عطاء الحق قاسمی: عصر حاضر کا حیوان ظریف

تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما مولوی بہاؤ الحق قاسمی کے فرزند عطاء الحق قاسمی 1943 کو متحدہ ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ آپ ایک وسیع النظر ادیب، فکاہیہ کالم نگار، بےباک صحافی، قادر الکلام شاعر اور صاحب طرز سفرنامہ نگار ہیں۔ وہ تھائی لینڈ اور ناروے میں سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے روزنامہ جنگ میں "روزن دیوار" کے نام سے کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ کٸی نثری تخلیقات یعنی ایک غیر ملکی سیاح کا سفرنامہ لاہور، شوق آوارگی، بازیچہ اعمال، گوروں کے دیس میں، ہنسنا رونا منع ہے، جرم ضعیفی, دلی دور است، ملاقاتیں ادھوری ہیں اور دنیا خوب صورت ہے وغیرہ سے اردو نثر کا دامن مالا مال کر کے ہمارے پژمردہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا بخوبی اہتمام بھی کیا ہے۔

عطاء الحق قاسمی کی متذکرہ نثری تخلیقات کو ان کے خاص طنزیہ اور مزاحیہ پیرایہ اظہار کی وجہ سے ادبی دنیا میں بے حد پزیرائی ملی ہے۔ وہ واقعات کے شگفتہ اندازِ بیان، اشعار کی نثری آمیزش اور لفظی ہیر پھیر سے اپنی تحریروں میں مزاحیہ فضا تخلیق کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعے ایک ماہر طبیب کی طرح سماج میں سرایت کی جانے والی سڑاند روایات، فرسودہ تصورات اور دیگر مہلک سماجی مسائل کی بروقت تشخیص کر کے ہلکے پھلکے انداز میں کڑوی گولی کو شہد میں لپیٹ کر نجات کا راستہ بھی بتاتے ہیں۔ یہاں قارئین کی دلچسپی اور کتب بینی سے انسیت پیدا کرنے کے لیے قاسمی صاحب کی چند نثری تصانیف کا اجمالی جائزہ سپردِ قلم کرنا چاہتا ہوں۔

شوق آوارگی: متذکرہ سفرنامہ طنز و مزاح کی چاشنی اور مغرب کے تہذیبی مطالعے سے بھرپور ہے۔ اس سفرنامے کا شمار عطاء الحق قاسمی کی اولین تحریروں میں ہوتا ہے۔ اس سفر نامے میں امریکہ، جرمنی، لکسمبرگ، نیدرلینڈز ،فرانس ترکی اور ایران کی سفری کہانیوں کے علاوہ وہاں کی تہذیب و تمدن، طرزِ معاشرت، نسلی امتیاز، طبقاتی اونچ نیچ، مغرب کا منتشر خاندانی نظام، روحانی قدروں کی پامالی، آخری حدوں کو چھوتی ہوئی مادیت پرستی اور جدید مشینی طرزِ عمل کی انتہائی خوبصورتی سے نقاب کشائی کی گٸی ہے۔ دوران سفر ستائیس سالہ خوبرو نوجوان کی گوری حسیناؤں سے مکالمے نہ صرف سفرنامے کا لطف دوبالا کر دیتا ہے بلکہ شوق آوارگی میں شامل تمام کردار، چاہے وہ سیاہ فاموں کی حمایت کرنے والا امریکی شاعر ڈان ہو یا نیدرلینڈ کی میریلن، فرانس کی زولا ہو یا جرمنی کا پرویز اور ترکی کا شراب کے نشے میں دھت محمت کینار ہو، سب اپنے اپنے خطوں کی تہذیبی و ثقافتی نمائندگی کرنے والے زندہ و تابندہ کردار ہیں۔ مذکورہ سفرنامہ مغرب کی ظاہری چکاچوند کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بجائے اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے جان ومال کی قربانی کے علاوہ گوری حسیناؤں کی سبز آنکھوں کی قربانی دینے کا درس بھی دیتا ہے۔

ایک غیر ملکی سیاح کا سفرنامہ لاہور: یہ ایک تصوراتی سفرنامہ ہے جس میں انھوں نے بالخصوص لاہور اور بالعموم پاکستانی ثقافت، سماجی روایات، دقیانوسی خیالات، بیہودہ رسومات، لباس، پوشاک، رہن سہن اور تہذیب و تمدن کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا ہے۔ دراصل یہ سفرنامہ ایک ایسا تہذیبی آئینہ ہے جس میں تہذیب سے عاری اور طرزِ کہن پہ اڑنے کا عادی انسان جب اپنی بدصورت شکل دیکھنے لگتا ہے تو اپنے دفتر عمل پر روز محشر کے بجائے دنیا ہی میں شرمسار ہو کر تہذیب کے دائرے میں فورا داخل ہونے کی کوشش کرتاہے۔ متذکرہ سفرنامہ تہذیب و تمدن کے بطن سے فاسد مادوں کے اخراج کے لیے جلاب مرکب سے بھی زیادہ نفع بخش اور مجرب نسخہ ہے۔

گوروں کے دیس میں: عطاء الحق قاسمی کا یہ سفرنامہ امجد اسلام امجد، حسن رضوی اور خالد احمد کی معیت میں گوروں کے دیس برطانیہ سمیت فرانس، ہالینڈ، جرمنی، ناروے اور سویڈن میں مختلف شعری نشستوں میں شمولیت کا سفری احوال ہے۔ مذکورہ سفرنامہ طنز و مزاح کی چاشنی سے مزین، ظریفانہ اسلوب، بذلہ سنجی اور شوخی گفتار کا عملی نمونہ ہے۔ اس سفر بیتی میں انھوں نے جہاں مغرب کی مادی ترقی، جفاکشی، فکری آزادی، قانون کی بالادستی اور معاشی ہمواری پر نہ صرف رشک کیا ہے بلکہ وہاں زرپرستی سے پیدا ہونے والی نفسا نفسی، خاندانی انتشار، روحانی اور اخلاقی اقدار کے فقدان پر تنقید کے نشتر بھی برسا ٸے ہیں۔ مصنف کے بقول مغرب میں ارزانی جنس نے نہ صرف باقاعدہ جنسی ہیضہ کی شکل اختیار کر لی ہے بلکہ عورتیں اپنی عصمت پلاسٹک کے کھلونوں کی طرح بیچ بھی دیتی ہیں۔ وہاں عورتیں نئے کپڑے خریدنے کے لیے پہنے ہوئے کپڑے اتار دیتی ہیں اور نائٹ کلبوں میں ہزاروں مردوں کی موجودگی میں خلوت کو جلوت بنا دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں، اس سفرنامے میں سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی وطن سے محبت، کلچر پر فخر، اسلامی اقدار سے لگاؤ اور شعر و شاعری سے شغف کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل اور موضوعات پر استدلالی اور عالمانہ گفتگو قاری کے لیے دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔

دھول دھپا: یہ عطاء الحق قاسمی کے فکاہیہ کالموں کا وہ شاندار مجموعہ ہے جو روزنِ دیوارِ کے نام سے مختلف اردو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ ان کالموں میں انھوں نے سماجی اور عصری سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی شعبدہ بازوں اور پاکستانی سیاست کے راز ہائے سربستہ کے بخیے بھی ادھیڑ کے رکھ دیے ہیں۔ انتخابات کے دوران جب سیاسی شعبدہ باز ڈھیلے ڈھالے قومی لباس پہن کے عوامی مقامات پر عوامی انداز میں نوالے نوش فرماتے ہیں تو اس مکاری کو عطاء الحق قاسمی نے ثقافتی بلیک میلنگ کا نام دیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس مجموعے کے پڑھنے سے یہ عقد بھی کھلتا ہے کہ پاکستان کے مسائل معرضِ وجود میں آنے سے اب تک بد قسمتی سے جوں کے توں ہیں اور پاکستان نازک موڑ سے گزر نہیں رہا بلکہ نازک موڑ پر مسلسل اس ملک نے اپنے ڈیرے جما لیے ہیں۔
 

Shams Ur Rahman Gharshin
About the Author: Shams Ur Rahman Gharshin Read More Articles by Shams Ur Rahman Gharshin: 4 Articles with 1894 views Lecturer at GBDC Pishin.. View More