رمضان المبارک میں لیلۃ القدر اور اعتکاف کے حوالے سے خوب وعظ و نصیحت کی
جاتی ہے اور وہ ہونا بھی لیکن اسی ماہِ مبارک رب کائنات نے آپ ﷺ کو فتح
مکہ کی نعمت عظمیٰ سے بھی نوازہ جس کا ذکر شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ اللہ
تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم کامیابی کی نوید ہجرت کے وقت اس طرح سنادی تھی
کہ:’’ اور اعلان کر دو کہ ،حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا
ہے‘‘۔فتح مکہ کے موقع پر نبیٔ کریم ﷺ خانہ کعبہ کے بتوں سے پاک کرتے ہوئے
اس آیت کو پڑھ کر عملی تفسیر پیش فرمادی ۔اس ابتداء اور انتہا کے درمیان
بدرا وراحد کا معرکہ برپا ہوا اور غزوۂ احزاب کی بھی نوبت آئی۔ اس کے
متعلق ارشادِ ربانی ہے:’’اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل
کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی
لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے‘‘۔ عالمِ
انسانیت کی تاریخ کے اس حسین موڑ پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اب ہم ان پر
چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھ کر نہیں آئیں گے‘‘گویا امت مسلمہ دفاعی حالت
سے نکل کر اقدامی پوزیشن میں آ گئی۔
پانچ ہجری میں لشکر احزاب کی شکست اور یہودیوں پر مسلمانوں کی کامیابی کے
بعدوالے سال مجاہدین اسلام کےجملہ 24 جنگی دستے (سریہ) روانہ کیے گئےاور
چار غزوات بھی واقع ہوئے ۔یہ جنگی مہمات صلح حدیبیہ پر منتج ہوئی اور رب
کائنات نے منادی سنادی کہ :’’بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے
تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے اور آپ پر اپنی نعمت
کو تمام کردے اور آپ کو سیدھے راستہ کی ہدایت د ے د ے ‘‘۔ اس معاہدے نے
براہ راست ملاقات ، تبادلۂ خیال اور اعتقادی بحث و مباحثہ کا راستہ کھول
دیا۔ امام جعفر صادق ؓ فرماتے ہیں کہ ”پیغمبر اسلام کی زندگی میں کوئی
واقعہ صلح حدیبیہ سے زیادہ فائدہ مند نہیں تھا۔“اس معاہدہ نے رسول خداﷺ کو
جنوب کی طرف سے مطمئن کر دیا نیز کئی عربی قبائل کو مسلمانوں کا حلیف
بنادیا ۔ اسی زمانہ میں مختلف قبائل کے سرداروں اور عیسائی مذہب قائدین سے
مذاکرہ اور مکاتبہ کا سلسلہ شروع ہوا جو عالمی سطح پر دعوت اسلامی کا آغاز
تھا۔ آپ ﷺ نے 185تبلیغ و دعوت کے خطوط لکھ کر منطق و برہان، دلائل و
اشارات اور نصیحت و رہنمائی کے ذریعہ دیگر اقوام کے سامنے اسلام کی دعوت
پیش فرمائی۔
تحریک اسلامی کی بیخ کنی کے لیے عالمِ وجود میں آنے والے نئے جنگی اتحاد کی
راہ میں یہ صلح مانع بن گئی ۔ اس سے نفوذ کی وسعت کا ایسا باب کھلا کہ صلح
حدیبیہ کے موقع پرنبی کریم ﷺ کے ساتھ صرف چودہ سو مسلمانوں کی تعداد تھی جو
فتح مکہ کے وقت بڑھ کر دس ہزار ہوگئی ۔ موتہ کی جنگ کے بعد قریش نےمسلمانوں
کو کمزور سمجھ کر حدیبیہ کا معاہدہ توڑنے کا ارادہ کیا ۔ بنو خزاعہ اور بنو
بکر کا تنازع اس کا بہانہ بنا۔ سن ۸ ہجری میں ان قبائل کے درمیان جھگڑا ہوا
توقریش نے معاہدے کو پامال کرکے خزاعہ کے خلاف بنی بکر کی خفیہ مدد کی ۔
آگے چل کر ابوسفیان نےجو اصلاح کی کوشش کی اسے مسترد کردیا گیا۔ اس کے بعد
کمال حکمت سے کوئی قطرۂ خون بہائے بغیر رسول اکرم ﷺ نے مکہ کو فتح
کرلیا۔لشکرِ اسلام میں حضرت سعدؓ نےاس وقت اعلان کیا ’’آج خونریزی اور مار
دھاڑ کادن ہے۔ آج حرمت حلال کرلی جائے گی۔آج اللہ نے قریش کی ذلت مقدر کردی
ہے ‘‘تو اس کی شکایت ملنے پر رسول اللہﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ آج کعبہ کی
تعظیم کا دن ہے ۔ آج کے دن اللہ قریش کو عزت بخشے گا‘‘۔آپ ﷺ نے اس عظیم
جنگی مہم میں کامیابی کے بعد جو خطبۂ امن ارشاد فرمایا انسانی تاریخ میں
بے مثال ہے۔
ارشادِ نبوی ﷺ ہے’’ا للہ کے سواکوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی
شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا
سارے جتھوں کو شکست دی۔ ۰۰۰اے قریش کے لوگو! اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت
اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا۰۰۰اس کے بعد آپؐ نے مزیدفرمایا : قریش
کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے۔ میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں ؟
انہوں نے کہا : اچھا۔ آپ کریم بھائی اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔ آپﷺ
نے فرمایا : تو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں
سے کہی تھی کہ ’’ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔ا س کے
بعد عثمان بن طلحہ کو مخاطب کرکےیقین دہانی کرائی ’’ عثمان ! یہ لو اپنی
کنجی ، آج نیکی اور وفاداری کا دن ہے۔ اسے ہمیشہ کے لیے لے لو۔ تم لوگوں سے
اسے وہی چھیننے والا ظالم ہوگا۔ اے عثمان ! اللہ نے تم لوگوں کو اپنے گھر
کا امین بنایا ہے‘‘۔اسلام کی اس عظیم فتح کے موقع رب کائنات نے حکم دیا
:’’جب خدا کی مدد اور فتح کی منزل آجائے گی اور آپ دیکھیں گے کہ لوگ دین
خدا میں فوج در فوج داخل ہورہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کریں او راس
سے استغفار کریں کہ وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے ‘‘ ۔ نبی ﷺ کے
خطبہ کے الفاظ اور کلام الٰہی کی روح میں کمال مماثلت ہے۔ یہی دین اسلام کا
سب سے موثرقولی و عملی پیغام امن وسلامتی ہے۔
|