نیہا ککڑ کے آنسو ہوں یا سلمان خان کا غصہ٬ ریئیلٹی شوز کے پیچھے چھپی کہانیاں جو آپ کو اپنا ہی سر پیٹنے پر مجبور کردیں

image
 
ایک ریئیلٹی شو ہو رہا ہے سٹیج پر ایک لڑکا مائیک لیے کھڑا ہے اور اس شو میں اس لڑکے کا یہ آخری دن ہے۔سب کو لگا کہ یہ لڑکا جیت جائے گا لیکن شو میں کہا گیا کہ دوسروں کے مقابلے اس لڑکے کو لوگوں نے کم ووٹ دیے تو وہ باہر ہو گیا۔
 
وہی لڑکا ایک بار پھر سٹیج پر آتا ہے۔ کچھ سال گزر جاتے ہیں اور جیسے ہی یہ لڑکا مائیک پر گاتا ہے ’مجھکو اتنا بتائے کوئی، کیسے تجھ سے دل نہ لگائے کوئی‘۔۔۔ یہ سنتے ہی سٹیج کے باہر موجود اس لڑکے کو پسند کرنے والے ہزاروں، لوگوں کا ہجوم چلانے لگتا ہے اریجیت، اریجیت، لو یو اریجیت۔۔۔
 
اسی اریجیت سنگھ کو سنہ 2005 میں ریئیلٹی شو ’فیم گروکل‘ سے باہر کر دیا گیا تھا۔
 
اس کے بعد سے اب تک جب بھی کوئی ریئیلٹی شو ہوا ہے اور کوئی فنکار یا مقابلہ کرنے والا جیتا یا ہارا ہے، کچھ لوگوں نے ایک سوال ضرور پوچھا ہے کے ریئیلٹی شو میں ہوتا کیا ہے؟
 
image
 
ریئلٹی شو کے پیچھے کی کہانی کیا ہوتی ہے؟
شو میں حصہ لینے والے کنٹیسٹنٹ بھی ریئیلٹی شو پر سوالات اٹھانے میں شامل رہے ہیں۔
 
بگ باس میں ایک بار پارس چھابڑا نے سلمان خان سے یہ تک کہہ دیا تھا کہ’سر، براہ کرم کریئٹیو والوں سے کہیں کہ وہ پیچھے سے بیکار باتیں نہ کریں‘۔
 
لاک اپ شو میں کرن ویر نے انجلی سے فرضی افیئر کرنے کو کہا گیا اس پر کرن ویر نے کہا تھا- ’آپ کو معلوم ہے آپ کچھ کہانیاں اور کچھ فرضی کہانیاں دکھاتے ہیں تاکہ شو کامیاب ہو سکے‘۔
 
تو ریئیلٹی شوز کی دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ ہی سچ ہے یا پھر سچ کچھ اور ہی ہوتا ہے؟
 
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم خود ممبئی پہنچ گئے، جہاں جب کسی کو ریئیلٹی شو کے لیے منتخب کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے ’تو ممبئی آ رہا ہے‘۔
 
ریئیلٹی شوز کی اس کہانی میں ہمیں معلوم ہوگا کہ انڈیا میں ریئیلٹی شوز کب آئے، وہ کیسے مقبول ہوئے اور آپ ریئیلٹی شوز میں کیا دیکھتے ہیں؟ پھر چاہے نیہا ککڑ کے آنسو ہوں یا سلمان خان کا غصہ یا پھر شو میں سیاسی ایجنڈا پھیلانے کے الزامات۔
 
image
 
ریئیلٹی شوز ہوتے کیا ہیں
ممبئی کی فلم سٹی، کامیڈی کا ’دی کپل شرما شو‘ شوٹ ہو رہا ہے شو دیکھنے کے لیے جتنے عام لوگوں کو جانا ہے ان کو اپنے فونز سائلینٹ پر رکھنے کے لیے کہا جا رہا ہے یہ شو زیادہ تر شام سے رات تک شوٹ ہوتا ہے۔
 
سٹوڈیو سے باہر کئی وینٹی وینز کھڑی ہیں اور شو کی کرییٹیو ٹیم کے کچھ لوگ شو میں حصہ لینے کے لیے آنے والی مشہور ہستیوں کو ہاتھوں میں کاغذ تھامے کچھ سمجھا رہے ہیں۔
 
اور یہی کرییٹیو ٹیم طے کرتی ہے کہ شو کو کتنا تفریحی بنانا ہے۔
 
لیکن ریئیلٹی شوز ہوتے کیا ہیں، لوگ کس بات کا جواب دیں گے، بگ باس، کون بنے گا کروڑ پتی، نچ بلیئے، انڈین آئیڈل، ڈانس انڈیا ڈانس یعنی وہ شو جہاں سب کچھ اصلی ہو۔
 
اگر آپ ان لوگوں سے پوچھیں جو ٹی وی چینلز کی کرییٹیو ٹیم کی سربراہی کر چکے ہیں، تو جواب ملے گا کہ ریئیلٹی شوز جیسا کچھ نہیں ہوتا، جو کچھ آپ ان میں دیکھتے ہیں اسے غیر سکرپٹڈ مواد کہا جاتا ہے۔ جو بھی ہے، اسے کیمرے میں قید کر لیا گیا اور بعد میں اسے ایڈٹ کر کے دکھایا گیا۔ دو چیزیں ان سکرپٹڈ میں آتی ہیں۔ پہلی دستاویزی فلم، دوسرا رئیلٹی شو۔
 
image
 
ریئیلٹی شوز بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں
گیم شوز: کون بنے گا کروڑ پتی، دس کا دم
 
مشہور شخصیت کے ریئیلٹی شوز: نچ بلیئے، جھلک دکھلا جا
 
ٹیلنٹ ریئیلٹی شوز: انڈین آئیڈل، ڈانس انڈیا ڈانس
 
ایڈونچر ریئیلٹی شوز: خطروں کے کھلاڑی، خوف کا عنصر
 
کیپٹیو ریئیلٹی شو: بگ باس
 
ڈیٹنگ ریئیلٹی شو: ہینڈل کرنے کے لیے ابے
 
دنیا کا پہلا ٹی وی ریئیلٹی شو ’کینڈڈ کیمرہ‘ سمجھا جاتا ہے۔
 
سنہ 1948 میں آنے والے اس شو میں شرکا کو کسی ناقابل تصور یا عجیب و غریب صورت حال میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور پھر ان کے ردعمل کو کیمرے میں قید کر کے نشر کیا جاتا تھا۔
 
مثال کے طور پر اچانک محمد علی کو کسی بچے کے سامنے لانا اور اس کا رد عمل ظاہر کرنا۔
 
کوپس دنیا کا سب سے طویل چلنے والا ریئیلٹی شو ہے۔ سنہ 1989 میں شروع ہونے والے اس شو کا 35 واں سیزن اس وقت چل رہا ہے۔
 
انڈیا کے ابتدائی ریئیلٹی شو میں کچھ ذکر کرنا ضروری ہے۔
 
کوئز مقابلہ سنہ 1972 میں ریڈیو پر شروع ہوا ۔ ٹی وی ورژن کے بعد میں میزبان۔۔ ڈیریک او برائن۔
 
سِنگنگ شو سارے گا ما پا سنہ 1995 میں شروع ہوا۔ میزبان۔۔ سونو نگم۔
 
انڈیا کا پہلا ڈانس ریئیلٹی شو بوگی ووگی سنہ 1996 میں شروع ہوا۔ جج جاوید جعفری۔
 
image
 
انڈیا میں ریئیلٹی شوز کا عروج
انڈیا میں ریئیلٹی شوز کی دنیا سال 2000 کے بعد تیزی سے بدل گئی، جب امیتابھ بچن نے شو 'کون بنے گا کروڑ پتی'کے ساتھ چھوٹے پردے پر قدم رکھا۔
 
غیر ملکی شو کے اس خالص ہندی فیملی ورژن نے جلد ہی ٹی وی کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ کسی کے خواب کی تکمیل دیکھ کر اکثر دوسروں کے خواب بھی پھول جاتے ہیں۔
 
شو 'کون بنے گا کروڑ پتی' کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور انعامی رقم سے ملنے والی خوشی اس کی ایک مثال تھی۔
 
پھر سنہ 2004 میں 'امریکن آئیڈل' کی طرز پر 'انڈین آئیڈل' شروع ہوا لیکن ریئیلٹی شوز کی دنیا میں ایک ایسا شو جس نے اپنا ایک خاص مقام بنایا وہ تھا 'بگ باس'، جو 'بگ برادر' کی طرز پر انڈیا میں شروع ہوا۔
 
یہ وہی ’بگ برادر‘ شو تھا، جس میں نسل پرستانہ تبصروں کا سامنا کرنے کے بعد سرخیوں میں آنے والی شلپا شیٹی فاتح بن گئی تھیں اور شو بز میں ان کی ایک طرح سے واپسی ہوئی۔ انڈین ٹی وی، او ٹی ٹی، یوٹیوب پر اب ہر قسم کے ریئیلٹی شوز دستیاب ہیں۔
 
بچے اور بڑے ڈانس کرتے ہیں، کھانا پکاتے ہیں، خطرات کا سامنا کرتے ہیں، مشہور شخصیات کے جوڑے اکٹھے دکھاتے ہیں، محبت تلاش کرتے ہیں، گھر میں مہینوں گزارتے ہیں، سوالات کے جوابات دیتے ہیں اور یہاں تک کہ ایک سویموار شو، یعنی شادی کا شو بھی ہوا جس میں مشہور شخصیات کی 'ارینج میرج' کو دکھایا گیا۔
 
اب کئی انڈین زبانوں میں بھی ریئیلٹی شوز بنائے جارہے ہیں۔ 'زی' پر ایسا ہی ایک مراٹھی ریئیلٹی شو ہے۔ یہ شو 1000 اقساط کی تکمیل کے قریب ہے۔
 
کچھ ریئیلٹی شوز نے انڈیا کو کئی بڑے ستارے بھی دیے۔ مثال کے طور پر ’ایم ٹی وی روڈیز‘ سے نکلنے والے آیوشمان کھرانہ یا ڈی ڈی نیشنل میں 'میری آواز سنو' شو جیتنے والی سنیدھی چوہان۔
 
image
 
ریئلٹی شوز: اصلیت سے زیادہ جذباتیت؟
یہ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ ریئیلٹی شوز میں جذباتیت کا پہلو بہت زیادہ دکھایا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جذباتیت دکھانے کے عمل میں اصلیت ختم ہو جاتی ہے؟
 
آشیش گولوالکر ان لوگوں میں ایک بڑا نام ہے جنھوں نے انڈیا میں ریئیلٹی شوز کی دنیا کو نیا عروج بخشا۔
 
وہ سونی، زی، سٹار ٹی وی سمیت کئی چینلز میں نان فکشن یعنی ریئیلٹی شوز کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
 
ڈانس انڈیا ڈانس، سپر ڈانسر، سلمان خان کی میزبانی میں دس کا دم، کون بنے گا کروڑ پتی کے کئی سیزن، سا رے گا ما پا کا نیا ورژن، امیتابھ بچن کا آج کی رات ہے زندگی شو، ماسٹر شیف، نچ بلیے اس ٹیم کا ایک بڑا حصہ رہا ہے جس نے کپل شرما شو، شارک ٹینک، انڈیا گوٹ ٹیلنٹ سمیت کئی شوز شروع کیے یا چلائے۔
 
آشیش گولوالکر کہتے ہیں، ’ٹیلنٹ ہنٹ شوز ایک پلیٹ فارم ہیں نہ کہ روزگار کی ضمانت، شو کا کام ٹیلنٹ دکھانا ہے۔ ٹیلنٹ اور مواد دونوں چیزیں ہیں۔ لیکن پہلا فلٹر ٹیلنٹ ہے۔ دوسرا فلٹر یہ ہے کہ کون کہاں سے آرہا ہے۔ جدو جہد سے منزل تک جانے والی کہانیاں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ مائیک اور کیمرہ رشوت نہیں لیتے۔ میری کہانی خوفناک ہے، لیکن میری آواز خراب ہے، تو کیا میں ریئیلٹی شوز میں گا سکتی ہوں؟
 
سوشل میڈیا پر ریئیلٹی شوز کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے کہ اگر کوئی مقابلہ کرنے والا غریب نہیں یا غربت اور جدوجہد کی کہانی والا ہے تو وہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔
 
موسیقار انو ملک جو کئی ریئیلٹی شوز میں جج رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ ’12 سالہ خوبصورت گلوکارہ دنیشوری، جس کے والد آٹو چلاتے ہیں یا پنجاب کے ایک گاؤں کا ایک یتیم لڑکا۔ یہ کہانیاں من گھڑت نہیں، حقیقی ہیں۔ یہ اس لیے سامنے لائے جاتے ہیں کیونکہ اس سے عوام کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ پیغام جاتا ہے کہ اگر انسان میں فن ہے تو وہ ہر حال میں آگے بڑھ سکتا ہے‘۔
 
image
 
زیادہ اہم کیا ہے۔۔ صلاحیت یا جدوجہد کی کہانی؟
’مٹی کو اتنی مضبوطی سے پکڑنا کہ زمین پھسل نہ جائے، بھلے ہی کتنا بڑا طوفان کیوں نے آ جائے‘۔ ’ماں، میں رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگا تھا لیکن جب آؤں گا تو اپنے ساتھ روشنی لے کر آؤں گا‘۔
 
کھانا ڈیلیور کرنے والے ڈیبوائے داس ’انڈیاز بیسٹ ڈانسر‘ ریئیلٹی شو شوٹ سے پہلے اپنی شناخت ظاہر کرنے میں ہچکچاتے تھے لیکن شو میں ڈیبوائے کی کہانی بھی دکھائی گئی اور اوپر لکھی گئی سطریں بھی ڈیبوائے نے ہی بولی تھیں۔
 
ہمیں پتہ چلا کہ کیا یہ سطریں کریئٹیو ٹیم نے لکھی ہیں؟ شو سے وابستہ لوگوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کئی بار شو میں شامل لوگ خود اتنا اچھا سوچتے یا لکھتے ہیں کہ انھیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
 
ٹیرنس لیوس جو کئی ڈانس ریئیلٹی شوز میں جج رہ چکے ہیں نے کہا کہ کریئٹیو ٹیم یہ خیال رکھتی ہے کہ اگر کسی شخص کا جذباتی سفر یا جدو جہد رہی ہو تو اس کے کردار کا خاکہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن لوگوں کو ڈانس کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے نہ کہ کہانی کی بنیاد پر۔ منتخب لوگوں کی کہانی پر تخلیقی ٹیم نے تحقیق کی ہے۔ کبھی کبھی جذباتی نہیں، مضحکہ خیز کہانی بھی ہوتی ہے۔
 
اگر کوئی غریب نہیں ہے یا کسی کے ماں باپ فوت نہیں ہوئے ہیں تو جھوٹ نہیں بولا جائے گا کیونکہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ پکڑے جائیں گے۔ کہانی سچی ہونی چاہیے۔ لیکن اس سے اس طرح پوچھا جاتا ہے کہ کہانی اچھے انداز میں سامنے آئے۔
 
جو لوگ جدوجہد نہیں کرتے لیکن بہت با صلاحیت ہوتے ہیں، کیا ایسے لوگوں کے پاس کہانیاں نہیں ہیں یا وہ ریئیلٹی شوز میں زیادہ دکھائے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟
 
انو ملک نے کہا کہ ’وہ بچے بھی آگے بڑھتے ہیں، اب اگر کوئی اچھے گھر میں پیدا ہوا تو ہم تھوڑا سا انکار کر دیں گے۔ یا یہ بھی ہوا ہے کہ کسی کی کہانی بہت چلتی تھی، لیکن وہ قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ آخر میں، صرف فن آپ کو آگے لے جائے گا۔
 
ٹیرنس لیوس کہتے ہیں کہ ’مجھے جج کی کرسی دی گئی ہے۔ میں ایک انسان کی حیثیت سے ان کہانیوں کو محسوس کر سکتا ہوں، جج کے طور پر نہیں۔ کیونکہ یہ ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو قابل ہوں لیکن کہانی جذباتی نہ ہو۔
 
دیبوائے داس 'انڈیاز بیسٹ ڈانسر' شو میں نہیں جیت سکے۔ لیکن ان کی جدوجہد کی کہانی کے ساتھ ویڈیو یوٹیوب پر لاکھوں ویوز لے رہی ہے۔ آنسو ٹھیک ہیں۔ لیکن جو لطیفے ریئیلٹی شوز میں بنائے جاتے ہیں، ان کے لیے ہنسی پہلے ہی طے شدہ ہے؟
 
ٹیرنس کا کہنا ہے کہ ’ہم پر جو لطیفے سنائے جاتے ہیں، وہ لکھے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا مضحکہ خیز ہوگا لیکن ہمیں حصہ لینا ہوگا۔ کامیڈی کسی حد تک سکرپٹڈ ہوتی ہے‘۔ کئی بار ریئیلٹی شوز میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اچانک جذباتی ردعمل کو ریکارڈ کرنے کے لیے کیمرے موجود ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انو ملک چینل کے کیمروں کے ساتھ آٹو ڈرائیور کی گلوکارہ بیٹی دنیشوری کے گھر بھی گئے تھے۔
 
image
 
کیا ووٹنگ سسٹم ٹھیک کام کرتا ہے؟
انو ملک کا کہنا تھا کہ ’ریئیلٹی شو میں جو کچھ ہوتا ہے وہ کیمرے میں ریکارڈ ہوتا ہے۔ اگر میں شو میں کہتا ہوں کہ میں دنیشوری کے گھر جاؤں گا، تو وہ (کریئٹیو ٹیم) کہتے ہیں کہ کیمرہ آپ کا پیچھا کرے گا۔ تاکہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے کہا اور آپ گھر بھی گئے۔ یہ عوام کو دکھانا چاہیے۔ اس صورت میں کیمرہ اپنا کام کرے گا کریئٹیو ٹیم کی طرف سے کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔
 
زیادہ تر ریئیلٹی شوز میں جیتنے والوں کا انتخاب ووٹنگ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
 
سنہ 2007 میں انڈین آئیڈل 3 دارجلنگ میں رہنے والے ایک انڈین نیپالی گلوکار پرشانت تمانگ نے جیتا تھا۔ تب پرشانت تمانگ کو سات کروڑ ووٹ ملے تھے۔ پرشانت نے میگھالیہ کے امیت پال کو شکست دی تھی۔
 
اس ووٹنگ کا اثر یہ ہوا کہ جیسے ہی شو میں فاتح کا اعلان ہوا، شیلانگ میں نیپالیوں پر حملے شروع ہو گئے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں پانچ افراد زخمی بھی ہوئے۔
 
ووٹنگ کا بازار کبھی اتنا بڑا تھا کہ اس سے کروڑوں روپے کمائے جاتے تھے۔ ریئیلٹی شوز پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جیتنے والوں کا انتخاب صرف ووٹنگ کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔
 
اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف مقابلہ کرنے والے ہی پیسے کی طاقت کا استعمال کرکے اپنے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس سے جو حقیقی صلاحیت آتی ہے وہ پیچھے رہ جاتی ہے۔
 
آشیش گولوالکر کہتے ہیں، ’چینلوں میں ایسے آڈیٹرز ہیں جو نتائج کا آڈٹ کرتے ہیں۔ کوئی کسی پر احسان نہیں کر سکتا۔ کسی کو کامیاب کروانے سے کوئی فائدہ نہیں تو یہ کام کوئی کیوں کرے گا؟
 
image
 
کتنی صلاحیت اور کتنی کہانی
ایسا نہیں ہے کہ ریئیلٹی شوز میں جیتنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ جو لوگ ریئیلٹی شوز میں نہیں جیت پاتے انھیں بھی کامیابی یا پہچان ملتی ہے۔
 
انو ملک کا کہنا ہے کہ ’جیت ووٹ اور قسمت پر منحصر ہے۔ جس کو زیادہ ووٹ ملے، وہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ انڈین آئیڈل، سا رے گا ما پا جیسے پلیٹ فارم کی وجہ سے کتنے لوگوں کو پہچان مل رہی ہے۔ کتنے لوگ ان شوز کی وجہ سے روٹی کمانے کے قابل ہیں۔
 
ووٹنگ میں ایک اہم پیرامیٹر مہم میں بھی ہے، جس میں ایک مدمقابل کی مقامی شناخت کو اچھی طرح سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ چینل کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ حریف امیدوار کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔
 
کچھ عرصہ پہلے منور فاروقی نے کنگنا رناوت کی میزبانی میں ہونے والے شو ’لاک اپ‘ میں اپنی ڈونگری شناخت کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا تھا۔ یہ شو بھی منور نے جیتا تھا۔
 
اس طرح کی پہچان کے فوائد پر، ٹیرنس لیوس کہتے ہیں، ’کچھ ریاستوں میں لوگ بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر لوگ شمال مشرقی، بنگال، گجرات یا کسی چھوٹے شہر سے آتے ہیں، تو وہاں کے لوگوں پر فخر محسوس کرتے ہیں اور بھرپور طریقے سے ووٹ دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا ملک جذباتی ہے اس لیے لوگ کئی بار صحیح لوگوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔
 
ہم جانتے ہیں کہ اس ملک میں ووٹنگ بہت متعصبانہ ہے۔ کئی بار میں ٹی وی والوں سے لڑتا ہوں کہ جج فاتح کیوں نہیں چنتے، عوام کیوں چنتی ہے؟
 
بیرون ملک جج فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر ہم ایک قابل آدمی کو جتواتے ہیں، اس بات پر نہیں کہ کون کس ریاست کا ہے یا کس کی ماں کا خواب تھا۔
 
image
 
ریئیلٹی شوز میں ججز کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے اور انھیں کتنی تنخواہ ملتی ہے؟
جب بھی کوئی ریئیلٹی شو بنایا جاتا ہے تو ججز اور میزبان کا انتخاب شروع سے آخر تک اہم ہوتا ہے۔ لیکن یہ انتخاب کیسے ہوتا ہے اور اس کے لیے کتنی رقم دی جاتی ہے؟
 
آشیش گولوالکر کا کہنا ہے کہ ’ہر شو کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے۔ جب ہم نے ڈانس انڈیا ڈانس بنایا تو متھن چکرورتی کا انتخاب کیا گیا۔ کیونکہ ان کے پاس رقص کی میراث ہے، ان کے پاس جدوجہد کی کہانی بھی ہے۔ ہم نے انھیں گرینڈ ماسٹر بنایا۔
 
ججز کا انتخاب کرتے وقت بجٹ بھی اہم ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی جج کا انتخاب کیا جا رہا ہے تو صرف یہ اہم نہیں ہے کہ وہ اس شو میں جج بننے کے قابل ہے یا نہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ یہ بجٹ میں آرہا ہے یا نہیں؟
 
ایک ریئیلٹی شو میں جج ایک ایپی سوڈ کے لیے کئی بار کروڑوں روپے لیتے ہیں۔
 
ٹی وی انڈسٹری سے وابستہ ایک شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اگر آپ سلمان، شاہ رخ، امیتابھ بچن جیسے اے لسٹ سٹارز کی بات کریں تو ان کی فیس بہت زیادہ ہے۔ ایک شو پیش کرنے پر ایک مشہور اینکر کو 25 ہزار سے ڈھائی کروڑ روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کی کوئی حد نہیں ہے۔
 
لیکن کیا اتنی رقم لگانے کا کوئی فائدہ ہے؟
اس شخصیت کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی منافع نہیں ہوا تو یہ شوز بند ہو جائیں گے۔ جس بھی شو کے دو سے زیادہ سیزن ہوئے ہوں، سمجھ لیں کہ وہ تمام شوز منافع میں ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں ٹی وی کے سامعین میں کافی کمی آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ فونز اور او ٹی ٹی کی ترقی ہو رہی ہے۔
 
ٹی وی میں کام کرنے والے ایک جونیئر پروڈیوسر کا کہنا تھا کہ ٹی آر پی نیچے جا رہے ہیں۔ ٹی وی کے سامعین بھی کم ہو رہے ہیں کیونکہ نیوز چینلز سیریل یا شوز سے زیادہ ڈرامہ دکھا رہے ہیں اس لیے لوگ وہاں شفٹ ہو رہے ہیں۔ اصلی ریئیلٹی شوز وہیں ختم ہو چکے ہیں۔
 
image
 
ججز کے ردعمل کتنے حقیقی ہوتے ہیں؟
ارچنا پورن سنگھ کی ہنسی، نوجوت سنگھ سدھو کی 'ٹھوکو تالی' اور نیہا ککڑ کے آنسو۔ ریئیلٹی شوز کے ججز کے ردعمل بھی زیر بحث آئے۔
 
آشیش گولوالکر کہتے ہیں، ’ایک شو کی شوٹنگ کئی گھنٹے تک ہوتی ہے۔ جو آپ دیکھتے ہیں وہ اس کا چھوٹا ترمیم شدہ ورژن ہے۔ اگر آپ نے کسی کو روتے ہوئے دیکھا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ وہ اچانک رو پڑا ہو۔ اس کا ایک عمل ہے۔ بدقسمتی سے آپ اس عمل کو نہیں دیکھ سکتے لہٰذا آپ کو لگتا ہے کہ وہ ابھی روئی تھی اور اب وہ دوبارہ رو رہی ہے۔
 
اکثر ججز کی لائنیں بھی وائرل ہو جاتی ہیں۔ پھر چاہے وہ ہمیش ریشمیا کا کہنا ہو 'مجھے آپ کے گھر میں روٹی چاہیے' یا متھن چکرورتی کا 'کیا بات، کیا بات، کیا بات'۔
 
انو ملک کی ایک لائن 'آگ لگا دے گا' بھی زیر بحث ہے۔ میں نے انو ملک سے پوچھا کہ جب آپ نے یہ سطر 'آگ لگا دے گا' کہی تو کیا یہ کرییٹیو ٹیم نے لکھی تھی یا یہ آپ کا اپنا اصل ردعمل تھا؟
 
انو ملک نے کہا کہ ’جو چیزیں میری ہیں، وہ میری ہیں۔ جو باتیں دل سے نکلتی ہیں وہ میری ہیں۔ جب یہ لمحہ آیا تو اچانک میں نے کہا 'آگ لگا دے گا' تخلیقی ٹیم نے کہا کہ یہ حیرت انگیز اور کچھ نیا ہے۔ لیکن کئی بار ججز، ریئیلٹی شو کے میزبان کا غصہ اور مداخلت بھی سوالوں کی زد میں رہتی ہے۔ بگ باس کے میزبان سلمان خان ایسے ردعمل کے مشہور ہیں۔
 
بگ باس شو کے پروڈکشن سے وابستہ ایک شخص نے ہمیں بتایا، ’سلمان خود ایپی سوڈ دیکھتے ہیں اور ان کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ پھر سلمان کے ساتھ جو بحث ہوتی ہے وہ پوری ٹیم تیار کرتی ہے۔ جب وہ کسی مسئلے کو بار بار چھیڑتے ہیں تو وہ ان سے کہا جاتا ہے ۔ لیکن جب وہ بگ باس کے گھر کے ساتھیوں سے بات کر رہے ہیں تو یہ سب حقیقی ہے۔ ایشوز پیدا کیے جا سکتے ہیں، ردعمل نہیں۔
 
image
 
ریئیلٹی شو کے حقیقی ہونے پر سوال
انڈین آئیڈل کے خصوصی شو میں کشور کمار کے بیٹے امیت کمار بھی نظر آئے۔
 
امیت کمار نے شو کے بعد کہا کہ شو میں سب کو اچھا بولنے کو کہا جاتا ہے۔ پھر اس خبر پر بہت بحث ہوئی اور اس پر سونو نگم نے بھی کہا کہ امیت کمار سادہ آدمی ہیں، اس معاملے کو چینل اور امیت کمار سے بات کرکے حل کیا جانا چاہیے۔
 
تاہم بعد میں امیت کمار ایک بار پھر انڈین آئیڈل میں نظر آئے۔ ہم نے امیت کمار، سونو نگم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کہانی لکھنے تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔
 
آشیش گولوالکر کہتے ہیں، ’اگر آپ جیسا ہے، ویسا لینا چاہتے ہیں، تو ایک ہی طریقہ ہے کہ ایک دستاویزی فلم بنائی جائے۔ ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ریئیلٹی شو بناتے ہیں نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے۔ اگر امیت کمار جی سے کہا جاتا کہ سب کی تعریف کرو تو انھیں یہ نہ کہا جاتا کہ ایک کی تعریف کرو، ہر کسی کا جوش برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
 
image
 
پرانے ریئیلٹی شوز
شو 'بوگی ووگی' کے جج رہنے والے جاوید جعفری نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'بوگی ووگی کا کوئی سکرپٹ نہیں تھا۔ ہم فلو کے ساتھ جاتے تھے۔ پھر اس طرف توجہ نہیں تھی کہ کوئی امیر ہے یا غریب۔ لیکن آج کل کے ریئیلٹی شوز ایسے ہیں کہ آپ میری پیٹھ کھجاتے ہیں، اور میں آپ کی۔ بعض اوقات باتیں بہت من گھڑت ہوتی ہیں لیکن جو اہل ہیں وہ ضرور آگے آئیں گے۔
 
ٹیلنٹ ہنٹ شو کے علاوہ ریئیلٹی شو بگ باس زیادہ تر تنازعات کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ اس شو میں جو لڑائیاں اور پیار نظر آرہے ہیں وہ سب سکرپٹڈ ہیں۔
 
ایسی ہی ایک لڑائی کا بہت چرچا ہوا، جس میں ڈولی بندرا نے چیختے ہوئے کہا تھا-’ اوئے باپ پر نہیں جانا‘۔
 
بگ باس شو کی پروڈکشن ٹیم کا حصہ رہنے والے ایک شخص نے کہا ’عوام کو وہی دکھایا جاتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لڑائی تو دکھائی جاتی ہے لیکن اس کے فوراً بعد ہونے والا تصفیہ نہیں دکھایا جاتا۔
 
انھوں نے کہا، ’گالی گلوچ ، لڑائی، محبت کچھ بھی من گھڑت نہیں ہے۔ شو کے شرکا کو اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سب کی طرح یہ لوگ بھی پچھلے سیزن دیکھ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ عوام کو کیا پسند ہے۔ 24 گھنٹے کی ریکارڈنگ سے ایک گھنٹے کا ایک ایپی سوڈ نکالا جاتا ہے، جو آن ائیر ہوتا ہے۔ تو صرف مسالہ دکھایا جاتا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: