پلاسٹک کے غبارے میں رہنے والا انوکھا بچہ جو کبھی دنیا کو چھو نہ سکا، مگر اس کی موت نے دنیا کو کیسے بدل ڈالا جانیں

image
 
اللہ تعالیٰ کی بہت ساری نعمتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہمیں ان کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب کہ ہم کسی دوسرے کو ان نعمتوں سے محروم دیکھتے ہیں یا پھر خود کسی ایسے امتحان سے گزرتے ہیں-ایسی ہی نعمتوں میں سے ایک نعمت صحت مند اولاد کا ہونا ہے۔ اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی اولاد سے نوازہ ہے جو کہ صحت مند ہے اور کسی خطرناک بیماری یا کمزوری کا شکار نہیں ہے تو یقیناً آپ ایک خوش قسمت انسان ہیں-
 
ایسا جوڑا جن کے بچوں کی بیماری نے دنیا کو بدل ڈالا
امریکہ کی ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ایک شادی شدہ جوڑے کی زندگی اس حوالے سے کافی مشکلات کا شکار تھی کہ ان کے دو بچے پیدا ہونے کے چند ہی لمحوں کے بعد ایس سی آئی ڈی نامی بیماری کا شکار ہو کر مر گئے تھے- ان کی صرف ایک بیٹی زندہ تھی اور جب چوتھی بار اس جوڑے کو بچے کے پیدا ہونے کی امید پیدا ہوئی تو ڈاکٹروں نے ان کو وقت سے پہلے ہی آگاہ کر دیا کہ اس بچے کو بھی ایس سی آئی ڈی کے ہونے کے 50 فیصد امکان موجود ہیں-
 
یہ بیماری درحقیت قوت مدافعت کی کمزوری کی بیماری تھی- جس میں فضا میں موجود کسی بھی بیکٹیریا یا وائرس کے حملے کے سبب جسم اس کے خلاف مزاحمت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور موت کا شکار ہو جاتا ہے-
 
image
 
 تقریبا پچاس سال قبل پیدا ہونے والا حیرت انگیز بچہ
اس جوڑے کے گھر ستمبر 1971 میں جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام تو انہوں نے ڈيوڈ رکھا مگر یہ جوڑا اپنے بچے کو گود میں لے کر پیار بھی نہ کر سکا- کیونکہ ڈاکٹرز کے مطابق ڈیوڈ بھی اسی بیماری کا شکار تھا جس کی وجہ سے ان کے دو بچے پہلے ہی مر چکے تھے-
 
پلاسٹک کے غبارے میں بند بچہ
اس بیماری کے حوالے سے ماہرین ریسرچ کر رہے تھے اور ان کو امید تھی کہ وہ اس کا کوئی نہ کوئی علاج دریافت کر لیں گے- مگر اس وقت تک ڈیوڈ کو جراثيموں سے بچانا سب سے اہم کام تھا-اس وجہ سے ڈاکٹرز نے ڈیوڈ کو ایک ایسے پلاسٹک کے غبارے میں بند کر دیا جو کہ اچھی طرح سے اسٹرائل کر لیا گیا تھا یعنی اس کو جراثیم سے پاک کر لیا گیا تھا-
 
ٹیکساس ہاسپٹل میں ڈیوڈ کو اگلے پانچ سال تک ایک غبارے میں بند رہ کر زندگی گزارنی پڑی تاکہ وہ جراثیموں سے محفوظ رہ سکے- یہاں تک کہ کھانا، دودھ، ڈائپر غرض ہر چیز جو ڈيوڈ کو فراہم کی جاتی تھی اس کو پہلے اسٹرائل کیا جاتا اور اس کے بعد ڈیوڈ ان اشیا کو استعمال کرتا تھا-
 
ناسا کے انجینیرز کا ڈیوڈ کے لیے تحفہ
پلاسٹک کے غبارے میں زندگی گزارنے کا تصور عالمی حقوق کے اداروں کی نظر میں ایک بچے کی شخصی آزادی کے ساتھ ایک ظلم تھا- اس وجہ سے ناسا کے ماہرین نے تحقیقات کی روشنی میں ڈیوڈ کے لیے ایک خاص اسپیس سوٹ کی طرز کا لباس ڈیزائن کیا- جس کی قیمت پچاس ہزار ڈالر کے لگ بھگ تھی اور پھر سات سال بعد اس سوٹ کی وجہ سے ڈيوڈ کی ماں اس کو پہلی بار اپنے گلے لگانے کے قابل ہو سکی-
 
image
 
علاج کے نئے طریقے کی دریافت
ڈیوڈ کی عمر جب 12 سال کی ہوئی تو میڈیکل ماہرین اس بیماری کا علاج میں ایک بڑی پیش رفت کی اور ڈیوڈ کی بہن کیتھرین کے بون میرو کی مدد سے ڈیوڈ کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا گیا- مگر کیتھرین کے بون میرو میں موجود چھپے ہوئے ایک وائرس کی وجہ سے صرف چار مہینوں کے بعد ہی ڈیوڈ کی موت واقع ہو گئی-
 
ڈیوڈ کی موت نے دنیا بدل ڈالی
ڈيوڈ کی موت صرف ایک بچے کی موت نہ تھی کیونکہ اس کے مرنے کے بعد ٹیکساس ہاسپٹل میں ڈیوڈ کے نام سے ایک سنٹر قائم کیا گیا- جس کے بعد ایسی قانون سازی کی گئی کہ دوبارہ کوئی بچہ اس بیماری کے ساتھ دنیا میں نہ آسکے اور اس کو ڈیوڈ کی طرح غبارے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے-
 
image
YOU MAY ALSO LIKE: