رمضان المبارک کو ہم ہر سال خوش آمدیدکہتے
ہیں۔تزکیہ نفس اور تربیت،جسم وجان، روح کی پاکیزگی مقصد ہے۔ بھوک اور پیاس
کااحساس بھوکوں ، پیاسوں کی قدردانی کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ یہ تربیتی کورس
ہے ۔اﷲ پاک جسے توفیق دے،جسیفیض یاب کرے، اسے ہی سعادت ملے گی۔ رمضان
المبارک اور روزہ کی فضیلت پر دینی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سائنسی نقطۂ
نگاہ سے بحث جاری رہتی ہے۔میڈیا پر رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کا آغاز
ہوتاہے ۔سحری و افطار کے وقت خصوصی پروگرام نشر ہوتے ہیں۔اسلام اجتماعیت کا
درس دیتا ہے۔ نماز تراویح کا اہتمام ہورہا ہے۔ مساجد میں باجماعت نمازادا
ہورہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے اعمال، خلوص نیت جانتے ہیں۔ہمارے نفس کی تربیت
صرف، بھوک و پیاس کے احساس سے نہیں، حواس خمسہ، روح اور جسم کی تربیت سیہے۔
بچے بھی مشق کرتے ہیں۔ایک دن میں کئی روزے رکھتے ہیں ۔
رب جسے چاہے رمضان ڈسکاؤنٹ کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ یہ لوگ مہنگائی، ذخیرہ
اندوزی، ناپ و تول میں فرق، ناقص اشیاء کی فروخت سے بچتے ہیں۔شہرت، نام و
نمود، دکھاوے سے دور بھاگتے ہیں۔ نیکی کمانے اور مال بنانے والے بھی سامنے
آتے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز سمیت بازار میں چیزیں سستی ہونے کے بجائے مہنگی
بلکہ نایاب ہو جاتی ہیں۔یوٹیلٹی ٹورز والے رمضان شروع ہونے سے چند دن پہلے
قیمتیں 40گنا تک بڑھاکر بعد میں ان میں 20فیصد کمی کرتے ہیں۔ گراں فروش اور
ذخیرہ اندوز مصنوعی قلت سے پریشان کرتے ہیں۔ نیکی کے احسن جزا اور برائی کی
سزا بہرحال سب کو ملے گی۔ کورونا کے باوجود ماہ مقدس کے آتے ہی مسلمانوں
میں ایک منفرد جوش و جذبہ بیدار ہوتاہے۔ یہ جذبہ شعور کو بیدار ہی نہیں
پاکیزہ بھی کردیتا ہے۔روزہ صرف بھوک و پیاس کا نام نہیں بلکہ بھوکوں،پیاسوں
کی بھوک و پیاس کا احساس کرنے اور ان سے خیرات و صدقات اور فطرانہ کی صورت
میں تعاون کرنے کا نام ہے۔ ان کی عزت نفس بھی قائم رہے۔بھوک اور پیاس کیا
ہوتی ہے۔ یہ وہی جانتے ہیں جو اس سے گزرتے ہیں۔روزہ دار بلا شبہ روزہسے
تزکیۂ نفس کا درس حاصل کرتا ہے ۔ نفس کو تمام برائیوں سے پاک و صاف کرنے کا
سبق و مشق۔ روزہ صرف شکم کو تالا لگانے کا نام نہیں بلکہ یہ حواس خمسہ سمیت
دل و دماغ ہی نہیں روح کو پاکیزگی عطاکرتا ہے۔ آنکھ برائی کونہ دیکھے، کان
سے لوگوں کی غیبت نہ سنی جائے، رزق حرام یعنی جھوٹ، دھوکہ دہی، ذخیرہ
اندوزی ، ناجائز منافع خوری ، بد دیانتی، خیانت سے کمائے ہوئے مال سے
افطاری و سحری نہ ہو ، تو اس روزہ کا بہت فائدہ ہے۔ ہم کھیت، کارخانے،
دفاترمیں آرام کریں ، کام چوری اور ملازمت کا حق ادا نہ کریں تو روزہ ہمارے
کس کام آئے گا۔ایک دفتر میں کوئی لاکھوں روپے تنخواہ لے اور کوئی ہزاروں
روپے تو لاکھوں والے کو کام بھی زیادہ کرنا چاہیئے۔ اگر وہ زیادہ کام کرے
تو کسی پر احسان مندی نہیں۔ اگر کوئی بد کلامی کرے، تو کہہ سکتے ہیں، ’’میں
روزے سے ہوں‘‘۔ ایک ماہ کی تربیت و ٹریننگ سے ایک سال تربیت کے مثبت اثرات
سے گزر سکے۔ روزہ انسان کواپنے نفس پر قا بو پانے اور تمام غلطیوں سے بچنے
اور نیک اور اچھے کام کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تعمیر
سیرت ہے۔ انسان حرص و لالچ ، خواہشات سے بچ جاتا ہے۔ روح کو بھی تربیت ملتی
ہے۔ ذہنی و جسمانی نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔
ہمارے نبیﷺ کا فرمان ہے ’’جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ اور بد عملی سے نہیں
رکتا، اﷲ تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ آپﷺ نے ارشاد
فرمایا ہے ’’روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے ، روزہ دار کو
چاہئے وہ بد زبانی اور جہالت سے اجتناب کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا
گالیاں دے تو اسے دو مر تبہ کہے ، میں روزہ دار ہوں۔‘‘روزہ کے باعث چادر
تان کر سو جانا بھی روزہ کے فلسفہ کے منافی ہے۔ روزہ دارمعمولات زندگی ترک
نہیں کرتا۔ بلکہ ان کو درست کرتاہے۔ رہبانیت اسلام میں جائز نہیں۔ کانٹے
دار راستوں پر چلیں توخود کو ایسے سمیٹ کر نکل جائیں کہ کانٹے آپ کو نقصان
نہ پہنچا سکیں۔جو کہ تقویٰ کی مثال ہے۔برائی سے خود کو بچانے کی بہترین
مثال ۔ بھوک و پیاس اور موسمی سختی کو نظر انداز کرتے ہوئے چند سو مسلمانوں
نے روزے کی حالت میں بد رکے میدان میں حضرت محمد ﷺکی زیر قیادت ہزاروں کفار
کو شکست دی ۔ روزہ نے مسلمانوں کو صبر و استقامت، ایثار و قربانی، اتحاد و
یگانگت، باہمی اخوت و محبت ، مساوات، ضرورت مندوں سے حسن سلوک ، انفاق،
موثر منصوبہ بندی کی تربیت دی۔ ایک ماہ میں گیارہ ماہ کی تربیت۔ہم اپنے
دسترخوان پر غرباء اور مساکین اور محتاجوں کو افطاری کرائیں تو اﷲ مال میں
برکت دے گا۔ مال پاک ہو گا۔ یاد رہے اس سے کالا دھن سفید نہیں ہو سکتا۔غلط
طریقوں سے کمایاہوا مال غریبوں پر خرچ کرنے سے پاک نہیں ہوتاہے۔ برکت اور
پاکیزگی صرف حلال مال کے لئے ہے۔
روزہ صرف شکم کا نہیں بلکہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں ، دل ، دماغ غرض
جسم و جان کا ہے۔ انسان اپنے اعضاء کی بغاوت اور سرکشی کو کنٹرول کرتا ہے۔
وہ ایک گھر، خاندان، ادارے یا علاقے کی خدمت کی تربیت حاصل کرتا ہے۔ایسے
انسان سے کسی مشن یا فریضہ کی ادائیگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایمان و
احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنے کی تاکید ہے۔ یعنی خود احتسابی۔ لا
تعداد لوگوں کی زندگی ہی بدل جاتی ہے۔ روزے کی قبولیت کا اندازہ بھی اسی سے
ہوتا ہے کہ رمضان اور اس کے بعد میں ہم میں کیا تبدیلی رونما ہوئی۔اگر مثبت
تبدیلی آئی ہے۔ اگرہم نیکی کرنے لگے ہیں اور برائی ترک کر دی ہے۔یا اگر ہم
بھلائی کو بھلائی اور برائی کو برائی قرار دینے کے اہل بن چکے ہیں۔ تو سمجھ
لیں کہ ہم رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہو گئے، ہم کامیاب
ہوگئے ،ورنہ بھوک و پیاس کے سوا ہمارے ہاتھکیا آئے گا۔ اﷲ ہمارے اس تربیتی
پروگرام ، ہماری بھوک، پیاس، افطاری، سحری، تراویح، قیام، اور جملہ عبادات
کو قبول فرمائے۔ہمیں عبادات اور معاملات، بالخصوص حقو ق العباد کو درست
کرنے کی توفیق دے، زمینی اور آسمانی آفات اور وباؤں سے محفوظ رکھے۔عزیز و
اقارب میں ، ہمارے دائیں بائیں محتاج اور ضرورتمند ہوں گے۔ مسافر بھی توجہ
چاہتے ہیں۔حسب توفیق و استطاعت ان کی افطاری، سحری، ضروریات کا خیال رکھ کر
اﷲ پاک کی خوشنودی، نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں۔ قارئین کرام کو رمضان بہت
مبارک ہو۔ امید ہے ہمارے لئے یہ تربیتی سیشن دنیا و آخرت کے لئے نفع بخش
ثابت ہوگا۔
|