انسانی جسم میں چھپی قدیم وائرس کی باقیات جن سے کینسر کا علاج ممکن٬ تہلکہ خیز انکشافات

image
 
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ قدیم وائرس کی ایسی باقیات جنھوں نے لاکھوں سال انسانی ڈی این اے کے اندر چھپ کر گزارے ہیں، انسانی جسم کو سرطان سے لڑنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
 
فرانس کرک انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ ان قدیم وائرس کی غیر فعال باقیات اس وقت متحرک ہو جاتی ہیں جب سرطان کے خلیے بے قابو ہو جاتے ہیں۔
 
غیر ارادی طور پر اس سے انسان کے جسم میں موجود مدافعتی نظام کو مخصوص سرطان کو ہدف بنانے اور اس پر حملہ آور ہونے میں مدد ملتی ہے۔
 
تحقیقی ٹیم اس دریافت کی مدد سے ایسی ویکسین تیار کرنا چاہتی ہے جس سے سرطان کا علاج ممکن ہو سکے یا پھر سرطان سے بچا جا سکے۔
 
محققین نے پھیپھڑوں کے سرطان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور مدافعتی نظام کے ایک مخصوص حصے کے درمیان ایک رابطہ بھی جانچا جسے بی سیل کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سیل سرطان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔
 
بی سیل انسانی جسم کا وہ حصہ ہوتے ہیں جہاں اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور ان کو کسی بھی انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے کردار کی وجہ سے جانا جاتا ہے جیسا کہ کورونا کی وبا۔
 
تاہم یہ بی سیل پھیپھڑوں کے سرطان سے متاثرہ خلیوں میں کیا کر رہے تھے، یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا۔
 
چند پیچیدہ تجربات کی مدد سے معلوم ہوا کہ وہ وائرس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
 
پروفیسر جولیئن ڈاون ورڈ فرانسس کرک انسٹیٹیوٹ میں ایسوسی ایٹ ریسرچ ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’معلوم ہوا کہ یہ اینٹی باڈیز غیر جسمانی ریٹرو وائرس کی باقیات کی نشان دہی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔‘
 
’ریٹرو وائرس چالاکی سے اپنی جینیاتی ہدایات کی ایک کاپی انسانی جسم میں چھوڑ دیتی ہیں۔ انسانی ڈی این اے کا آٹھ فیصد حصہ ایسی ہی وائرل اقسام پر مشتمل ہوتا ہے۔‘
 
image
 
ان میں سے چند ریٹرو وائرس کروڑوں سال قبل انسان کے جینیاتی کوڈ کا مستقل حصہ بن گئے تھے جبکہ چند شاید ہزاروں سال قبل انسانی ڈی این اے میں داخل ہوئے ہوں گے۔
 
ان بیرونی جینیاتی ہدایات میں سے چند وقت کے ساتھ انسانی خلیوں میں مددگار مقاصد کے لیے بھی کام آتی ہیں لیکن چند کو پھیلنے سے روکا جاتا ہے۔
 
تاہم کسی سرطان کے خلیے میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے جب یہ بےقابو ہو کر بڑھنا شروع کر دیتا ہے اور ایسے میں ان قدیم وائرس پر جسمانی کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔
 
یہ جینیاتی ہدایات مکمل وائرس تیار کرنے کی صلاحیت تو کھو چکی ہوتی ہیں تاہم یہ ایسے ٹکڑے بنا سکتی ہیں جن سے انسانی مدافعتی نظام وائرل خطرے کو بھانپ جاتا ہے۔
 
پروفیسر کیسیوٹس بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر میں ریٹرو وائرل امیونالوجی کے سربراہ ہیں۔
 
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’مدافعتی نظام یہ دھوکہ کھاتا ہے کہ سرطان کے خلیوں میں انفیکشن ہے اور یہ وائرس کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ایک طرح کا الارم ہے۔‘
 
اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کے دوسرے حصوں کو مدد کے لیے جگاتی ہیں جو انفیکشن سے متاثرہ خلیوں کو تباہ کرتے ہیں یعنی مدافعتی نظام ایک وائرس کو روکنے کی کوشش میں سرطان کے خلیوں کو نشانہ بناتا ہے۔
 
پروفیسر کیسیوٹس کہتے ہیں کہ ’ریٹرووائرس کا یہ نیا کردار ہے کیوں کہ ماضی میں شاید ان کی وجہ سے ہمارے آباواجداد میں سرطان پھیلا ہو گا جس کی وجہ سے ہی یہ ہمارے ڈی این اے کا حصہ بنے لیکن اب یہ ہمیں بچا رہے ہیں جو حیران کن ہے۔‘
 
جرنل نیچر میں چھپنے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام قدرتی طور پر ہوتا ہے لیکن اب محققین چاہتے ہیں کہ اس اثر کو ویکسین کی شکل میں استعمال کیا جائے تاکہ جسم کو بیرونی ریٹرو وائرس کی نشان دہی کرنا سکھایا جا سکے۔
 
پروفیسر کیسیوٹس کہتے ہیں کہ ’اگر ہم ایسا کر پائے تو پھر صرف علاج کرنے والی ویکسین ہی نہیں، سرطان کی بیماری سے بچانے والی ویکسین بھی ممکن ہو پائے گی۔‘
 
کینسر ریسرچ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کلیئر براون کا کہنا ہے کہ ’ہم سب کے جینیات میں قدیم ڈی این اے موجود ہے جو آباواجداد سے ہمارے پاس آیا اور اس حیران کن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈی این اے سرطان کے خلاف کیا کردار ادا کرتا ہے اور کیسے ہمارا مدافعتی نظام سرطان کے خلیوں کو پہچان اور تباہ کر سکتا ہے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’کینسر کی ویکسین تیار کرنے کے لیے مذید تحقیق درکار ہو گی لیکن اس نئی تحقیق کی مدد سے کیسز کا علاج ایک دن ممکن ہو سکے گا۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: