عید کے معنی ’بار بار لوٹ کر آنے والا دن‘ ہے۔ چونکہ خوشی
و مسرت کے یہ مواقع ہر سال آتے ہیں اس لئے انہیں عید کہا جاتا ہے
عید کا ذکر قرآن مجید کے حوالے سے
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo
(الکوثر، 108:2)
پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّ
ہے)
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا
مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا
وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَo
(المائدة، 5 : 114)
عیسٰی ابن مریم (علیہم السلام) نے عرض کیا: اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر
آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید
ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ
خوان) تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا کر! اور تو سب سے بہتر رزق
دینے والا ہے
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا
خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ
جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ
كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ o لَن يَنَالَ
اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ
كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ
وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ o
(الحج، 22: 36-37)
اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے
اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے پس تم
(انہیں) قطار میں کھڑا کرکے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اﷲ کا نام لو،
پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور
قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی)
کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤo
ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر
اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارے تابع کر
دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اﷲ کی تکبیر کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی
ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں
لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى
الْبَيْتِ الْعَتِيقِ o وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا
اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ
فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَo
(الحج، 22: 33-34)
تمہارے لیے ان (قربانی کے جانوروں) میں مقررہ مدت تک فوائد ہیںپھر انہیں
قدیم گھر (خانہ کعبہ) کی طرف (ذبح کے لیے) پہنچنا ہےo اور ہم نے ہر امت کے
لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں
عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی)
معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں
کو خوشخبری سنا دیں
آئیں اب احادیث خام النبیین صلی اللہ علیہ وآلپ وسلم کے حوالے سے عید کی
بابت جائزہ لیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ کے لیے دو دن کھیل کود کے لیے
مقرر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ یہ دو دن کیا (
اہمیت رکھتے) ہیں؟ صحابہ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اﷲ !) ہم ان دو دنوں میں
ایامِ جاہلیت میں کھیلتے کودتے(اور خوشی مناتے) تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ان کی جگہ ان سے بہتر دو دن. عید
الفطر اور عید الاضحی۔ مرحمت فرمائے ہیں۔
أبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب صلاة العيدين.نسائي في السنن، کتاب
صلاة العيدين,مسند أحمد ابن حنبل.المستدرک،حاکم
عطاسے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حضرت ابن
زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس (یہ پیغام دے کر) بھیجا۔ جب کہ ابھی ان کے لیے
بیعت لی جا رہی تھی۔ کہ عید الفطر کے لیے اذان نہیں کہی جاتی اور خطبہ نماز
کے بعد ہی ہوتاہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے بخاري ، کتاب الجمعة، باب المشي والرکوب إلی العيد
والصلاة قبل الخطبة بغير أذان وإقامة،
مسلم کتاب صلاة العيدين،
حضرت جابر بن سَمُرَہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی مرتبہ بغیر اَذان اور اِقامت کے نماز
عیدین پڑھی ہے۔
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے
حضرت جابر بن سَمُرَہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی مرتبہ بغیر اَذان اور اِقامت کے نماز
عیدین پڑھی ہے۔
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے
مسلم ، کتاب صلاة العيدين، باب العمل في غسل العيدين والنداء.أبوداود في
السنن، کتاب الصلاة، باب ترک الأذان في العيد.ترمذي ، کتاب الجمعة، باب ما
جاء أن صلاة العيدين بغير أذان ولا إقامة،
حضرت ابن عباس اور حضرت جابر بن عبد اﷲ سے مروی ہے کہ عید الفطر اور عید
الاضحی کے لیے اذان نہیں کہی جاتی۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے
بخاري ، کتاب الجمعة، باب المشي والرکوب إلی العيد والصلاة قبل الخطبة بغير
أذان ولا إقامة.مسلم ، کتاب صلاة العيدين،
ابو عبید مولیٰ بن ازہر کا بیان ہے: میں عید الاضحی کے روز حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید گاہ میں حاضر ہوا۔ پس انہوں نے خطبہ سے پہلے
نماز عید پڑھائی، پھر انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو!
بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں ان دونوں عیدوں کے روز
روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک تو تمہارے روزوں کی افطاری کا
دن ہے اور دوسرے روز تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو. ابو عبیدہ کا بیان
ہے کہ پھر میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نمازِ عید میں شامل
ہوا اور وہ روز جمعہ تھا، پس خطبہ سے پہلے نماز پڑھی۔ پھر انہوں نے خطبہ
دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! آج کے روز تمہارے لئے دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں،
لہٰذا باشندگانِ عوالی سے جو چاہے نماز جمعہ کا انتظار کرسکتا ہے، اور جو
واپس جانا چاہے تو اسے میں اجازت دیتا ہوں۔ ابو عبیدہ کا بیان ہے کہ پھر
میں حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز عید میں شامل ہوا تو
انہوں نے بھی خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی۔ اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے
روایت کیا ہے۔
بخاري ، کتاب الأضاحي، باب ما يؤکل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نمازِ عید میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان l کے ساتھ
حاضر ہوا۔ یہ سب خطبہ سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے
بخاري، أبواب العيدين، باب الخطبة بعد العيد.مسلم، کتاب صلاة العيدين، باب
العمل في غسل العيدين والنداء
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما خطبہ سے پہلے عیدین
کی نماز پڑھتے تھے۔
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے
مسلم ، کتاب صلاة العيدين، باب العمل في غسل العيدين والنداء
ترمذي، کتاب الجمعة، باب ما جاء أن صلاة العيدين بغير أذان ولا إقامة
نسائي، کتاب صلاة العيدين، باب صلاة العيدين قبل الخطبة
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع (18ء3 کلوگرام) کھجور یا ایک صاع جَو کی مقدار ہر
(صاحبِ استطاعت) غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر واجب
فرمایا اور اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کرنے کا حکم
فرمایا۔
اس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے
بخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب فرض صدقة الفطر.نسائي في السنن، کتاب
الزکاة، باب فرض زکاة رمضان علی المسلمين دون المعاهدين،
حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر یا صدقہ رمضان ہر مرد ، عورت،
آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو کی مقدار واجب فرمایا۔
لوگوں نے گندم کے نصف صاع کو اس کے برابر قرار دیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہما (صدقہ فطر میں )کھجوریں دیا کرتے۔ ایک دفعہ اہل مدینہ کھجوروں کے قحط
میں مبتلا ہو گئے تو جَو دیئے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہر چھوٹے
اور بڑے کی طرف سے (صدقہ فطر) دیا کرتے، یہاں تک کہ میرے (نافع کے) بیٹوں
کی طرف سے بھی اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان لوگوں کو دیتے جو قبول
کر لیا کرتے اور عید الفطر سے ایک دو روز پہلے ہی دے دیا کرتے تھے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے
بخاري ، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر علی الحر والمملوک،مسلم (مختصرا) في
الصحيح، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر علی المسلمين من التمر والشعير
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم کھانے میں سے ایک
صاع یا جَو میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع یا پنیر میں سے ایک
صاع یا کشمش میں سے ایک صاع صدقہ فطر کے طور پر نکالا کرتے تھے۔
متفق علیہ
بخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر صاع من طعام،مسلم ، کتاب
الزکاة، باب زکاة الفطر علی المسلمين من التمر والشعير، ترمذي ، کتاب
الزکاة عن رسول اﷲ، باب ما جاء في صدقة الفطر، نسائي کتاب الزکاة، باب
الزبيب.موطأامام مالک
پیر آف اوگالی شریف
|