حرفِ حقیقت ۔

دنیا اور پاکستان ۔
اگر دنیا میں پاکستان کے بارے میں ایک عمومی رائے رکھی جاتی ہے کہ یہ مفروضوں پر چلنے والی لوگوں کی مملکت ہے تو یہ رائے کافی حد تک درست کہی جا سکتی ہے۔اور ان مفروضات کیوجہ سے پاکستان ایک ایسے کنارے پر جا کھڑا ہوا جہاں پر شاہد ہی دنیا کا کوئی ملک موجود ہو۔جذباتیت کا عنصر یہاں کے معاشرے کا ضروری عنصر ہے۔جزباتیت اور مفروضات اس پاکستانی معاشرے کا ایک حقیقی چہرہ ہیں۔پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں پاکستانی عوام تو شاہد بہت دور ہو لیکن زبانی جمع خرچ کرنے میں دنیا میں شاہد اسلام کی ٹھیکداری صرف پاکستان کی ہی زمہ داری ہے۔اس لیے انصاف فراہم کرنے میں پاکستان کا شمار 130 نمبر پر آتا ہے۔دنیا میں اسلام کے خلاف کوئی بات ہو ہماری ایسی کیا جرات کہ ہم مسلم امہ اس کا کوئی مثبت جواب دیں۔لیکن ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اپنی املاک کا نقصان کرنا جہاد اول سمجھتے ہیںِ۔جس معاشرے میں اندھی تقلید اور انصاف کا فقدان ہو وہاں پر شاہد ہی کوئی تصور کیا جائے اس لیے ایسے معاشرے میں ہرفرد کا اپنا قانون اور اپنا آئین ہوتا ہے۔ایسےمعاشرےکا ہر فرد بہترین جج،جنرل،سیاستدان اور تجزیہ کار بن جاتا ہے ۔اسے پاکستانی معاشرے کی بدقسمتی تصور کیا جائے کہ پاکستان خود بند گلی میں موجود ہے اس وقت،لیکن یہ ہماری خوش قسمتی سمجھیں کہ ہمارا ہر فرد دنیا کے تمام مسائل پر لا حاصل گفتگو کر سکتا ہے اور ان مسائل کا حل بھی فراہم کر سکتا ہے۔اور انکے مسائل کا حل جنکا دور دور تک اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں اور جو انصاف فراہم کرنے میں سہر فہرست ہیں۔مفروضات ایسے کہ ساری دنیا کا نظام کی ٹھیکداری ہمارے بل بوتے پر قائم ہے دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات بگڑ جائیں وہ صرف پاکستان کی بدولت ٹھیک ہو سکتے ہیں ورنہ نا ممکن ۔دنیا میں کہیں جنگ چھڑ جائے۔جو دھڑا حاوی ہوگا اسے لازمی پاکستان کی مدد مل رہی ہوگی۔افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے یہاں جنگوں کی دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔اور دنیا کے خاتمے کی پیشگوئیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ہماری خوش قسمتی سے زیادہ بد قسمتی سمجھیں ہم دوسروں کی چپلقش کو اپنی آنا کی جیت سمجھا جاتا ہے اور یہ پاکستان معاشرے کی ترقی سے گردانا جاتا ہے ۔ہم یہ مفروضات ایسے بنا لیتے ہیں ۔کہ کسی ملک کی تباہی سے پاکستان کے حالات دنیا میں اتنے مثالی ہو جائیں گے کہ دنیا گھنٹوں پر آجاۓ گی۔اور پاکستان کا دست شفقت جس پر ہو گا وہی ملک وصفحہ ہستی پر قائم رہ سکے گا۔اور یہ ایک ایسی ریاست کے تعاون سے ممکن ہو سکے گا جہاں پر نہ تو کوئی وزیراعظم،نہ کوئی جج ،اور نہ ہی کوئی جج اپنی مرضی سے آ سکتا ہے اور نہ جا سکتا ہے ۔ جہاں 75 سال سے روٹی کپڑا مکان تو دور کی بات عزت نفس نہیں مل سکی عام آدمی کو۔پھر بھی ہم سر اٹھا کر جی سکتے ہیں کیونکہ ہم ایک جذباتی اور مفروضوں پر چلنے والی قوم سے تعلق رکھتے ہیں ۔اور دنیا ہماری مرہون منت قائم ودائم ہے۔اور یہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں شمار کیا جاۓگا۔
 

Adv zulqurnain Haider Naqvi
About the Author: Adv zulqurnain Haider Naqvi Read More Articles by Adv zulqurnain Haider Naqvi: 9 Articles with 3294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.