انگریزوں کی عطا کردہ انگریزی
یعنی فرنگی زبان شروع ہی سے ہمارے ناکارہ ذہن میں جگہ نہ بناسکی اور دسویں
کے امتحان میں ہم نے انگریزی کا پرچہ کر کے بہت سا خرچہ ، بہت مشکل سے ،
کئی ایک خفیہ طریقے آزما کر پاس کیا تھا۔ مثلا: ایک پَھر ا مائکرو کرا کے
ناڑے کے ساتھ باندھ کر لے گئے تھے ، کچھ ہیڈ لائن فٹے پر تحریر کر لی تھیں،
کچھ لائنیں شلوار کے پائنچے کے نچلے حصے میں سما گئیں ، کچھ قمیض کے پلو کے
نیچے کا حصہ کام آیا ، کچھ کالر کے پیچھے کالک ملی، کچھ پانی پلانے والے
لڑکے سے جائزتعلقات بنا کر کام چلایا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ بہر حال جیسے کیسے ہم
یہ پرچہ فرنگی پہلی بار میں ہی نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
تاہم ہمیں انگریزی میں جس چیز سے سب سے زیادہ پرابلم اور چڑ ہوتی ہے وہ
سائلنٹ اور ملتے جلتے حروف ہیں۔ اب سائلنٹ حروف کو ہی لے لیجئے بھئی جب ان
لفظوں کی آواز ہی نہیں آنی تو پھر دل آزار کر نے اور بلیکھے میں ڈالنے کو
لکھائی میں کیوں؟۔ انگریزوں کی دیگر بہت سی باتوں کی طرح ہمیں انکی یہ
سائلنٹ حروف والی منطق بھی آجتک سمجھ نہ آسکی۔ مثلا: Light میں gh سائلنٹ
ہے۔ تو جب ان الفاظ کو نہیں پڑھنا تو بیچ کا بچولا کیوں بنایا ؟ ہم ہمیشہ
اپنے استاد سے اس بات پر پٹتے رہے کہ ہم اس Light کو ہمیشہ Lite لکھتے اور
لیتے رہے، اور ہمارے استاد صاحب ان سائلنٹ حروف کے غلط استعمال پر پہلے
ہمارے الٹے ہاتھوں پر ڈنڈے مار مار کر فل ٹائم نقش و نگار بناتے پھر دیگر
جسمانی اعضاءاور ہڈیاں توڑ کر انکے پکے ہونے کا یقین کرتے اور ہم آئے روز
گامو پہلوان ہڈی جوڑ والے کے ٹھیے پر پائے جاتے تھے۔ ایک روز استاد صاحب نے
Bright کوجملے میں استعمال کرنے کو کہا۔ ہم نے جملہ کچھ یوں بنایا کہ:
ہماری اما ں Brite سے کپڑے دھوتی ہیں۔ استاد صاحب نے ہمیں ہی دھو ڈالا۔ اسی
طرح Night کا جملہ دیکھیے کہ : میری اماں سویٹر Nit کر تی ہیں۔ اب آپ ہی
بتایئے کہ بندا کہاں تک ان سائلنٹ حروف کو یاد رکھے۔ اب آپ دیکھیے کہ
انگریزی کا ایک لفظ ہے Rough یعنی رَف اسمیں R کے بعد سبھی کچھ سائلنٹ ہے،
آواز فے کی ہے مگر کہیں بھی Fکا ذکر خیر تک نہیں۔ اسی طرح ایک بار Height
کو جملے میں استعمال کر نے کو کہا گیا تو ہم نے لکھ دیا کہ: میں جب ابا کو
دکان پر روٹی دینے جارہا تھا تو ایک کار نے میری سائیکل کوHit کر دیا۔ پھر
استاد نے ہمیں ڈنڈے کے بجائے اپنے پاﺅں سے فٹ بال کی طرح Hit کر نا شروع کر
دیا اور اسوقت تک Hit کرتے رہے جب تک کہ ہم پورے اسکول میں ہِٹ یعنی مشہور
نہ ہوگئے ۔ مزید کاروائی سنسر کی جاتی ہے۔ ایک دن استاد صاحب نے کہا کہ
Eight کا جملہ بناﺅ، تو ہم نے لکھا کہ: میں نے آج روٹی گڑ کے ساتھ Ate کی۔
اسی طرح: Caughtکو ہم نے ایک بار یوں جملے میں استعمال کر لیا کہ: میرے ابا
اور اماں ایک ہی Cot پر سوتے ہیں۔ اور Insight کو ایسے لکھا کہ: ابا اور
اماں کے کمرے کا دروازہInside سے بند ہوتا ہے۔بس پھر کیا تھا اگلے روز
استاد صاحب گھر پہنچ گئے اور ابا سے شکایت کردی کہ بچہ گھر کی باتیں باہر
بتاتا ہے۔ ابا نے ہمیں سزا کے طور پر شدید سردی میں Cot-Less یعنی بغیر
چارپائی اور کمرہ بدر کر کے پہلے جسم پر مولا بخش سے مختلف نقش و نگار
بنائے پھر برآمدے کے فرش پر سلانے کے آرڈر جاری کر دیے۔پر ہماری انگریزی یہ
سزا پانے کے بعد بھی اچھی نہ ہوئی اور Fightکا جملہ ہم نے کچھ اسطرح بنا د
یا کہ : میرے بڑے بھائی کے کپڑے Fitہونے پر اماں نے مجھے پہنا دیے۔ اسکے
بعد وہی کچھ ہوا جو ا س سے پہلے جملے کے بعد ہوا تھا۔ اور Ought کا جملہ ہم
ایسے بناتے کہ: میں کرکٹ میں ہمیشہ صفر پر Outہوتا ہوں۔ اور Daughter کو
ہمیشہ Doctor لکھتے اور پڑھتے رہے۔ ایک بار تو غلطی کی انتہا ہو گئی کہ ہم
نے پوری کلاس کے سامنے Wish کا جملہ کچھ اسطرح بنادیا کہ: I witch you all
the best. اسکے بعداتنی شرمساری ہوئی کہ شاید اتنا شرمندہ تو کوئی شادی کر
کے بھی نہ ہوتا ہوگا۔ ویسے بائے دی وے کیا آپکو Witch کا مطلب پتہ ہے؟
بہرحال! انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہمارے برادر ملک چین کے لوگ بھی کسی معاملے
میں کسی سے پیچھے نہیں رہے اور ہر کام میں انگریزوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
مثلا: انگریزوں کی ہر چیز کو مات دینے کی خواہش میں Google کی جگہBaidu
انٹرنٹ سرچ انجن بنا دی۔ اسی طرح حروف سائلنٹ کرنے میں بھی انکا جواب نہیں
مثلا اگر کسی کا نام چنگ چی ہے تو اسے ایسے لکھیں گے: Xiang Kchee اگر کسی
کا نام : لی پنگ ہے تو لکھیں گے: Xliue Xping اگر کسی کا نام ہو جن تاﺅ ہے
تو : Xouho Gjing Xitahou اب دیکھیں کہ ان ساڑھے دو درجن الفاظ میں سے ایک
اور آدھا درجن الفاظ فضول میں استعمال ہوئے ہیں۔ انہیں یاد کرنے ، لکھنے ،
پڑھنے میں کتنے ہی مین آور ضائع ہوئے ، کتنی سیاہی فضول خرچ ہوتی ہے، کتنی
پنسلیں گھسیں گی اور دماغ کی الگ بتیسی بنتی ہے ۔ چین کے علاوہ دنیا میں
اور بھی بہت سے ممالک ہیں جہاں یہ سائلنٹ حروف کا پھڈا چلتا ہے مثلا:
چیکوسلواکیہ کی چیک، ڈنمارک کی ڈینش، سویڈن کی سویڈش، رشیا کی رشین زبان کے
الفاظوں میں بھی یہ بیماری بہت عام پائی جاتی ہے،اور اسکا علاج بھی دستیاب
نہیں۔تاہم تفصیل میں نہیں پیتے کہ کَم لمما ہو جائیگا۔ چھڈو، مٹی پاﺅ۔
اب آتے ہیں ملتے جلتے حروف کی طرف: کچھ ہم سنتے اونچا ہیں اوپر سے یہ ملتے
جلتے الفاظ ہمیں اکثر دھو کہ دے جاتے ہیں: استا صاحب نے ایک بار لکھوایا کہ
: ثمینہ بازار میں چیزیں Buy کرتی ہے۔ ہم نے لکھ دیا کہ : ثمینہ بازار میں
Bi کرتی ہے۔ کلاس کے بعد ثمینہ نے ہمیں پکڑ لیا اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟آپ
خود سمجھدار ہیں۔ اس طرح ایک بار لکھوایا کہ : Henانڈا دیتی ہے، ہم نے لکھ
دیا کہ : Pen انڈا دیتی ہے۔ استاد نے لکھوایا کہ : عالیہ کی گاڑی کا Wheel
خراب ہو جانے سے وہ Late ہو گئی ۔ ہم نے لکھ دیا کہ عالیہ کی Heel خراب ہو
جانے سے وہ Late یعنی مرحوم ہو گئی۔ اور سب کو بعد میں بتا بھی دیا۔ اسی
طرح Access کی جگہ Excess اورAccept کی جگہExcept لکھ دینا بھی ہمارے
معمولات میں شامل تھا۔ ایک بار تو چھٹی کی درخواست میں کچھ ایسا لکھا کہ:
Application for 2 days live ۔ استاد صاحب نے پوچھ لیا کہ دو دن کہاں رہنا
ہے، مولا بخش کے سائے تلے کیسا رہے گا ؟؟
اچھا خیر ! ہماری تو انگلش کمزور ہے مگر ہمارے ایک دوست ہیں وہ ہمیشہ اردو
کے ایک جیسے الفاظ میں بھلیکا کھا جاتے ہیں۔ جیسے ،،صدا،، اور ،،سدا،، ایک
بار انہوں نے جملہ بنایا کہ: ہماری مرغی صدا ایک انڈا دیتی ہے۔ استاد صاحب
نے دھر لیا اور ڈنڈے سے پھینٹی لگادی۔ یہ باز پھر بھی نہ آ ئے اور اگلے روز
سب کے سامنے بلیک بورڈ پر کچھ اسطرح جملہ لکھا کہ: میری آنکھ روز صبح کو
مرغ کی سدا پر کھلتی ہے۔ استا صاحب نے سرِ عام مرغا بنا کر چھترول شروع کر
دی۔ ایک بار ،،سہارا،، کا جملہ بنایا کہ: میں اپنے بچوں کو اپنے ماں باپ کا
صحارا بناﺅں گا۔ اور ،،پر زور اصرار ،، کو ہمیشہ اپنے بہترین دوست اور
ساتھی کے نام پر ،، پرا سرار اسرار ،، لکھتے رہے اور اپنے ایک اور دوست ،،
عامر،، سے ہمیشہ اس لیے پٹتے اور مار کھاتے رہے کہ اس بیچارے کو ہر جگہ
،،آمر،، لکھ کر مرحوم اور حالیہ پاکستانی ڈکٹیٹروں کی فہرست میں شامل کیے
رکھا۔
لہذا مذکورہ تمام مشکلات اور کھبڑ چوں سے بچنے کے لیے ہماری دنیا کے تمام
ممالک سے استدعا ہے کہ یہ سائلنٹ اور ملتے جلتے حروف کا چکر اپنی اپنی
زبانوں سے بلکل ختم کر دیں تاکہ ا لفاظ کی ٹھیک ادا ئیگی میں آسانی
رہے۔اللہ آپ سب کا بھلا کریگا۔ |