چین نے اپنے امن دوست رویوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ایک
مرتبہ پھر یوکرین تنازع کے پُرامن اور بات چیت کے ذریعے حل پر زور دیا
ہے۔اس حوالے سے تازہ ترین پیش رفت میں چینی صدر شی جن پھنگ نے اپنے یوکرینی
ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی سے ٹیلی فونک بات چیت میں چین یوکرین تعلقات اور
یوکرین بحران پر مفصل تبادلہ خیال کیا۔ شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ یوکرین
کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے چین کی آمادگی مستقل اور واضح ہے۔
یوکرین بحران کے بارے میں انہوں نے چین کے مستقل موقف کا اعادہ کرتے ہوئے
کہا کہ چین یوریشیائی امور پر اپنا خصوصی نمائندہ یوکرین اور دیگر ممالک
بھیجے گا تاکہ یوکرین بحران کے سیاسی حل پر تمام فریقوں کے ساتھ گہری بات
چیت کی جاسکے۔ زیلنسکی نے امن کی بحالی اور سفارتی ذرائع سے یوکرین بحران
کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرنے پر چین کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے سوشل
میڈیا پلیٹ فارم پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئےکہا کہ بات چیت طویل اور معنیٰ
خیز تھی ، جس سے دوطرفہ تعلقات کی ترقی کو مضبوطی سے فروغ ملے گا۔
اس بات چیت سے بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ چین یوکرین تعلقات اور یوکرین
بحران کے بارے میں چین کا موقف اور رویہ مستقل رہا ہے۔ چین نے اس مسئلے پر
ایک دور اندیش اور عملی رویہ اختیار کیا ہے اور مضبوط استحکام اور تسلسل کا
مظاہرہ کر رہا ہے، جسے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے۔یہ
بات بھی قابل تعریف ہے کہ یہ بات چیت چین کی جانب سے جنگ بندی اور جلد از
جلد امن کی بحالی پر زور دینے کی تازہ ترین کوشش بھی ہے۔ اس تنازع کے فوری
بعد سے،چین کی جانب سے یوکرین بحران کے سیاسی حل کو فروغ دینے کی کوششیں
کبھی نہیں رکی ہیں۔ چین نے "یوکرین بحران کے سیاسی تصفیے پر چین کا موقف"
کے عنوان سے ایک پوزیشن پیپر بھی جاری کیا ہے۔ اسی دوران ، چین نے روس اور
یوکرین سمیت تمام فریقوں کے ساتھ ساتھ فرانس ، جرمنی اور اٹلی جیسی یورپی
طاقتوں کے ساتھ موئثر رابطہ برقرار رکھا ہے ، جو تنازع کے پرامن حل کو فروغ
دینے کے لئے پرعزم ہیں۔ ان کوششوں میں چینی سربراہ مملکت کی سفارت کاری نے
ایک اہم محرک کا کردار ادا کیا ہے۔
درحقیقت، جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، روس اور یوکرین سمیت بہت سے ممالک کے
ساتھ ساتھ یورپ کے دیگر ممالک نے آہستہ آہستہ چین کے مجوزہ حل کو تسلیم یا
جزوی طور پر قبول کیا ہے.عالمی سطح پر ایسی آوازوں کی تعداد میں بھی اضافہ
ہو رہا ہے جو کہہ رہی ہیں کہ دنیا کو چین کی آواز سننی چاہیے۔اقوام متحدہ
کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور ایک ذمہ دار بڑی طاقت کی حیثیت سے چین کی
یوکرین بحران کے سیاسی حل کو فروغ دینے کی خواہش مخلص اور بے لوث ہے۔ چین
ہمیشہ امن، مذاکرات اور تاریخ کے دائیں جانب مضبوطی سے کھڑا رہا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ اس وقت روس اور یوکرین دونوں نے امن اور مذاکرات کو فروغ دینے کے
لیے چین کی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے اور فرانس اور جرمنی جیسی یورپی
طاقتوں کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے رہنماؤں کو بھی توقع ہے کہ چین امن اور
مذاکرات کو فروغ دینے میں بڑا کردار ادا کرے گا۔ چین نے ہمیشہ ایک معروضی
اور منصفانہ موقف پر عمل کیا ہے اور ایک بڑی طاقت کے طور پر اپنے کردار اور
ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے.
اس بات چیت کی روشنی میں ایک لحاظ سے ، یوکرین بحران کے سیاسی حل کو فروغ
دینے کا موقع ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اب اس موقع سے فائدہ اٹھانا لازم ہے
تاکہ مشترکہ طور پر بین الاقوامی برادری کے لئے امن کا دروازہ کھولا جا
سکے۔ چین کا ماننا ہے کہ پیچیدہ مسائل کا کوئی آسان حل نہیں ہے اور مذاکرات
اور مشاورت ہی واحد قابل عمل راستہ ہے۔ بات چیت کے ذریعے یورپ کے لیے طویل
مدتی امن اور استحکام حاصل کرنا بنیادی راستہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ حوصلہ
افزا بات یہ ہے کہ اس موقف کو زیادہ حمایت مل رہی ہے، اور امن مذاکرات پر
زور دینے والی قوتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں،یوں دنیا میں ایک پرامن معمار کے
طور پر چین کی ساکھ مزید نمایاں ہو رہی ہے۔
|