یونیورسٹی میں بھی میرے پاس کمپیوٹر نہیں تھا٬ پاکستانی انجینیئر جس کی بدولت آج دنیا انٹرنیٹ پر ویڈیوز دیکھ رہی ہے

image
 
وقار ضیا کو ایک روز ان کے سابقہ کولیگز (ساتھیوں) نے بتایا کہ جس کام پر اُن سب نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ محنت کی، اسے بالآخر ناصرف تسلیم کر لیا گیا ہے بلکہ اعزاز بھی دیا گیا ہے۔
 
ان کے لیے یہ باعث فخر اس لیے بھی تھا کیونکہ وہ اس دوران پاکستان کی نمائندگی کرنے والے واحد شخص تھے۔
 
’ہمارے کام کو اتنے برسوں تک کوئی اعزاز نہیں ملا تھا، اس لیے میں نے یہ فیلڈ اور نوکری چھوڑ دی تھی مگر جب پرانے دوستوں نے ایوارڈ کا بتایا تو میں حیران ہوا۔‘
 
یہ وہ کام تھا جس نے ویڈیو سٹریمنگ کی دنیا میں انقلاب برپا کیا یعنی چاہے آپ ٹک ٹاک پر کوئی وائرل ویڈیو دیکھیں، زوم پر ویڈیو کال کریں، یوٹیوب پر لیکچر سُنیں یا نیٹ فلکس پر اپنے پسندیدہ شو یا فلم سے محظوظ ہوں، اس تحقیق نے اتنے وسیع پیمانے پر یہ سب ممکن بنایا۔
 
دراصل وقار نے انجینیئرز کی اس ٹیم کے ساتھ کام کیا تھا جس نے دنیا بھر میں صارفین کے لیے ویڈیو سٹریمنگ کو آسان اور تیز بنایا۔
 
سنہ 2000 کی دہائی کے اواخر تک موبائل یا کمپیوٹر پر ویڈیو چلانے میں مشکلات پیش آتی تھیں۔
 
انٹرنیٹ کی رفتار میں اتار چڑھاؤ ہونے پر ویڈیو چلتے چلتے رُک جایا کرتی تھی یا اس کی بفرنگ میں ضرورت سے زیادہ انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کوئی ویڈیو چل بھی پڑتی تو اس کی کوالٹی گِر جاتی۔
 
اس کے حل کے لیے 2009 میں گوگل، مائیکروسافٹ، ایپل اور دیگر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے مل کر ویڈیو سٹریمنگ میں نئے سٹینڈرڈ (معیار) پر کام کرنا شروع کر دیا جنھیں 2012 میں متعارف کروایا گیا۔
 
آج ’ڈیش‘ سٹینڈرڈ، انٹرنیٹ پر آن ڈیمانڈ ویڈیو اور لائیو سٹریمنگ کا عالمی معیار تصور کیا جاتا ہے۔
 
یہ ٹیکنالوجی کسی بھی ویڈیو کو کمپریس کر کے اسے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور مختلف کوالٹیز میں سرور میں محفوظ کر لیتی ہے۔ پھر سٹریمنگ کے دوران صارف کے انٹرنیٹ کی رفتار کو بھانپ کر کوالٹی میں ردوبدل کیا جاتا ہے تاکہ ویڈیو بغیر رُکے چلتی رہے۔ یوں آپ کا موبائل سلو انٹرنیٹ پر بھی عمدہ کوالٹی کی ویڈیو چلا پاتا ہے۔
 
بعض اندازوں کے مطابق آج کے دور میں انٹرنیٹ ٹریفک کا نصف سے زیادہ حصہ ویڈیوز پر محیط ہے جس میں صارفین یوٹیوب، ٹک ٹاک، نیٹ فلکس اور دیگر سٹریمنگ ویب سائٹس پر روزانہ گھنٹوں صرف کرتے ہیں۔
 
وقار کے مطابق یہ سب ’ڈیش‘ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ وہ ان محققین میں شامل ہیں جنھیں اس خدمت پر 2022 میں ٹیکنالوجی کے ایمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
 
image
 
’یونیورسٹی کے تیسرے سال تک میرے پاس کمپیوٹر نہیں تھا‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے وقار بتاتے ہیں کہ بچپن میں ان کے رشتہ دار کہا کرتے تھے کہ یہ بچہ کھلونوں سے کھیلتا نہیں بلکہ انھیں توڑ دیتا ہے، یہ انجینیئر بنے گا۔ ’جب کسی کھلونے کو دیکھتا تھا تو مجھے یہ تجسس رہتا تھا کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔‘
 
جب انھوں نے سنہ 1996 میں یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) ٹیکسلا میں الیکٹریکل انجینئیرنگ میں داخلہ لیا تو اس وقت ان کے گھر میں کوئی کمپیوٹر نہیں تھا۔
 
وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ اس دور میں کمپیوٹر اور سافٹ ویئر سے متعلق یونیورسٹی میں بھی وسائل کی کمی ہوتی تھی۔ ’ہمارے ہوتے ہوئے وہاں ایک کمپیوٹر لیب قائم کی گئی اور آخری سال میں ہمیں (کمپیوٹر پروگرامنگ) کا تجربہ ملا۔‘
 
وقار یاد کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کے تیسرے سال تک ان کے پاس کمپیوٹر نہیں تھا مگر انٹر کے دور میں ’میرے پاس پروگرام ایبل کیلکولیٹر ہوا کرتا تھا جس پر میں گیمز پروگرام کرتا تھا۔‘
 
یونیورسٹی کے آخری سال کے دوران ان کی سافٹ ویئر پروگرامنگ میں دلچسپی بڑھی جس کے بعد انھوں نے جرمنی میں انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن سسٹم میں ماسٹرز کیا۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ ’پی ایچ ڈی کے بعد ایک پروفیسر نے بتایا کہ ایسی ویڈیو سٹریمنگ لانے پر کام ہو رہا ہے جو لوڈنگ یا بفرنگ میں زیادہ وقت نہ لگائے کیونکہ انٹرنیٹ کی رفتار اوپر نیچے ہونے سے ویڈیو پھنس جاتی تھی۔‘
 
انٹرنیٹ کی بڑی کمپنیوں کے ماہرین کی ایک ٹیم نے ’ڈیش‘ نامی ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا، جسے آسان لفظوں میں ویڈیو پروگرامنگ کی متفقہ زبان کہا جا سکتا ہے۔
 
اس کے لیے مائیکرو سافٹ، نیٹ فلکس، ایپل اور دیگر بڑی کمپنیوں نے سر جوڑ لیے۔ وقار نے خود اس کام کے لیے ایل جی، کوال کوم اور ایپل جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نمائندگی کی۔
 
سنہ 2010 سے 2020 کے دوران وقار بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ اڈیپٹو سٹریمنگ پر ریسرچ میں کام کرتے رہے ہیں اور آج کل وہ جرمنی میں ٹیکنالوجی کمپنی ایپل میں بطور سٹینڈرڈ لیڈ کام کر رہے ہیں۔
 
ان انجینیئرز نے ویڈیو سٹریمنگ تیز کیسے بنائی؟
وقار بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر ویڈیو سٹریمنگ تیز بنانے کے لیے سوچ میں نمایاں تبدیلی کی گئی۔ ان کے مطابق پہلے سرور سٹریمنگ کے لیے ویڈیو رسیور کی طرف دھکیلتا تھا۔ اس میں یہ مشکل پیش آتی تھی کہ راؤٹر اس منتقلی کو بلاک کر دیتے تھے جبکہ سرور کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ویڈیو چلانے والی ڈیوائس کے پاس اچھا انٹرنیٹ ہے یا بُرا۔
 
’ہم نے اس سوچ کو الٹ دیا۔ بجائے اس کے کہ سرور رسیور کو ویڈیو بھیجے، ہم نے طے کیا کہ رسیور سرور سے ویڈیو کھینچے گا۔ اس طرح رسیور کو معلوم ہو گا کہ ڈاؤن لوڈنگ کی کتنی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی راؤٹر اسے بلاک کر پائے گا۔‘
 
وہ بتاتے ہیں کہ ڈیش ٹیکنالوجی سے ویڈیو کمپریشن کی صلاحیت بھی بڑھی جو زیادہ سے زیادہ ویڈیو و آڈیو سٹینڈرڈ کو سپورٹ کرتی تھی۔
 
image
 
’ٹیکنالوجی ریسرچ میں پاکستانی کم ہیں‘
وقار کے مطابق ٹیک کمپنیوں کو معلوم تھا کہ مستقبل میں انٹرنیٹ ٹریفک کی اکثریت ویڈیوز کی طرف جائے گی اور اسی لیے ڈیش سٹینڈرڈ کو پاپولر بنانے میں کافی محنت کی گئی۔
 
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’2010 سے 2020 تک میں نے اس ٹیکنالوجی پر کام کیا اور اس وقت مجھے نہیں لگتا تھا کہ ہمیں کوئی ایوارڈ دیا جائے گا۔ یوٹیوب سمیت دیگر کمپنیوں نے اسے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا مگر مجھے افسوس رہتا تھا کہ اس پر ہمیں داد نہیں دی گئی۔‘
 
یہاں تک کہ انھوں نے اپنا شعبہ اور نوکری بھی تبدیل کر لی۔ پھر انھیں اچانک یہ خبر ملی کہ اس کاوش کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایمی ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ اُن کا نام بھی ماہرین کی اس فہرست میں شامل ہے جنھوں نے اس سلسلے میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔
 
وقار کہتے ہیں کہ بیرون ملک ٹیکنالوجی ریسرچ میں دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان کی نمائندگی کافی کم ہے۔
 
’مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں دس سال تک جب میں ریسرچ میں کام کر رہا تھا تو مجھے پاکستانیوں کی طرف سے یہی مشورہ سننے کو ملتا تھا کہ اس فیلڈ سے نکل جاؤ، اس میں گروتھ نہیں۔‘
 
انھیں کہا جاتا تھا کہ ’اگر اوپر جانا ہے تو سیلز اور مارکیٹنگ جوائن کرو۔‘
 
ان کی رائے میں وہ خوش قسمت رہے کہ وہ یہ مشورے نہیں مان سکے۔ ’مجھے بچپن سے ایسا کام کرنا تھا جس میں کچھ نیا ہو۔ ہاں، پیسہ بھی ضروری ہے لیکن وہ کام کریں جس سے آپ کو خوشی ملے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: