اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
عزیزان من جب گھر میں کوئی بچہ اسکول جانے کی عمر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ کی یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ اسے کسی اچھے سے اچھے اسکول میں داخل کروایا جائے تا کہ اسے بنیادی تعلیم اچھی مل سکے لہذہ اس کے لئے اچھے انسٹیٹیوٹ اور اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کا ہونا لازمی ہے اگر اسے بنیادی تعلیم اچھی مل گئی تو آگے اپنے لئے صحیح یا غلط راستے کا تعین کرنے میں اسے خود آسانی ہوجائے گی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان ہی تعلیمی اداروں سے نکل کر اس دنیا میں ان میں سے کوئی انجینئر تو کوئی ڈاکٹر بن کر سامنے آتا ہے تو کوئی پائلیٹ بن کر یا سائنسدان بن کر ملک کی خدمات میں مصروف عمل ہوجاتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ سب تو اس عارضی دنیا کے حوالے سے کچھ باتیں تھیں لیکن فی زمانہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اللہ تبارک وتعالی کا قرب حاصل ہو اللہ تبارک وتعالی کے احکامات پر عمل پیرا یوکر اپنی زندگی کو گزارنا ہے اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو ہمیں اس کے لئے بھی نہ صرف کسی مستند دینی مدرسہ سے منسلک ہونا ہوگا یا کم از کم کسی نہ کسی اللہ والے کا ہاتھ تھامنا ہوگا کیوں کہ ہم اپنے اندر وہ روحانی طاقت نہیں رکھتے جو ایک اللہ والے کو حاصل ہوتی ہے اور وہ ہی اپنی اس طاقت کے ذریعے ہمیں اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اس کی پیروی کرنے کے صحیح راستے پر گامزن کرسکتے ہیں۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اللہ رب العزت والے لوگ کون ہیں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اولیاء کرام یا اللہ والے لوگ کون ہیں تو آپ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہیں دیکھکر اللہ عزوجل کی یاد آجائے یعنی دل ذکر اللہ کرنے لگے(سنن کبری للسنائی ج10 صفحہ 124 حدیث 11171 )۔ حضرت سیدنا شرف الدین حسینی طیبی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کے یہ وہ خاص لوگ ہوتے ہیں جن کی زیارت کرنے سے اللہ رب العزت یاد آجائے کیوں کہ ان کے اندر اللہ تبارک وتعالی کی عبادت کی علامات پائی جاتی ہیں اور ان کو دیکھکر دل خودبخود اللہ رب الکائنات کا ذکر کرنے لگتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ والے لوگ یعنی اللہ رب العزت کے خاص بندوں کا یہ سلسلہ انبیاء کرام سے لیکر بزرگان دین تک چلتا رہا اور ہمارے درمیان اب بھی کئی اللہ تبارک وتعالی کے خاص اور محبوب بندے یا ولی صفت انسان موجود ہیں بس ڈھونڈنے پرکھنے اور ان سے فیض حاصل کرنے والی آنکھیں اور دل ہونا چاہیئے اور یہ لوگ اللہ تبارک وتعالی کی عطا سے قیامت تک اتے اور جاتے رہیں گے اور اپنے فیوض و برکات کی بہاریں یوں ہی لٹاتے رہیں گے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب سوال یہ ہے کہ یہ اللہ والے لوگ ہم جیسے دنیا دار لوگوں کو اللہ رب العزت سے کیسے ملواتے ہیں اور کس طرح ہمارا دل اللہ تبارک وتعالی کی طرف مائل ہوتا ہے کم وبیش 1980 کے لگ بھگ کا واقعہ ہے کہ ایک اللہ رب الکائنات کے خاص اور مقرب بندے حضرت عبد الحی علیہ الرحمہ جو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں رہائش پزیر تھے لوگ بڑی دور دور سے آپ سے فیوض وبرکات حاصل کرنے کے لئے آتے تھے اور بہت کچھ حاصل کرکے جاتے تھے ایک پڑھا لکھا دنیاوی نوجوان جو خوبصورت خدوخال کا مالک تو تھا ہی لیکن اس کا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا جس نے اس کی خوبصورتی میں کمی کی ہوئی تھی وہ اپنے ڈیوٹی سے روزانہ آپ علیہ الرحمہ کے استانے کے سامنے سے گزرتا اور وہاں پر موجود لوگوں کے جم غفیر کو دیکھتا اور سوچتا کہ آخر یہ لوگ یہاں کیوں آتے ہیں اور یہاں پر موجود اللہ تبارک وتعالی کا ولی صفت بندہ انہیں کیا دیتا ہوگا ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں وہ نوجوان ویسے تو دنیاوی اعتبار سے ایک پڑھا لکھا سوٹ اور ٹائی لگائی ہوئی اور اپنی ایک بڑی سی گاڑی میں گھومتا نظر آتا تھا لیکن دین سے دوری اور اسلام کی معلومات کے معاملے کے اعتبار سے وہ بلکل جاہل تھا لیکن میرے یاروں جب میرا رب کسی سے اپنے دین کا کام لینا چاہتا ہو اسے اپنی راہ پر لانا چاہتا ہو تو وہ اس کے لئے انگلی پکڑنے والا بھی وسیلے کے طور پر پیدا فرمادیتا ہے ایک دن اس نوجوان کو بھی یہ خیال آیا کہ میں بھی جاکر دیکھوں کہ وہاں کیا ملتا ہے گویا ایک دن ڈیوٹی سے واپسی پر وہ حضرت عبدالحی علیہ الرحمہ کے استانے پہنچ گیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں نہایت اچھی پینٹ شرٹ خوبصورت جوتے شاندار قسم کی ٹائی پہنے ہوئے اپنی گاڑی میں ڈرائور سمیت جب وہ حضرت عبدآلحی علیہ الرحمہ کے سامنے آیا تو اس کے پاس کہنے اور پوچھنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اس نے آپ علیہ الرحمہ کو دیکھا کچھ دیر کھڑا رہا اور چلا گیا کچھ عرصہ کے بعد وہ پھر حاضر ہوا حضرت کی زیارت کی اور چلاگیا لیکن جب تیسری مرتبہ حاضر ہوا اور واپس جانے لگا تو آپ علیہ الرحمہ نے اسے اپنے پاس بلوایا جب وہ آپ علیہ الرحمہ کے سامنے آکر بیٹھا تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ تم ماشاء اللہ خوبصورت ہو اسمارٹ ہو لیکن اپنی دنیاوی معاملات میں اتنے مصروف ہو کہ اپنا ایک ٹوٹا ہوا دانت بھی لگوانے کا ٹائم نہیں ہے تمہارے پاس ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ کی بات نے اس نوجوان کے دل پر گہرا اثر کیا اور اس نے عرض کیا کہ میں آپ علیہ الرحمہ کو اب اپنی شکل اس وقت دکھائوں گا جب دانت نہ لگالوں یہ کہکر اس نے ڈرائیور کو لاہور کی طرف چلنے کے لئے کہا کیوں کہ ان دنوں سیالکوٹ میں کوئی دانت کا اچھا ڈاکٹر نہیں تھا گویا اس نے کچھ دن لاہور میں قیام کیا اور نیا دانت لگواکر گھر جانے کی بجائے سیدھا حضرت عبدالحی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا اور عرض کیا کہ دیکھیئے اب تو میں صحیح لگرہا ہوں ؟ تو آپ علیہ الرحمہ اس کی بات سن کر مسکرائے اور فرمایا ہاں اب تم زیادہ خوبصورت لگرہے ہو ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس نوجون نے عرض کیا کہ حضرت ماشاءاللہ ڈاکٹر بہت اچھا تھا اس نے مجھ سے ایک ہزار روپے چارج کئے لیکن بڑی صفائی اور نفاست کے ساتھ اس نے میرا یہ دانت لگایا ہے ڈاکٹر کی تعریف سن کر آپ علیہ الرحمہ نے اس نوجوان سے فرمایا کہ جس ہستی نے یعنی ڈاکٹر نے تم سے ایک ہزار چارج کرکے تمہیں نیا دانت لگادیا تو تم نے اس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کردیئے لیکن یہ بتائو کہ جس ہستی نے یعنی اللہ تبارک وتعالی کی ذات اقدس نے بغیر کچھ لئے تمہارے منہ میں پوری بتیسی لگائی ہے کبھی اس کی تعریف میں کچھ کہا کبھی تعریف کے دو بول اس رب کے لئے تم نے ادا کئے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اس باری تعالی نے تمہیں صرف ان دانتوں کی نعمت سے ہی نہیں نوازا بلکہ کام کرنے کے لئے دو ہاتھ چلنے کے لئے دو پائوں بات کرنے کے منہ اور منہ میں زبان جیسی نعمتوں سے بھی نوازا کبھی اس کو دل سے یاد کیا ہے آپ علیہ الرحمہ کی بات اس نوجوان کے دل و دماغ پر اتنی گہرائی میں جاکر لگی کہ وہ رونے لگا زاروقطار روتے ہوئے وہاں سے اٹھا اور چلا گیا لیکن اب اس دل کی کیفیت بدل چکی تھی اسے دنیا سے جیسے نفرت سی ہوگئی ایک ولی کامل اور اللہ تبارک وتعالی کے خاص بندے کا ہاتھ تھامنے دامن پکڑنے اور زیارت کرنے کے سبب وہ اللہ تبارک وتعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہوگیا ایک دنیادار انسان دیندار ہوگیا کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس پرفتن دور میں بھی اللہ تبارک و تعالی کے محبوب اور خاص بندے ہمارے درمیان موجود ہیں صرف دیکھنے والی آنکھیں اور پرکھنے والا دل ہونا چاہیئے تاریخ اسلام کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ایسے کئی ولی اللہ اور اولیاء کرام کا ذکر ملتا ہے جن کے فیوض وبرکات سے کتنے غیر مسلم اور غیر مذہب لوگ بھی فیض پاکر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اور یہ سلسلہ قیامت جاری و ساری رہے گا کیوں کہ اللہ اللہ کرنے سے اللہ ملتا نہیں
اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 166 Articles with 133912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.