اگر اپنی پہلی بیوی پر بھی صبر شکر کر لیتے تو دوسری شادی کی نوبت نہ آتی، شہروز سبزواری نے ایسا کیا کہہ دیا کہ لوگوں نے یہ مشورہ دے ڈالا

image
 
ایک کہاوت ہے کہ بھوکے کا دکھ بھوکا ہی جان سکتا ہے- جس انسان نے کبھی بھوک نہ دیکھی ہو وہ کبھی بھی اس کیفیت اور اس دکھ کو محسوس نہیں کر سکتا ہے جو کہ کئی وقت کی بھوک کی صورت میں کسی انسان کو جھیلنی پڑتی ہے-
 
عید کے موقع پر کسی غریب کی جیب میں صرف اتنے پیسے ہوں کہ وہ اپنے بچے کو دال روٹی کھلا سکے- تو اس وقت میں عید کی تیاری نہ کر سکنے کی جو محرومی اور دکھ اس بچے کی آنکھوں میں باپ دیکھے گا اس کیفیت کو صرف وہی محسوس کر سکتا ہے- جس کے بچے عید پر بھی پھٹے پرانے کپڑے پہننے پر مجبور ہوں اور دوسرے بچوں کے نئے کپڑوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہوں-
 
شہروز سبزواری کا عید شو میں مہنگائی کے بارے میں اظہار خیال
عید کے شو میں اس بار شہروز سبزواری اپنے والد اور بیگم صدف کے ساتھ آئے- جب ان سے مہنگائی کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب ایسا تھا جیسا کہ عام طور پر ہمارے سیاست دان عوام کو دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر روٹی مہنگی ہے تو پریشانی کیسی آپ برگر کھا لیں-
 
 
شہروز سبزواری کا کہنا تھا کہ مہنگائی ہے اور اس نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے مگر مہنگائی کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ عوام میں سے شکر ختم ہو گیا ہے۔ اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مہنگائی کے باوجود ہم پر اللہ کا رحم ہے کہ وہ ہمیں دے رہا ہے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے جب ہمیں سب مل رہا ہے تو ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے-
 
بہروز سبزواری کا لقمہ
اس موقع پر بہروز سبزواری کا بھی یہ کہنا تھا کہ چیزیں اگر مہنگی ہو بھی گئی ہیں تو اس کے باوجود استعمال کی ضروری اشیا جو لینی ہیں وہ تو لینی پڑیں گی۔ جیسے اگر پٹرول مہنگا ہو گیا ہے تو اس کا استعمال ترک تو نہیں کر سکتے ہیں لینا تو پڑے گا-
 
مگر یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان میں لاکھوں افراد اس وقت ایسے حالات کا شکار ہیں کہ وہ ضرورت کی اشیا کی خریداری کی بھی طاقت نہیں رکھتے۔ ان کا بچہ بیمار ہو جائے تو وہ اس کی دوا خریدنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
 
سوشل میڈیا صارفین
اس موقع پر باپ بیٹے کے ان خیالات نے مہنگائی سے ستائے لوگوں کو آگ بگولہ کر ڈالا۔ ایک ایسا فرد جس کی تنخواہ ہی 25 سے 30 ہزار ہو جس کا گھر کرائے کا ہو جس کے چار بچے ہوں کوئی اس سے پوچھے کہ اس مہنگائی کے عالم میں اس کے یہ تیس ہزار مہینے کے کتنے دنوں میں ختم ہو جاتے ہیں- کیا دال روٹی کے علاوہ وہ کچھ اور کھانے کے قابل ہیں۔ کیا وہ بچوں کو عید کے کپڑے دلوا سکے؟
 
اس موقع پر صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس کی بیوی ڈیزائنر کا ایک سوٹ پہننے کا 50 ہزار لیتی ہوں اس کو 30 ہزار تنخواہ والے کا دکھ سمجھ نہیں آسکتا ہے- جس کی بیوی کے ڈیزائن کردہ لان کے سوٹ کی قیمت 25 ہزار ہو اور امیر لوگ اس کو خرید بھی رہے ہوں اس کو تو مہنگائی کا رونا رونے والا اللہ کا ناشکرا انسان ہی لگے گا-
 
اگر اتنے ہی شکر گزار تھے تو پہلی بیوی کو طلاق کیوں دی؟
اس موقع پر ایک صارف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر شہروز سبزواری اتنے ہی اللہ کا صابر اور شاکر انسان تھے تو اپنی پہلی ہی بیوی کے ساتھ صبر اور شکر کر کے گزارہ کرتے رہتے- ان کو پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
 
image
 
بولنے سے پہلے کم از کم سوچنا چاہیے
شہروز سبزواری بہروز سبزواری کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کا شمار ایک ایسے خاندان سے ہوتا ہے جو کہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اکلوتے ہونے کے سبب اس تک غریبی اور سفید پوشی کی وہ آنچ اب تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ جس کا سامنا اس وقت ملک کی آبادی کا بڑا حصہ کر رہا ہے-
 
اللہ کا شکر ادا کرنا ایک بہترین عادت ہے اور یہ ہر ایک شخص میں ہونی چاہیے کیونکہ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ شکر کرنے والے کو اور زيادہ نوازتا ہے۔ لیکن اس وقت وہ ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر جب پاکستان کے کروڑوں کی آبادی کے سامنے بات کر رہے تھے، تو ان کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ جو نعمتیں اور جو مواقع اللہ نے ان کو دیے ہیں۔ وہ پاکستان کے صرف چند ہزار لوگوں کو ہی میسر ہیں۔
 
اس وجہ سے ان کی لاعلمی میں کی ہوئی یہ بات ان کے اپنے ہی گلے پڑ گئی۔ ان کی یہ بات بہت سارے ایسے لوکوں کے لیے تکلیف کا باعث بنی جو سفید پوشی کے سبب سخت ترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان کو یہ محسوس کروایا گیا کہ چونکہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے نہیں ہیں اس وجہ سے اللہ نے ان کو آزمائش میں رکھا ہے۔
 
لہٰذا شہروز سبزواری کے اس بیان کے بعد صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کو کم از کم بولنے سے پہلے ایک بار سوچ ضرور لینا چاہیے-
YOU MAY ALSO LIKE: