں میں پریڈ کی اور اس دوران مسلم آبادیوں پر حملے بھی کئے۔ انہوں نے عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، انہوں نے مزید کہا کہ بدامنی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔بہار کے دو دیگر شہروں میں اسی طرح کے فرقہ وارانہ بھڑک اٹھنے کی اطلاع ملی، جہاں حکام نے کچھ علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ خدمات بند کر دیں اور عوامی نقل و حرکت کو روک دیا۔روہتاس میں، تشدد کی زد میں آنے والے ایک اور ضلع جہاں پولیس نے درجنوں کو گرفتار کر لیا، ایک گھر کے اندر دھماکے میں چھ افراد زخمی ہوئے جہاں دو افراد مبینہ طور پر بم بنا رہے تھے۔بہار پولیس نے ٹویٹ کیا کہ پہلی نظر میں ایسا نہیں لگتا کہ دھماکہ حالیہ بدامنی سے متعلق تھا۔ گھر میں تیار کردہ دھماکہ خیز مواد بعض اوقات علاقے میں کان کنی میں استعمال ہوتا ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق ہندو تہوار کے بعد حالیہ دنوں میں کم از کم سات دیگر ہندوستانی ریاستوں میں بھی تشدد ہوا، جس میں کم از کم 13 قصبوں اور شہروں میں درجنوں زخمی اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور مغربی بنگال میں بھی ہندو تنظیموں کے ہجوم نے توڑ پھوڑ کی اور گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا۔مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے کہا کہ ان کی ریاست میں تشدد اس وقت شروع ہوا جب ہندوئوں کا مذہبی جلوس اپنے راستے سے ضلع کے شب پور علاقے میں ایک غیر مجاز علاقے کی طرف موڑ گیا۔بنرجی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر تشدد کو منظم کرنے کا بھی الزام لگایا۔مغربی ہندوستان میں جمعرات کو مودی کی آبائی ریاست گجرات میں اسی طرح کے تشدد کی اطلاع ملی جہاں پڑوسی ریاست مہاراشٹر کے وڈودرا اور اورنگ آباد میں جھڑپوں کی اطلاع ملی۔ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی، جو 2002 کے بدنام زمانہ فسادات کے دوران گجرات کے وزیر اعلی تھے، کے 2014 میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے سخت گیر ہندو گروپوں کو حوصلہ ملا ہے۔ ایک ہندو فرنٹ فار جسٹس ٹرسٹ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور ان ریاستوں کی حکومتوں کو ہدایت کی درخواست کی ہے جہاں تشدد ہوا ہے تاکہ نقصان کا تعین کیا جا سکے۔ ان کی درخواست میںکہا گیا ہے کہ ہندو تہوار کے موقع پر مذہبی جلوسوں میںشامل افراد کی طرف سے اقلیتوں پر وسیع پیمانے پر حملے کئے گئے جس سے سیع پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ہندو فرنٹ فار جسٹس ٹرسٹ نے اپنی درخواست میں ہاوڑہ، اتر دیناج پور (مغربی بنگال)، ساسارام اور نالندہ (بہار)، حیدرآباد (تلنگانہ)، اورنگ آباد (مہاراشٹر)، وڈودرا (گجرات) میں ہونے والے تشدد کا ذکر کیا ہے او ر کہا کہ جمشید پور (جھارکھنڈ)۔ "مسلم ہجوم نے حملہ کیا، آتش زنی کی، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، پتھرا کیا، ہندو عقیدت مندوں پر حملہ کیا (جو کہ) مذہبی جلوس نکال رہے تھے یعنی بھگوان رام کی شوبھا یاترا۔" درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ رام نومی کے موقع پر مختلف نفرت انگیز جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے۔ - 30 مارچ کو ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ہجوم کے ذریعہ۔مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، ہندو فرنٹ فار جسٹس-ٹرسٹ نے کہا ہے: "مغربی بنگال کی وزیر اعلی - محترمہ۔ ممتا بنرجی نے ہندو برادری کے ارکان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مسلم فرقہ وارانہ علاقوں سے کوئی بھی جلوس نہ نکالیں کیونکہ ریاست کا کچھ علاقہ صرف مسلمانوں کے لیے مختص کیا گیا ہے اور کوئی بھی وہاں داخل نہیں ہو سکتا۔ ہندو فرنٹ فار جسٹس ٹرسٹ کی درخوات کی سماعت 28 اپریل کو ہوگی۔ ہندو فرنٹ فار جسٹس) نے مزید کہا ہے کہ ہندوئوںں کے لیے عوامی سڑکوں سے مذہبی جلوس نکالنا آئینی طور پر جائز ہے، اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس علاقے میں کون سی کمیونٹی رہتی ہے۔درخواست گزار نے الزام لگایا کہ چیف منسٹر کی طرف سے دی گئی وارننگ مسلم کمیونٹی کے حق میں ان کا متعصبانہ رویہ ظاہر کرتی ہے۔ ہندو فرنٹ فار جسٹس ٹرسٹ نے درخواست میں ریاستی حکومتوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت دینے کی بھی مانگ کی ہے تاکہ مستقبل میں رام نومی تہوار اور دیگر تہواروں پر شوبھا یاترا پر حملے یا خلل ڈالنے کا واقعہ پیش نہ آئے۔ ہندو فرنٹ فار جسٹس ٹرسٹ ریاستی حکومتوں کو ہدایت دینے کی بھی کوشش کرتا ہے کہ ہندو عقیدت مندوں کو عوامی سڑکوں سے پرامن طریقے سے جلوس نکالنے کی اجازت دی جائے اور ایسی درخواستوں کو صرف اس بنیاد پر مسترد نہیں کیا جائے کہ زیر بحث علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ ہندو فرنٹ کی جانب سے دی گئی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے ارکان نے بدامنی پیدا کرنے کے لیے جلوس پر پتھرا ئوکرکے نفرت انگیز جرائم کا ارتکاب کیا اور ہندوں کے خلاف سراسر نفرت کی وجہ سے بے گناہ عقیدت مند ں پر حملہ کیا گیا۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ ریاستی حکومتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ رام نومی کے دن یا دیگر مذہبی مواقع پر ہندوئوںں کے جلوسوں کو مکمل تحفظ فراہم کریں، ہندو فرنٹ فار جسٹس کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ ریاستی حکومتیں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ اور لوگوں کے پرامن طریقے سے عبادت اور مذہبی تقریب منانے کے حق کا تحفظ کریں۔اس نے متعلقہ ریاستی حکومتوں کے چیف سکریٹریوں کو ان وجوہات کے بارے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی مانگی ہے جن کی وجہ سے 30 مارچ 2023 کو شری رام شوبھا یاترا پر ہجوم کے حملے اور تشدد ہوا تھا۔ ملزمان کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کی جائے۔ ہندو فرنٹ فار جسٹس ٹرسٹ نے ریاستی حکومتوں کو تحسین پونا والا کیس میں 6 سپریم کورٹ کے ذریعہ نفرت انگیز تقریر اور جرائم کو روکنے کے لئے جاری کردہ رہنما خطوط پر عمل کرنے کی ہدایت بھی مانگی ہے۔
بھارتی میڈیا اطلاعات میں مزید بتایا گیا ہے کہ بھارت کے سونی پت میں ہندو ئوں کا رام نومی جلوس تلواریں اٹھائے، بلڈوزر پر بیٹھ کر، نفرت انگیز موسیقی بجاتے ہوئے، اور پھر مسجد میں توڑ پھوڑ اور مسجد پر بھگوا پرچم لہرانا،بھارت کے گجرات میں ہندو بالادستی کھلم کھلا دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر ان کا کوئی رکن گرفتار ہوا تو وہ 2002 کو دہرائیں گے اور پورا وڈودرا جلا دیا جائے گا۔راشٹریہ سیوک سنگھ کے رہنمااشوک سوین نے غصے کی حالت میں چنگھاڑے ہوئے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جو بھی ان کو آزادی سے تہواروں کے جلوس نکالنے میں مزاحم ہو گا ، اس کو جلا دیا جائے گا۔ہندوستان کے متھرا شہر میں واقع جامع مسجد کی دیوار پر چڑھ کر رام نومی کا جشن منانے والے ہندوئوں نے اپنے جھڈے لہرائے اور شدید نعرے بازی کی۔رام نومی کے اس ہندو تہوار میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر جگہ ہندو جلوس مسلمانوں کی آبادیوںمیں داخل ہو گئے اور ان کی مساجد ، گھروں اوردکانوں پی حملہ آور ہوئے۔جموں شہر میں پولیس نے رام نومی کے ہندو تہوار کے موقع پر متعدد مسلم ہوٹل مالکان کو اس وجہ سے گرفتار کر لیا کہ انہوں نے رام نومی تہوار کے موقع پر اپنے ہوٹلوںمیں گوشت کیوں پکایا ہے۔ مسلم ہوٹل مالکان نے میڈیا کو بتایا کہ ان دنوں مسلمانوں کا رمضان کا مہینہ ہے اور اس مہینے مسلمان تمام دن روزے کی حالت کے بعد گوشت ضرور کھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مذہبی احترام کی بات ہے تو مسلمانوں کے اس مقدس مہینے میں جموں میں شراب کی دکانوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی، انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو اکثریتی ہندوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور حکومت ہندو بالا دستی والی ریاست کے طور پر اقلیتوں کے وجود کی بھی نفی کر رہی ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|