اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے
وسط تک بھارت 30 لاکھ مزید افراد کے ساتھ چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ مبصرین
کا ماننا ہے کہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہونے کا اعزاز بھارت کے
لیے "ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ" کے امید افزا امکانات کے ساتھ سامنے آیا ہے، لیکن
بھارت کے سامنے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھانے کے لیے بہت سے سوالات
ہیں۔اقوام متحدہ کی "اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن رپورٹ2023" کے ڈیموگرافک اعداد
و شمار کے مطابق، بھارت کی آبادی رواں سال کے وسط میں چین کی 1.4257 بلین
کے مقابلے میں 1.4286 بلین تک پہنچ جائے گی۔تاہم ، یہاں اس حقیقت کا ادراک
لازم ہے کہ کسی بھی ملک کا ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ اس کی کل آبادی اور اس کے
معیار پر منحصر ہوتا ہے۔
چین کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کسی ملک کی آبادی اور اس کے آبادیاتی
فوائد کے درمیان گہرا تعلق ہوتا ہے جس کی آسان الفاظ میں یوں وضاحت کی جا
سکتی کہ چین کی آبادی 1.4 بلین سے زیادہ ہے جس میں تقریباً 900 ملین محنت
کش یا ورکنگ ایج والی آبادی ہے، اور ہر سال 15 ملین سے زیادہ نئے محنت کشوں
کا اضافہ ہوتا ہے. مزید اہم بات یہ ہے کہ چین میں 240 ملین سے زیادہ افراد
نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، اور نئی لیبر فورس میں تعلیم کے سالوں کی اوسط
مدت 14 سال تک پہنچ گئی ہے ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ چین میں ورکنگ ایج پڑھی
لکھی ہے اور زمانے کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتی ہے.اس کے ساتھ ہی چین نے عمر
رسیدہ آبادی کا جواب دینے کی قومی حکمت عملی پر عمل درآمد کیا ہے اور تین
بچوں کی پالیسی اور معاون اقدامات کو فروغ دیا ہے، آبادی کی ترقی اور
تبدیلیوں کا فعال طور پر جواب دیا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ چین کا ڈیموگرافک
ڈیویڈنڈ کہیں غائب نہیں ہوا ہے بلکہ اس کا "ٹیلنٹ ڈیویڈنڈ" شکل اختیار کر
رہا ہے اور اس کی ترقی کی رفتار مضبوط ہے۔چین کی کوشش ہے کہ بہبود آبادی کو
معاشی اور سماجی پالیسیوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے اورشادی کی
عمر کو پہنچنے والے نوجوانوں میں شادی اور خاندانی اقدار کو فروغ دینے کے
لئے تعلیم اور رہنمائی فراہم کی جائے۔آبادی کی فلاح کے لیے بہتر جامع نظام
وضع کیا جائے ، منصفانہ نظام تعلیم کو یقینی بنایا جائے ،بہتر طبی سہولیات
کی ضمانت دی جائے، معیاری تعلیمی وسائل تک رسائی کے ساتھ ساتھ تعلیمی
اخراجات میں کمی کے لیے کوشش کی جائے۔
اسی طرح چین میں بچوں کی صحت و تندرستی کو یقینی بنانے کے لیے جامع اقدامات
کا آغاز بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔قابل زکر بات یہ بھی ہے کہ
عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد گزشتہ سات دہائیوں میں حاملہ خواتین اور
نوزائیدہ بچوں کی شرح موت میں 97 فیصد سے زائد کمی آئی ہے ، جو ترقی پزید
ممالک میں سرفہرست ہے۔بچوں کی پیدائش کے بعد حکومت کی جانب سے ویکشی نیشن
کی مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تاکہ بچوں کو عام متعدی امراض سےبچایا
جاسکے۔صحت کے علاوہ بچوں کی تعلیم و تربیت کو بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
چین میں چاہے شہر ہوں یا دیہی علاقے ، پرائمری اسکول سے مڈل اسکول تک نو
سالہ لازمی تعلیم تمام بچوں کے لیے مفت ہے۔ اسکولوں میں ان کی بہتر تربیت
کے لیے سائنس، فنون ، کھیل سمیت مختلف شعبوں میں دلچسپ سرگرمیاں منعقد کی
جاتی ہیں تاکہ بچوں کی ذہن سازی اور کردار سازی کی جا سکے۔حالیہ برسوں کے
دوران چینی صدر شی جن پھنگ نے کئی مواقع پر بچوں کے لیے بہتر سہولیات کی
فراہمی پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی بہتر نشو و نما اور
بڑھوتری ، ہماری سب سے بڑی خواہش ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں بہبود آبادی کو
آج کے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے لازمی اقدامات اپنائے جا رہے
ہیں۔
ماہرین کے نزدیک آبادیاتی تبدیلیاں معاشی اور سماجی نظام کے لیے مخصوص
چیلنجز لاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئے ڈیموگرافک مواقع بھی فراہم کرتی
ہیں۔چین کی آبادی کا حجم اب بھی بہت بڑا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ ملک اپنی
بڑی مارکیٹ کو برقرار رکھے گا ، اور ملک کی مستقل معاشی ترقی ، بڑھتی ہوئی
آمدنی کی سطح اور مضبوط کھپت کی صلاحیت سے لائی گئی مارکیٹ لامحدود
ہوگی۔مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت کے لئے آبادی کی ممکنہ چیمپیئن شپ قلیل
مدتی تناظر میں فوائد سے زیادہ دباؤ کا موجب ہو گی۔ بھارت کا بنیادی
ڈھانچہ، قانونی نظام،صحت، تعلیم اور دیگر پیرامیٹرز اس کی آبادی میں اضافے
کا مقابلہ نہیں کر سکتے، جس کا مطلب ہے کہ بھارت میں اب بھی آبادیاتی فوائد
حاصل کرنے کے لیے پیشگی شرائط کا فقدان ہے۔ہر سال لاکھوں نئے روزگار کی
مانگ کو مناسب طریقے سے کیسے پورا کیا جائے، یہ بھارتی حکومت کے لئے ایک
بہت بڑا چیلنج ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کا نتیجہ آسانی سے معاشرے میں
کمزور عنصر کی صورت میں نکل سکتا ہے۔اس صورتحال میں بھارت کیسے صحیح معنوں
میں آبادیاتی فوائد حاصل کرسکتا ہے یہ مستقبل کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے
راستے اور طریقہ کار پر منحصر ہے۔دوسری جانب چین کے "ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ" کو
دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بہبود آبادی کی "معیاری پالیسی" کی بدولت
ایک تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرادی قوت سامنے آئے گی جو عہد حاضر میں کسی
بھی ملک کی ترقی کی بنیاد ہے ۔
|