’شوال کا چاند نظر نہیں آیا، عید ہفتے کو ہوگی‘٬ چاند سے متعلق لیکڈ ویڈیو کی اصل حقیقت پر مفتی اعظم کا بیان اور کشمیر تنازع

image
 
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رمضان اور عید کا چاند دہائیوں سے حکومت اور عوام کے بیچ کشمکش کا باعث رہا ہے۔ لیکن رواں برس چاند نظر آنے یا نہ آنے سے متعلق کشمیر کے ’مفتی اعظم‘ ناصر الاسلام کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہونے کے بعد اس تنازع نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔
 
کشمیر میں بدھ کو وائرل ہونے والی ویڈیو میں مفتی اعظم اعلان کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ’شوال کا چاند نظر نہیں آیا لہذا عید ہفتے کے روز ہو گی۔‘
 
28 رمضان کو ہی چاند نظر نہ آنے کے اس اعلان پر عوامی حلقوں نے سرکاری سرپرستی والے مفتی ناصر الدین پر شدید تنقید کی ہے۔
 
مفتی ناصرالدین نے فوراً ہی ایک وضاحتی بیان جاری کر دیا مگر اسے سوشل میڈیا پر چاند کے پیشگی اعلان سے بھی زیادہ مضحکہ خیز قرار دیا گیا۔ مفتی اعظم نے کہا کہ ’یہ ایک پُرانی روایت ہے۔ کچھ دن پہلے ہی چاند نظر آنے اور نظر نہ آنے سے متعلق دو الگ الگ بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں تاکہ آخری لمحے پر لوگوں کو مطلع کرنے میں تاخیر نہ ہو۔‘
 
انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ سرکاری ٹیلی ویژن کی ایک ٹیم اُن کا بیان ریکارڈ کرنے آئی تھی اور ’کسی شرپسند نے سوشل میڈیا پر صرف ایک ورژن اپ لوڈ کیا ہے۔‘ مفتی اعظم نے کشمیر پولیس کی سائبز سیل میں باقاعدہ شکایت درج کروائی ہے اور کہا ہے کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ شرارت کس کی ہے۔‘
 
رمضان کے چاند سے متعلق بھی تنازع ہوا تھا؟
 
image
 
گذشتہ ماہ سرکاری طور تعینات کیے گئے ’مفتی اعظم‘ ناصرالدین نے اعلان کیا کہ انھیں رمضان کا چاند نظر نہیں آیا اس لیے رمضان کا پہلا روزہ جمعہ یعنی 24 مارچ کو ہو گا۔ لیکن چند گھنٹوں بعد جب پاکستانی رویت ہلال کمیٹی نے چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا تو نصف شب کشمیر کے لوگ تراویح کی نماز کے لیے جانے لگے اور گھروں میں دیر رات تک سحری کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔
 
پورے جموں کشمیر میں رمضان کی شروعات تو جمعرات کو ہی ہوئی، لیکن اسی روز مزاروں اور خانقاہوں کی نگرانی کرنے والے ’وقف بورڈ‘ کی سربراہ درخشاں اندرابی نے اعلان کیا کہ وہ جموں کشمیر کے لیے ایک ’آزاد‘ رویتِ ہلال کمیٹی کو تشکیل دیں گی اور اس کے لیے ہر خطے اور ہر فرقے کے نمائندہ علما کے ساتھ ساتھ فلکیات اور موسمیات کے ماہرین بھی ہوں گے۔
 
چند حلقوں نے الزام عائد کیا کہ کشمیری مفتی اعظم کی جلدبازی دراصل کشمیریوں کو پاکستان کے اعلان پر عید کرنے سے روکنا ہے۔ تاہم مذہبی امور کے عالم اور موٴرخین کہتے ہیں کہ اس معاملے کو خواہ مخواہ سیاست زدہ کر دیا گیا۔
 
کشمیری عید پاکستان کے ساتھ کیوں مناتے ہیں؟
موٴرخین کا کہنا ہے کہ برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد سے ہی انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں لوگوں نے رمضان اور عید کے چاند سے متعلق پاکستان کی ہی تقلید کی ہے۔
 
معروف موٴرخ اور محقق ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کشمیر پاکستانی جغرافیائی خطے کے بہت قریب ہے۔ اس بارے میں علما یہ کہہ چکے ہیں کہ کسی خطے میں چاند دیکھنے کے لیے قریبی اور مناسب مطلع کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ پاکستانی خطہ ہمارے یہاں چاند کا مطلع رہا ہے۔ لہذا یہ کشمیریوں کا کسی ایک ملک کو دوسرے پر ترجیح دینے کا مسئلہ نہیں، یہ خالص مذہبی اور شرعی مسئلہ ہے، اس میں کسی کو چِڑ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
 
اُن کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا جیسے بڑے ملک کے سبھی خطوں میں رویت ہلال کے معاملے پر اکثر تنازع ہوتا ہے، کیونکہ ’رویت ہلال کا مسئلہ تاریخ یا سیاست نہیں بلکہ جغرافیہ اور آسمانی نظام کا مسئلہ ہے۔‘
 
’ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ جنوبی ہند میں کبھی کبھی ایک دن پہلے یا ایک دن بعد عید منائی جاتی ہے۔ ہم جغرافیہ یا فلکیات کے مسئلے کو سیاست کے زاویے سے نہیں دیکھ سکتے۔‘
 
قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر پورے بھارت میں واحد خطہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ حکومت نے 1964 میں مختلف مذہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کے لیے ’دارالافتاہ‘ نامی ادارہ قائم کیا اور اس کے ناظم کے طور پر ایک عالم دین کو تعینات کیا جسے ’مفتی اعظم‘ کہا جاتا تھا۔
 
ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ یہ ادارہ دیگر مذہبی نزاعات کے بارے میں متحرک تو رہا لیکن رمضان اور عید کے چاند سے متعلق لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کی تقلید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ اُس زمانے میں یہاں کے مشہور اخبار سرینگر ٹائمز میں کارٹون چھپتا تھا، جس میں دکھایا جاتا کہ مفتی اعظم کو ایک کان پر سرکاری نشریاتی ادارہ ریڈیو کشمیر ہے اور دوسرے کان پر ریڈیو پاکستان، جونہی پاکستان ریڈیو سے اعلان ہوتا تو وہ فوراً ریڈیو کشمیر پر کہتے کہ چاند نظر آ گیا ہے۔‘
 
اس تنازعے کی وجہ سے کشمیر میں دہائیوں سے رمضان اور عید سے قبل تناؤ کی صورتحال ہوتی ہے۔ ظریف کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کشمیر میں تین تین عیدیں ہوئیں، کیونکہ کسی فرقے نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ جبکہ باقی سب پاکستانی رویت ہلال پر یقین کر رہے تھے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: