’’بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی
وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں
اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو
(غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور
اﷲ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اﷲ
کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اﷲ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔(التوبۃ،
9: 60) صدقہ فطر حکم خداوندی کی بنا پر واجب ہے اس کی ایک حکمت ادائے شکر
بھی ہے یہ خود اپنی ذات اور اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے اس شخص کے اوپر
واجب ہوتا ہے جو عید الفطر کے دن زندگی کی لازمی ضروریات کے علاوہ اتنے مال
کا مالک ہو جس پر زکاۃ واجب ہوجاتی ہے۔ (۲) ایک آدمی کا صدقہ فطر ایک کلو
چھ سو چھتیس گرام (1.636 kg) گیہوں یا اس کی قیمت ہوتا ہے یا جَو کشمش
کھجور میں سے تین کلو دو سو بہتر گرام (3.272Kg) یا اس کی قیمت ہے۔ (۳)
سعودی عرب کی قیمت کا لحاظ کرے، سعودی کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے رقم
نکالے پھر یہ رقم اپنے وطن بھی بھیج سکتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار ہیں یا
یہاں کے لوگ زیادہ ضرورت مند ہیں۔ رشتہ داروں کو دینے میں صلہ رحمی پر عمل
ہے۔ اور زیادہ ضرورت مند کو دینے میں اس کی غربت وجہ ترجیح ہے۔صدقہ فطر کس
شخص کو دینا چاہیے؟تو اس بارے میں مفتیانِ کرام کہتے ہیں صدقہ فطر کے
مصارِف وہی ہیں، جو زکوٰۃ کے ہیں، یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، اُنہیں
صدقہ فطر دے سکتے ہیں اور جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے، اُنہیں صدقہ فطر بھی
نہیں دیا جا سکتا۔ ماہ رمضان کے پروگرام میں سن رہی تھی مفتی سہیل امجدی
فرما رہے تھے کہ جتنی رقم صدقہ فطر میں ادا کرنا واجب ہو، اتنی رقم سے راشن
خرید کر کسی مستحق کو صدقہ فطر میں دے سکتے ہیں۔ یعنی کچھ لوگوں کے ذہن میں
ہوتا ہے کہ پیسیدیں ہاں پیسے کو زیادہ ترجیح ہے کیونکہ جس کو آپراشن دیرہے
ہوں ہوسکتا ہیاسے کوئی اور چیز ضرورت ہو۔صدقہ فطرکے وجوب کی دووجوہات ہیں
پہلی کہ اگرروزہ میں کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہے تودورہوجائے دوسرایہ کہ
غریبوں کوبھی عیدکی خوشیاں نصیب ہوسکیں۔صدقہ فطرکے فضائل ومسائل
(۱)سرکاردوعالم ﷺ نے ایک شخص سے کہا جاؤ گلی کوچوں میں اعلان کردو صدقہ
فطرواجب ہے(جامعہ ترمذی)(۲)جب تک صدقہ فطرادانہیں کیاجاتا تب تک روزہ آسمان
اور زمین کے درمیاں معلق(یعنی لٹکا)رہتا ہے(کنزالعمال)حضرت سیدناابن عباس
راضی اﷲ عنہا فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم نے اس لیے صدقہ فطر کا حکم دیا
کیونکہ فضول اور بے ہودہ کلام سے روزہ کی طہارت یعنی(صفائی)ہوجائے
اورمساکین کی خورش یعنی خوراک ہوجائے(سنن ابی داؤد)صدقہ فطران تمام
مردوعورت جو صاحب نصاب یعنی ان کا اپنا گھرکھانے پینے کا سامان سواری
(جانور،موٹرسائیکل یا گاڑی)کاریگروں کے اورزار خدمت کیلئے لونڈی،پہننے
کیلئے کپڑے،علم کا شوق رکھنے والوں کیلئے کتابیں (عالمگیری)کسی کے پاس
ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت یا رقم ہو اس کو
صاحب نصاب کہا جاتاہے صدقہ فطر کیلئے مقدارنصاب تو وہی ہے جو زکوۃ کیلئے ہے
فرق صر ف اتنا ہے کہ سال کے گزرنے اور مال کے بڑھنے کی شرط نہیں۔اسی طرح جو
چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں مثلاً گھریلو سامان جو روزانہ ضرورت میں نہیں آتا
تو انکی قیمت صدقہ فطر کو پہنچتی ہو تو اس وجہ سے صدقہ واجب ہوجاتا ہے زکوۃ
اور صدقہ فطرکے نصاب میں یہ فرق کیفیت کے اعتبار سے ہے (وقارالفتاویٰ)صدقہ
فطرواجب ہونے کیلے عاقل وبالغ ہونا شرط نہیں بچہ یا پاگل کا بھی صدقہ اس کا
سرپرست اداکرے گا (دارلمختار)مالک نصاب مرداپنی طرف سے اپنے بچوں چاہے وہ
صبح کوبھی پیدا کیوں نہ ہوا ہو نا بالغ اور پاگل کا صدقہ ادا کرے گا اگر وہ
خود صاحب نصاب ہیں توان کی جائیداد میں سے صدقہ دے گا (عالمگیری)۔ حضورنبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاصدقہ فطرروزہ دارکی بے کاربات فحش گوئی سے روزہ کو
پاک کرنے کیلئے اورمساکین کوکھانا کھلانے کیلئے مقررکیاگیاہے (ابوداؤد
اورابن ماجہ) نبی پاک ﷺ کے اقوال اورعمل کی روشنی میں علماکرام نے
عیدالفطرکے صدقہ کیلئے جووزن تحریر کیے ہیں ہرشخص کوچاہیے کہ وہ اپنی
استطاعت کے مطابق نماز عیدسے قبل صدقہ اداکردے صدقہ رمضان المبارک کے آخری
عشرہ میں دیاجاسکتاہے اورعیدنماز سے پہلے اداکردیناچاہیے اکثرعلماکرام کی
رائے ہے کہ اناج کے علاوہ قیمت بھی غرباکودی جاسکتی ہے جیساکہ خلیجی ممالک
میں مقیم حضرات اپنے ملک میں غریب بڑوسیوں یارشتہ داروں کو بھی بھیج سکتے
ہیں۔آخر میں اتنی التجا ہے کہ صدقہفطر ویسیبھی تو دینا ہے تو آخری روزہ
کایا عید کا انتظار ضروری نہیں ہوسکتا ہے آپکے دیئے صدقہ سے کسی کی ضرورت
پوری ہوجائے اس کے بچوں کے چہرے پر مسکان آجائے اور آخرت میں اسی مسکان س ے
آقائے مہرباں ہمیں دیکھ لیں تو ہمارا بگڑا کام بن جائے۔
|