آپ نے لوگوں کا دل توڑا اسی لیے آپ کا راکٹ گر گیا٬ عمران خان اور مریم نواز سے بلاول بھٹو تک سب کے ٹوئٹر بلیو ٹِک غائب

image
 
بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارہ بیونسے اور مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس میں آج کے روز مشترک کیا ہے؟
 
مشترک یہ ہے کہ آج سے ٹوئٹر پر ان دونوں شخصیات کے اکاؤنٹ تصدیق شدہ نہیں ہیں۔
 
ٹوئٹر نے جمعرات کو ہزاروں اکاؤنٹس سے لیگیسی ویریفائیڈ بلیو ٹِک ہٹانا شروع کر دیے ہیں۔
 
یہ اقدام کمپنی کے نئے مالک ایلون مسک کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایلون ٹوئٹر کو منافع بخش بنانا چاہتے ہیں۔
 
آج سے جو صارفین اپنے نام کے ساتھ بلیو ٹک برقرار رکھنا چاہتے ہیں انھیں ٹوئٹر بلیو کو سبسکرائب کرنے کے لیے سالانہ 84 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔
 
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ نواز کی چیف آرگنائزر مریم نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے اکاؤنٹس سے بھی بلیو ٹک ہٹا دیا گیا ہے۔
 
جیسے ہی یہ تبدیلی ہوئی، اس کے بارے میں اپنے تاثرات شیئر کرنے کے لیے پہلے سے تصدیق شدہ بہت سے اکاؤنٹس نے ٹوئٹر کا ہی رُخ کیا۔
 
 
عرفان جمیل ڈوگر نے پاکستانی سیاستدانوں کے اکاؤنٹس کا سکرین شاٹ شئیر کرتے لکھا کہ ’ہمارے غریبوں سمیت امیروں کے بھی بلیو ٹک ختم کر دیے گئے، مہنگائی کے اس دور میں اگر اتنے بڑے بڑے لیڈر پیسے نہیں دے سکتے تو ہم کہاں سے دیں۔‘
 
عمیر سالار کہتے ہیں ’شہباز شریف کا بلیو ٹک رہا ہے اور عمران کا چلا گیا ہے۔ عدالت نے ایلون مسک کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔‘
 
صحافی وسیم عباسی نے لکھا ’ایلون مسک آپ کے بغیر دنیا کتنی حسین تھی۔۔۔ سنہ 2014 سے ویریفائیڈ اکاؤنٹ کا بلیو ٹِک آج مسک کو پیارا ہو گیا۔۔ ہر شے فانی ہے۔‘
 
ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے لکھا ’انسان بلیو ٹک سے نہیں اپنے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے۔‘
 
نایاب علی لکھتی ہیں ’کوئی 11 ڈالر عیدی دے دے میں نے ایلون مسک کو دینے ہیں بلیو ٹک کے۔ ہائے میرا بلیو ٹک۔‘
 
ایک اور صارف نے لکھا ’فائنلی ہم سب کے بلیو ٹک چلے گئے۔۔۔ آج ٹائم لائن بہت اچھی لگ رہی۔۔ شکریہ ایلون پا جی۔ یاد رکھیں اب آپ کو جو بھی بلیو ٹک نظر آئے گا وہ خریدا ہوا ہے جس کی کوئی ویلیو نہیں۔‘
 
احمد بلال محبوب نے لکھا ’میں نے آج بلیو ٹک کے ختم ہو جانے پر اتنے میسیج دیکھے ہیں کہ ایک اچھی خاصی ’انجمنِ متاثرینِ تنسیخِ بلیو ٹک‘ بن سکتی ہے!‘
 
کچھ افراد نے ان کے سپیس ایکس سٹارشپ کی تباہی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بلیُو ٹِک والوں کی بددعائیں ایلون مسلک کو لے بیٹھیں‘
 
 
ایک طرف بلیو ٹک جانے والوں کا دکھ ہے تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے پاس یا تو کبھی بلیو ٹک تھا ہی نہیں اور ان کی خوشی دیکھنے لائق ہے۔
 
ایسے ہی ایک صارف نے لکھا ’بلیو ٹک والوں کو بغیر ’ٹک‘ کے دیکھ کر عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔‘
 
image
 
یاد رہے کہ ٹوئٹر نے سب سے پہلے تصدیقی فیچر 2009 میں متعارف کروایا تھا، جب ایک سابق پیشہ ور بیس بال کھلاڑی نے ان کے نام سے چلنے والے جعلی اکاؤنٹس کے باعث ٹوئٹر انتظامیہ پر مقدمہ دائر کیا تھا۔
 
اور پھر یہ بلیو ٹک سٹیٹس سمبل اور اتھارٹی کی علامت بن گیا۔ لیکن ٹوئٹر کو اربوں ڈالر کے عوض خریدنے کے بعد اب ایلون مسک چاہتے ہیں کہ صارفین اس تصدیق کے لیے ادائیگی کریں۔
 
انھوں نے لکھا کہ ’تصدیق کو مونیٹائز کرنے کا فیصلہ پلیٹ فارم پر بڑے پیمانے پر ثقافتی اور طاقت کی تبدیلی کا آغاز کر سکتا ہے۔‘
 
تاہم بلیو ٹک ہٹنے کے بعد چند مسائل بھی سامنے آئے ہیں۔
 
توثیقی بلیو ٹک کھونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہیلری کلنٹن کا روپ دھارے ایک اکاؤنٹ نے اعلان کیا کہ وہ دوبارہ صدارت کے لیے انتخاب لڑیں گی۔
 
اب ٹوئٹر کی نئی تصدیقی سکیم کے تحت، گولڈ، سرمئی اور نیلے رنگ کے بیجز کا مقصد اکاؤنٹ کی تصدیق کے طریقے سے متعلق مزید معلومات فراہم کرنا ہے۔
 
ٹوئٹر کی ویریفیکیشن ٹیم کے سابقہ رکن نے شناخت ظاہر کیے بغیر بی بی سی کو بتایا کہ ’ہماری ٹیم کی پہلی ترجیح صارفین کو نقصانات سے بچانا تھا مگر یہ اقدام اس سے الٹ ہے۔‘
 
’اب ویریفائیڈ صارف اپنا اختیار اور اثر و رسوخ استعمال کر کے غلط معلومات پھیلا سکتے ہیں جس سے دنیا بھر کے صارف خطرے کی زد میں آئیں گے۔ یہ خاموش خطرہ ہے جسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔‘
 
نومبر میں ٹوئٹر بلیو نامی سکیم کو افراتفری میں متعارف کروایا گیا تھا اور بعض لوگوں نے پیسے دے کر بلیو ٹک حاصل کیا اور بڑے برانڈ اور معروف شخصیات کی نقالی کی تاکہ وہ اصل نظر آئیں۔ بعض لوگوں نے ایلون مسک بن کر بھی دنیا کو دھوکہ دیا۔
 
پھر ٹوئٹر نے ایک ہفتے سے کم وقت میں یہ فیچر معطل کر دیا اور اگلے ماہ اسے دوبارہ متعارف کرایا گیا۔
 
ٹوئٹر بلیو کو اب متنازع گروہ بھی استعمال کرتے ہیں، جیسے افغانستان میں طالبان حکام اور ان کے حمایتی۔
 
ویریفائیڈ صارفین کے ٹویٹ کو دوسرے صارفین کے مقابلے میں فوقیت ملتی ہے، یعنی ان کا پیغام زیادہ لوگوں تک پہنچتا ہے۔ ان مصدقہ صارفین کو اضافی فیچر تک رسائی بھی ملتی ہے، جیسے ایڈٹ بٹن۔
 
سوشل میڈیا مانیٹر اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ ادائیگی کے ذریعے تصدیق میں اضافہ سائٹ پر غلط معلومات کو بڑھانے کا باعث بنے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اشتہاری کمپنیاں ٹوئٹر پر اشتہار دینے سے کترائیں گی اور ٹوئٹر کو تصدیقی رکنیت کے ماڈل سے ملنے والی اضافی آمدنی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
 
’ٹوئٹر کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک موڑ‘
 
image
 
جب مسک نے ٹوئٹر کا انتظام سنبھالا تو وہ ’آزاد تقریر‘ کو واپس لانے کے بارے میں بلند عزائم سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پلیٹ فارم ’زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد‘ ہو اور یہ ’پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
 
مگر اب ٹوئٹر کی پالیسی ان خیالات سے مختلف نظر آتی ہے۔
 
یہ سمجھتے ہوئے کہ اشتہارات کی آمدن میں اضافہ کرنا مشکل ہے، مسک نے سبسکرپشن پر مبنی ماڈل کا رُخ کیا۔
 
ابتدائی طور پر فروخت کا مقصد صارفین کو اگر وہ ماہانہ فیس ادا کرتے ہیں تو ’بلیو ٹک‘ کی تصدیق دینا تھا۔
 
لیکن ادائیگی کرنے والے صارفین کی تعداد فوراً اتنی زیادہ نہیں ہوئی تھی۔ اشتہارات کی آمدن میں کمی اور سبسکرپشن ماڈل میں کوتاہیوں کے بعد مسک نے نیا راستہ چُنا۔
 
ٹویٹر پر دو الگورتھم ہیں - تجویز کردہ ٹویٹس یعنی ’فار یو‘ یا وہ صارفین جنھیں آپ فالو کرتے ہیں۔
 
ایلون مسک کی نئی پالیسی سے ادائیگی نہ کرنے والے صارفین متاثر ہوں گے۔
 
اس کا مطلب ہے کہ غیر مصدقہ ٹوئٹر صارفین کے پیغامات پر ری ٹویٹ اور لائیک کم ہونے کا امکان ہے۔
 
اس کے علاوہ ایلون مسک غلط معلومات کی نشاندہی کے نظام کو بھی روک رہے ہیں جو کہ ٹوئٹر کے لیے خطرناک لمحہ ہوسکتا ہے۔
 
ٹوئٹر کے سابقہ ملازمین سمجھتے ہیں کہ اس سے ٹرولز اور غلط معلومات پھیلانے والے لوگوں کے لیے آسانی پیدا ہوگی۔
 
ٹوئٹر کی کامیابی کا راز اس پر موجودہ مواد کا معیار ہوا کرتا تھا مگر اب بظاہر یہ نظام ختم ہو گیا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: