چین نے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟

خان صاحب نے فٹ پاتھ پر رونق میلہ لگا رکھا تھا۔ دوا بیچ رہے تھے اور اس کے فوائد گنوانے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ خوب ”منجن“ بیچنے کے بعد خان صاحب نے مجمع سے مخاطب ہوکر پوچھا کسی کو کچھ پوچھنا ہے۔ ایک دبلے پتلے شخص نے ہاتھ اٹھاکر کچھ کہنا چاہا تو خان صاحب نے روانی برقرار رکھتے ہوئے فرمایا ”خوچہ تم چپ کرو، کسی اور کو شکایت؟“

یہ لطیفہ نُما واقعہ حکومتِ سندھ کے اِس اعلان پر یاد آیا کہ 2013 سے صوبے بھر کے اسکولوں میں چھٹی کلاس سے چینی زبان لازمی قرار دے دی جائے گی۔ ایسے بھاری بھرکم اعلان کے بعد کسی کی کیا مجال کہ شکایت کرے!

انسان کی نیت صاف ہو تو من کی مُراد مل کر رہتی ہے۔ ہم نے جب بھی اُداسی میں شدت محسوس کی ہے اور چاہا ہے کہ حکومت دل بستگی کا کچھ سامان کرے تو من کی مُراد پوری ہوئی ہے اور کسی نہ کسی وزیر نے آگے بڑھ کر ہمارے لیے ہنسنے کا سامان کیا ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ سے سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان اپنے خوابوں سے رعایا کے ہونٹوں کو مسکراہٹیں عنایت کرتے آئے ہیں۔ اور اب وزیر اعلیٰ نے بہ نفس نفیس ہمارے لیے مسرت کا سامان کیا ہے!

حکومتوں کی ایک اچھی عادت یہ ہوتی ہے کہ اِن سے وابستہ بعض افراد لوگوں کو خوف سے دوچار کرتے ہیں تو جلد ہی خوف کی فضاءختم کرکے لوگوں کو ہنسانے والے بھی سامنے آ جاتے ہیں! اِسی کو انگریزی میں بلینسنگ ایکٹ کہتے ہیں۔ اور اِس فن میں ہماری حکومتیں یدِ طُولٰی رکھتی ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ دس بارہ دن سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی شُعلہ بیانی لوگوں کو شدید ذہنی دباؤ سے دوچار کئے ہوئے تھے اور وہ ہر وقت سہمے سہمے رہتے تھے۔ ایسے میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے چینی زبان کو لازمی قرار دینے کا اعلان کرکے اُداس چہروں کو تابانی اور کانپتے ہونٹوں کو مُسکان بخشی ہے۔ اِس اعلان سے پیدا ہونے والی مُسکراہٹ، بلکہ قہقہوں نے طبیعت کو اِس قدر ہشاش بشاش کردیا کہ ہم یہ پوچھنا بھی بھول گئے کہ ہمیں پہلے کون سی زبان ڈھنگ سے آتی ہے کہ اب چینی سیکھیں گے! قائم علی شاہ نرم مزاج کے انسان ہیں اور وہ ہمیں خان صاحب کی طرح ”خوچہ تم چپ کرو“ کہہ کر سائڈ لائن نہیں کریں گے مگر اِس کے باوجود ہم کچھ پوچھنے سے مجتنب ہیں۔

ہماری سادگی دیکھیے کہ ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ذوالفقار مرزا کی باتوں سے سہم جانے والوں کو وزیر اعلیٰ ہنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر جب معلوم ہوا کہ چینی سِکھانے کے معاملے میں وہ سنجیدہ ہیں تو ہم مزید سہم کر سنجیدہ ہوگئے!

ہم سوچ رہے ہیں کہ سندھ میں چینی کو لازمی قرار دینے کا اعلان کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ یہاں تو چینی ویسے ہی لازمی ہے۔ اہل سندھ چائے کو پَتّی سے کڑک اور چینی سے گاڑھی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اِتنی میٹھی چائے پیتے ہیں کہ کپ میں چمچ کھڑا کیا جاسکتا ہے! سندھ میں چینی کے اِتنے کارخانوں کا کوئی نہ کوئی مصرف تو ہونا ہی چاہیے! ہمیں ڈر ہے کہ اِس چینی زدہ ماحول میں چائنا والی چینی کہیں زائد نہ ہو جائے اور لوگوں کو لِسانی شوگر نہ ہو جائے!

سندھ میں اُردو، انگریزی اور سندھی لازمی مضمون کی حیثیت سے سِکھائی جارہی ہیں۔ چینی کو شامل کرکے اِس تکون کو مربع اور طلباءکے اذہان کو مُربّہ بنانے کا خیال حکومت کے کِس بُزرجمہر کو سُوجھا ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ سندھ بہت حد تک لِسانی تجربہ گاہ ہے۔ کسی زمانے میں اِسلام پر تجربے ہو رہے تھے۔ اب ٹکٹکی پر زبانیں لٹکائی جارہی ہیں۔ اسکولوں میں کئی عشروں سے لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جانے کے باوجود اب تک سندھ میں اردو، سندھی اور انگریزی میں سے کسی میں مثالی مہارت دکھائی نہیں دی۔ کچھ لوگ جو ٹوٹی پھوٹی اردو، انگریزی یا سندھی سیکھ کر اخبارات میں کالم نگاری کرتے یا کتابیں لکھتے ہیں اُس کے لیے اُن کی ذاتی محنت اور لگن کو موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے، کسی سرکاری یا غیر سرکاری اسکول کا اِس میں کوئی قصور نہیں!

اردو اور سندھی دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں۔ انگریزی بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہے۔ یعنی ہم اِدھر سے اُدھر جاکر پھر اُدھر سے اِدھر آتے ہیں! چینی زبان اُوپر سے نیچے لکھی جاتی ہے۔ بہت خوب! اب اگر ہم اُوپر سے لکھتے ہوئے نیچے آئیں گے تو دوبارہ اُوپر کیسے جائیں گے؟ اِس کے لیے جاپانی بھی لازمی قرار دی جانی چاہیے۔ سُنا ہے جاپانی زبان نیچے سے اُوپر کو لکھی جاتی ہے! ذہن سمجھ نہیں پا رہا کہ یہ کیا تماشا ہے، کیا گورکھ دھندا ہے! زبانیں سیکھنے کا عمل نہ ہوا، سانپ سیڑھی کا کھیل ہوگیا! دو تین خانے چلیے تو نیچے سے اُوپر اور پھر چند خانوں کے بعد اچانک اُوپر سے نیچے! آسکر وائلڈ نے کہا تھا ”میں اِس قدر چالاک ہوں کہ کبھی کبھی تو میں خود بھی نہیں سمجھ پاتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں!“ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ سندھ کی حکومت صوبے کے ہر بچے کو آسکر وائلڈ بنانے کے درپے ہے! چار مختلف زبانیں لازمی سیکھنے پر سندھ کے بچوں کا ذہن دِلّی کے جنتر منتر اور بُھول بُھلیّوں کو مات نہ دے تو کہیے گا!

اسکول کے بچے تو بے چارے مجبور ہیں۔ جو سِکھائیے وہ اُنہیں سیکھنا ہی پڑے گا۔ بقول شاعر
کہا جو مَرنے کو مَرگئے ہم
کہا جو جینے کو جی اٹھے ہیں
اب اور کیا چاہتا ہے ظالِم؟
تِرے اشاروں پہ چَل رہے ہیں!

ساٹھ سال سے ہمارے ہاں انگریزی سکھائی جارہی ہے۔ اور اِس دوران ہم نے انگریزی کا جو حشر نشر کیا ہے وہ حیرت انگیز نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اِن ساٹھ برسوں ہمارے ہاتھوں انگریزی سَٹھیا گئی ہے! انگریزوں نے ہم پر تقریباً ڈیڑھ سو سال حکومت کی تھی۔ 1947 کے بعد انگریزوں سے بدلہ لینے کے بہت سے طریقے سوچے گئے۔ طے پایا کہ لازمی مضمون کی حیثیت دیکر اِسکول کی سطح پر انگریزوں کی زبان کا تِیا پانچا کیا جائے!

اگر ہم نے اسکولوں اورکالجوں میں انگریزی کی ایسی تیسی کی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ انگریزوں سے انتقام لے لیا گیا، مگر صاحب! چین تو دوست بلکہ برادر ملک ہے۔ اُس نے ہمارا کیا بگاڑا ہے کہ ہم اُس کی زبان بگاڑنے پر تُل جائیں؟ چین نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا ہے تو کیا اِس کا بدلہ یہ ہے کہ ہم اُس کی زبان کو سرکاری اسکولوں کے دھوبی گھاٹ پر لاکر ٹنگڑی لگائیں؟

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ حکومت چینی زبان شاید اِس لیے سِکھانا چاہتی ہے کہ شاید اِس طرح ہم چینیوں کی طرح جُھک کر، احترام سے بات کرنا سیکھ جائیں! ہم نے عرض کیا بھائی! سندھ کے لوگ تو ویسے مرنجان مرنج ہیں اور اچھے خاصے جُھکے ہوئے ہیں۔ اب اُنہیں اور کتنی تہذیب سِکھائی جائے گی؟

اطمینان کی بات یہ ہے کہ سندھ میں چینی زبان 2013 سے سکھائی جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ تب تک ”شونگ پنگ شین؟“ یعنی حکومت رہے گی؟ اِس کا جواب ہے ”یونگ جینگ فین!“ یعنی کِس نے دیکھا ہے! اِسی بات کو مرزا غالب یوں کہہ گئے ہیں۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک!

چین کی حکومت نے شاید اِسی لیے سندھ حکومت کے فیصلے پر کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر کرنا ضروری نہیں سمجھا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 485986 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More