افتخار مجاز۔ جو ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا

وہ دوستوں کا دوست تھا ، ہر محفل کی جان تھا ،وہ ادب اور صحافت کا انسائیکلو پیڈیا تھا ، ان کا حافظہ بلاکا تھا

جب بھی میرے دوستوں کا ذکر شروع ہوتا ہے تو افتخار مجاز کانام فہرست میں سنہرے لفظوں سے لکھا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ میرا دوست ہی نہیں بلکہ رہنما بھی ہے ۔ میری ان سے ملاقات کا سبب ایک کتاب ""کارگل کے ہیرو " بنی ۔ مجھے نہیں علم کہ میری یہ کتاب ان کے پاس کیسے پہنچی ۔لیکن ایک دن ان کی ایک کال مجھے بنک آف پنجاب میں موصول ہوئی ۔جہاں میں بطور میڈیا کوارڈی نیٹر ملازمت کررہاتھا وہاں میرے سنیئر مراتب علی شیخ صاحب تھے جو ڈائریکٹر پبلک ریلشنز حکومت پنجاب کے عہدے پر فائز ہونے کے بنا پر افتخار مجاز کے قریبی دوست تھے ‘ یہ رشتہ اس لیے استوار ہوا کہ افتخار مجاز پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر کے شعبہ کرنٹ آفیئر کے ہیڈ تھے، اس حیثیت سے وہ ادیب ‘ شاعراور سیاست دانوں کے بارے میں بے شمار معلومات رکھتے تھے ۔ ایک شام مراتب علی شیخ صاحب( جو بنک آف پنجاب میں چیف منیجر پبلک ریلیشنز کے عہدے پر فائز تھے اور براہ راست وہ میرے باس تھے۔) مجھے اپنے ساتھ لے کر بیڈن روڈ کے لاجز میں جا پہنچے ۔ یاد رہے کہ انہی لاجز میں اردو افسانہ نگاری کی عظیم شخصیت سعادت حسین منٹو اور سابق وزیراعظم پاکستان ملک معراج خالد بھی کبھی رہاکرتے تھے ۔ بہرکیف کراچی سے چندافراد لاہور تشریف لائے تھے جن کا تعلق پبلک ریلیشنز شعبے سے تھا ۔ چونکہ ہمارا اور افتخار مجاز کاتعلق بھی اسی شعبے سے تھا اس لیے زندگی میں پہلی مرتبہ ہم ایک ہی چھت کے نیچے جمع ہوئے اور پہلی ہی ملاقات ہمیں اس قدر قریب لے آئی کہ ایک وقت ایسابھی آیا کہ ہم روزانہ ٹیلی فون پر طویل گفتگو کرنے لگے ۔ چونکہ ہمارا دونوں کا مزاج بھی تقریبا ایک ہی جیسا تھااس لیے ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے میں زیادہ دقت محسوس نہ ہوئی ۔بلکہ یوں محسوس ہورہاتھا جیسے افتخار اور میں بہت پہلے سے دوست چلے آرہے ہیں ۔

ایک دن میں حسب معمول بنک آف پنجاب کے ہیڈ آفس( جو اس وقت 7 ایجرٹن روڈپر تھا) پہنچاتوکرسی پر بیٹھتے ہی افتخار صاحب کی کال موصول ہوئی ۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اتنی صبح ان کو مجھ سے بات کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ۔ جب ریسور کانوں کو لگایا تو انہوں نے جذباتی اندازمیں کہا۔ کل رات میں آپ کی کتاب "کارگل کے ہیرو " پڑھ رہا تھا رات کافی بیت چکی تھی ‘گھر کے تقریبا سبھی افراد سو چکے تھے ‘ سردیوں کی راتوں میں لحاف میں لیٹا ہوا کتاب پڑھنے میں مصروف تھا کہ اچانک خوشبو کاایک جھونکا میرے قریب سے گزرا ۔ یکدم مجھے خوشبو کا احساس ہواتو میں نے گردن اٹھا کر ارد گرد دیکھا کہ رات کے اس پہر کون اتنی خوشبو لگا کر میرے کمرے میں آیا ہے ۔ کوشش کی باوجود کمرے میں مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا ۔ شایدیہ مجھ پر خوشگوار حیرت کا اثر تھا کہ میں دیر تک خوشبو بھرے ماحول ہی میں کتاب پڑھتا رہا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس لمحے میری آنکھوں میں آنسو تھے ۔شاید یہ کسی شہید کی روح کا میرے کمرے سے گزر ہوا تھا ۔ افتخار مجاز نے مزید بتایا کہ صبح صبح فون کرنے کی وجہ یہ تھی ۔میرا تو دل کررہا تھا کہ میں رات کے اسی لمحے آپ کو اپنی جذباتی کیفیت سے آگاہ کروں لیکن میں ان خوشگوار لمحات کو صبح تک ہی محسوس کرتا رہا ۔ افتخار مجاز سے گہری دوستی کی بنیاد میری کتاب "کارگل کے ہیرو " بنی ۔ اس کے بعد یہ دوستی دن بدن مضبوط ہوتی چلی گئی اور ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ میری کتابوں کی رونمائی کے مستقل طور پر میزبان بن گئے ۔ اﷲ تعالی نے ان کو کمپیئرنگ کرنے ‘ شخصیات کا تعارف کروانے اور سٹیج پر گفتگو کرنے کا جو سلیقہ عطا کیا تھا وہ کسی عام شخص کے نصیب میں نہیں ۔میری فیملی کا ہر فرد ان سے والہانہ محبت کرنے لگا تھا بلکہ میری والدہ "ہدایت بیگم "جب بھی کتاب کی رونمائی کے موقع پر آڈیٹوریم میں تشریف لاتیں تو افتخار مجاز انہیں اپنی ہی والدہ تصور کرکے اتنی عزت دیتے کہ والدہ گھر پہنچ کر بھی ان کے لیے بے شمار دعائیں دیتیں ۔ افتخار مجاز سے دوستی اور محبت کا یہ رشتہ اس قدر استوار ہوا کہ ادب و صحافت کے لوگ ہمیں دوستوں کی بجائے بھائی ہی تصور کرنے لگے۔ اسی ناطے افتخار کے بڑے بھائی اعزاز احمد آذر کو میں اپنا بڑا بھائی ہی تصور کرتا تھا اور مجھے جب بھی ان کی ضرورت پڑتی تو وہ بھی اپنے مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کتاب کی رونمائی میں نہ صرف تشریف لاتے بلکہ کتاب پر بھرپور انداز میں گفتگو بھی کرتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری ایک کتاب شہدائے وطن کی تقریب رونمائی میں اعزاز احمد آذر صاحب نے شہید کی بہن کے عنوان کے تحت ایک انتہائی جذباتی پنجابی نظم ایسی پڑھی کہ سٹیج پر بیٹھے ہوئے افراد کے ساتھ ساتھ ہال میں موجود تمام لوگوں زار وقطار رو پڑے اور ان کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔

مجھے اچھی طرح یادہے کہ افتخار مجاز کی بدولت ہی ایک مرتبہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لاہور سنٹر میں میری کتاب "کارگل کے ہیرو "کا پروگرام ریکارڈکیا گیا اوربعد میں نشر ہوا تھا ۔اس پروگرام کے پروڈیوسر افتخار مجاز ہی تھے جبکہ اس پروگرام کی میزبانی اعزاز احمد آذرکے پاس تھی ۔گفتگو میں سیدوصی شاہ ‘ میں( محمد اسلم لودھی ) اور ایک اور شخصیت شامل تھی جن کا نام مجھے یادنہیں رہا ۔ یہ ٹی وی پروگرام میری زندگی کا یادگار پروگرام تھا جس کی ریکارڈنگ بھی شاید میرے پاس کہیں محفوظ ہوگی ۔ جو پاکستان ٹیلی ویژن کے اس وقت کی جنرل منیجر سلیمہ ہاشمی کی اجازت سے مجھے ملی تھی ۔

زندگی سدا ایک ہی رخ اور فتار سے نہیں چلتی ‘ درمیان میں کتنے ہی حادثات ایسے رونما ہوتے ہیں جو انسان کو غم اور پریشانی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبو دیتے ہیں ۔افتخار مجاز کی عظیم ماں کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوگئیں ۔میں تعزیت کے لیے جب ان کے گھر واقع علامہ اقبال ٹاؤن کے نظام بلاک گیا ۔گھنٹی بجتے ہی گھر کا دروازہ کھلا۔ میرے سامنے نحیف و نزار اور غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا افتخار مجاز کھڑا ہوا تھا ،جس کی آنکھوں میں اس لمحے آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کے ان کو گلے لگا لیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں حوصلہ دینے کی جستجو کی ۔ چند لمحوں بعد ہم دونوں ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے۔ اس وقت میرے ساتھ میری اہلیہ بھی تھی جو اس عظیم اور بے مثال ماں کی نا گہانی موت پر تعزیت کرنے کیلئے آئے تھے۔ جن کے فرزندوں میں سے ایک کا نام افتخار مجاز تھااور دوسرے کا نام اعزاز احمد آذر تھا ۔ افتخار کے بھائیوں کی صحیح تعداد کا تو مجھے علم نہیں لیکن میرا چونکہ براہ راست رابطہ اور واسطہ افتخار اور اعزاز سے ہی پڑتا تھا اس لیے میرے دلی جذبات کا انحصار انہی دونوں بھائیوں تک موجود تھا ۔

اس میں شک نہیں کہ افتخار ایک پر خلوص اور بے مثال شخص کا نام تھا ،اس سے دوستی کو آٹھ سال ہو چکے تھے، اس دوران میں نے انہیں ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے پیار کرنے والاانسان ہی پایا۔ اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹوں اور گفتگو میں چھپے ہوئے قہقہوں کو دیکھ کر میں ہمیشہ یہ دعا کیا کرتا تھا کہ خدایا افتخار کی ز ندگی میں کوئی لمحہ ایسا نہ آئے، جب میں اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھوں۔ میں نے افتخار کو شیخ زید ہسپتال میں بھی اس وقت مسکراتے ہی دیکھا جہاں وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر علاج کیلئے داخل تھے۔ مجھے جب اس کی بیماری کی خبر ملی تو اس لمحے ان کے ساتھ گزارے ہوئے محبت بھرے لمحات نے میری آنکھوں میں آنسو بھر دئیے ۔دل سے یہی دعا نکلی‘ اے خالق کائنات جب میں شیخ زید ہسپتال میں ان کے کمرے میں داخل ہوں تو وہ مجھے درد سے تڑتپا ہو انظر نہ آئے بلکہ مسکراہٹیں اور قہقہے جو ہمیشہ اس کی شخصیت کا حصہ رہتے تھے‘ فضا میں بکھیرتے نظر آئیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دل سے نکلی ہوئی دعا اثر رکھتی ہے، پھر جب میں ان کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچا تو حسب توقع افتخار بیڈ پر بیٹھا مسکراکے باتیں کر رہا تھا۔ اہلیہ اور بچے ان کے گرد اپنی محبت نچھاور کر رہے تھے۔ افتخار کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر میں نے رب کا شکر ادا کیا اور ان کی صحت یابی کیلئے ڈھیروں دعائیں دیں۔
.............
بہرکیف والدہ کے انتقال پرافتخار کی آنکھوں میں آنسودیکھ یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ آج اپنی عظیم ماں کو آنسوؤں کا خراج پیش کررہے ہیں۔ (بے شک ہم سب اﷲ کیلئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں)۔ سچ تو یہ ہے کہ ماں کا رشتہ بہت ہی انمول ہے۔ اولاد کو اگر کچھ ہو جائے تو ماں‘ بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتی ہے ،اگر ماں بیمار پڑ جائے تو اولاد بے چین ہو جاتی ہے۔ بظاہر تو دونوں کے جسم الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ماں، اولاد کو اپنے جسم کا حصہ ہی قرار دیتی ہے تخلیقی عمل کے دوران بچہ 9ماہ تک ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے، پھر جب دنیا میں آتا ہے تو ماں کی ہر ادا بلا شبہ بچے پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس طرح یہ واقعہ بھی زبان زد عام ہے کہ :
’’دنیا میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ چھوٹا سا ننھا منا سا! وہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آ کر بہت حیران ہوا۔ انوکھی دنیا‘ انوکھے لوگ‘ انوکھی باتیں! اس نے اپنے خالق سے سوال کیا کہ اے زمین و آسمان کے مالک خدا! میں اتنا چھوٹا سا ہوں کہ ہل جل بھی نہیں سکتا‘ کچھ بول نہیں سکتا‘ کچھ کر بھی نہیں سکتا‘ مجھے کسی کی بات سمجھ بھی نہیں آ رہی‘ میں کسی کو کچھ سمجھا نہیں سکتا۔ مجھے بتا کہ میں نے پہلو بدلنا ہو گا تو ایسا کیسے کر سکوں گا؟ جواب آیا کہ تم فکر نہ کرو‘ میں نے ایک فرشتہ بھیج دیا ہے وہ یہ سب کچھ کر دیا کرے گا۔ بچے نے پھر سوال کیا کہ میں کسی کو کچھ سمجھانا چاہوں گا تو کیسے سمجھا سکوں گا؟ آواز آئی کہ وہ فرشتہ تمہاری بات سمجھ کر آگے بیان کر دیا کرے گا۔ بچہ پھر بولا میں کسی کی بات نہیں سمجھ سکتا ۔لوگ میرے ساتھ باتیں کریں گے تو میں کیسے سمجھوں گا؟ جواب آیا کہ وہ فرشتہ یہ کام بھی کردے گا۔ بچے نے آخری سوال کیا کہ میرے خالق اب ایک مسئلہ باقی رہ گیا ہے کہ مجھے اس فرشتے سے کوئی بات کرنا ہو گی تو اسے کس نام سے پکاروں گا؟ جواب آیا ’’تم اسے ماں کہہ کر تو دیکھنا‘‘! وہ تم پر اپنی جان نچھاور کر دے گی۔

ماں دنیا کی ہر زبان کا خوبصورت ترین لفظ ہے ! جس کی مامتا نہ صرف زندگی کو جنم دیتی ہے ‘ بلکہ اسے رواں بھی رکھتی ہے ! دنیا میں مامتا نہ ہوتی تو انسانوں اور حیوانات کی زندگی آگے نہ بڑھ سکتی‘‘۔ جہاں ماؤں نے اشفاق احمد، میرزا ادیب، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی جیسے عظیم لکھنے والے پیدا کیے وہاں ماں نے افتخار مجاز اور اعزاز احمد آذر جیسے دوسروں کے دکھ بانٹنے والے اور محبتیں شیئر کرنے والے فرشتہ صفت انسان بھی پیدا کیے ہیں -افتخار کی والدہ بھی دنیا کی کسی ماں سے ممتا کی شدت اور ایثار و قربانی سے کم نہیں تھی۔

افتخار کی عظیم ماں گزشتہ چند سالوں سے صاحب فراش تھیں۔ ویسے بھی آخری عمر میں بڑھاپا سب سے بڑی بیماری بن جاتا ہے۔ بیماریاں رخ بدل بدل کے انسانی صحت پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ اولاد ہونے کے ناطے افتخار اور ان کے تمام بھائیوں‘ ان کی بیگمات اور بچوں نے ماں کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی ۔مجھے یاد ہے کہ افتخار جس کے پاس سواری تک نہیں تھی وہ پھر بھی وہ ہنستا مسکراتا پیدل، کبھی ویگن‘ پر کبھی بس پر گھر سے ٹی وی سینٹر اور یہاں سے گھر تک کا سفر ہر روزکیا کرتا ہے۔ اگر کوئی خلوص سے کسی فنکشن میں بلا لے تو وہ فاصلوں کو سمیٹتا ہوا اکثر اوقات پیدل ہی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ میں اس لیے بھی افتخار کا بے حد ممنون ہوں کہ میں نے جب بھی اور جہاں بھی اپنی کتاب کے فنکشن کا اہتمام کیا ۔افتخار مجاز تقریب میں آنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوتا تھا۔ ناگواری کی شکن میں نے کبھی اس کے ماتھے پر نہیں دیکھی اور نہ ہی اس نے کبھی مصروفیات کابہانہ بنا کر جان چھڑانے کی کوشش کی تھی۔میں سمجھتا ہوں اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے میرے پاس الفاظ ختم ہو جاتے ہیں لیکن افتخار مجاز کی محبتیں ، چاہتیں اور ایثار کبھی ختم نہیں ہوتا۔

بہر کیف والدہ کے انتقال پر جب میں اظہار تعزیت کیلئے افتخار مجاز کے دامن گیر ہوا تو مجھے ان کے گرم گرم سانسوں کے ساتھ ساتھ چند سسکیاں بھی محسوس ہوئیں۔ یہ سسکیاں کیوں نہ نکلتیں جس ماں کی کوکھ سے انہوں نے جنم لیا تھا ۔اسی کی محبت بھری آغوش میں شعور کی حالت کو پہنچا ۔سارا بچپن اس کے محبت بھرے آنچل میں گزارا۔ جوانی کی منزلیں اس کی دعاؤں کے سہارے نہایت پاکیزگی اور طہارت سے بسر کیں۔ شادی کا موقع آیا تو اپنی مرضی کی بجائے والدین کے فیصلوں کو ہی اپنے بہترین مستقبل کا ضامن پایا۔ آزمائش کے ہر مرحلے میں ماں کی دعاؤں نے اِرد گرد حصار قائم کیے رکھا۔ افتخار مجاز کی ہی زبانی میں نے یہ واقعہ بھی سنا کہ جب ڈاکٹروں نے انہیں انجیو پلاسٹی کروانے کی حتمی رائے دی تو وہ سخت پریشان ہوئے ۔ ابھی بائی پاس آپریشن کا فیصلہ نتائج کو دیکھ کرہی کیا جانا تھا۔

ایک تندرست انسان کیلئے ماہر ڈاکٹروں کی یہ رائے سخت پریشانی کا باعث تھیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق افتخار بڑی ہمت ، حوصلے اور جرأت کا مالک ہے۔ بحیثیت انسان اس صورت حال میں افتخار مجاز کیلئے بھی تشویش میں مبتلا ہونا ایک فطری امر تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے افتخار کو جہاں باقی رشتے بہت عظیم اور انمول عطا فرمائے ہیں، وہاں کھلے دل سے محبت کرنے والی بیوی بھی عنایت فرمائی ہے۔ جو بلاشبہ افتخار کی خوشیوں پر خوش ہوتی ہے اور ان کی پریشانیوں میں اپنا دکھ بھول کر انہیں حوصلہ فراہم کرتی ہے۔

ابھی انجیو گرافی کیلئے دن اور وقت کا تعین ہونا باقی تھا ۔ نیک سیرت بیوی نے التجا بھرے لہجے میں افتخار سے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں اگر اﷲ کے مقرب بندے اور ولی کامل حضرت داتا گنج بخشؒ کے آستانے پر جا کر اﷲ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعا مانگی جائے تو ہو سکتا ہے ان جان لیوا مصیبتوں سے چھٹکارا مل جائے۔ افتخار چونکہ خود بھی حضرت داتا گنج بخشؒ سے والہانہ محبت کے ناطے پکی دوستی کا دعویٰ کرتا ہے اس لیے بیگم کی رائے کو پذیرائی بخشتے ہوئے وہ ایک دن ولی کامل حضرت داتا گنج بخش ؒ کے دربار عالیہ پر حاضر ہو گئے اور اپنی صحت یابی کیلئے دعا مانگنے کے ساتھ ساتھ نوافل بھی ادا کیے۔ بیگم کی ترغیب پر صدقہ خیرات بھی کیا۔ جب افتخار اور ان کی بیگم داتا دربار سے باہر نکل رہے تھے تو بیگم نے نہایت عاجزی سے مشورہ دیا کہ کیوں نہ متوقع انجیو پلاسٹی کے حوالے سے ماں جی کو بھی بتا دیا جائے۔ افتخار نے ابھی تک یہ منحوس خبر ماں سے اس لیے مخفی رکھی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کی تکلیف کا سن کر پریشان ہونگی لیکن بیگم کا اصرار تھا کہ جب ماں کو بیٹے کی تکلیف کے بارے میں علم ہو گا تو یقینا اُس کے ہاتھ دعاکیلئے اُٹھیں گے۔ ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ جب فرشتے خالق کائنات تک پہنچا ئیں گے تو پروردگار جو انسان کو خود ستر ماؤں جتنی محبت کا دعویٰ کرتا ہے وہ کس طرح ماں کی دعا کو رد کرے گا۔ بیگم کی بات دل کو لگی تو افتخار نے ماں کی قدم بوسی کے ساتھ ساتھ انہیں پیش آمدہ حالات کے بارے میں آگاہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ افتخار کے مطابق جب وہ ماں کے روبرو ماہر ڈاکٹر وں کی رائے بتا رہا تھا تو ماں کی زبان سے بے ساختہ الفاظ نکلے ’’افتخار تمہیں کچھ نہیں ہو گا‘‘۔ اﷲ تمہیں تتی (گرم) ہوا بھی نہیں لگائے گا۔ ماں کی دعا لے کر جب اگلی صبح افتخار‘ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی انجیو گرافی کیلئے پہنچا تو رزلٹ آنے پر ڈاکٹر حیران رہ گئے کیونکہ زندگی میں پہلی مرتبہ ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر صولت صدیق کی رائے غلط ثابت ہوئی تھی۔ یہ کیسے ہوا اس کے بارے میں تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ صدقہ خیرات نے مصیبت ٹالی یا ولی کامل حضرت داتا گنج بخش ؒ کی دعا نے اثردکھایا۔ یا ماں کے دل سے نکلی ہوئی دعا نے بیٹے کو اس موذی بیماری سے نجات دلادی۔ماں کی رحلت کے بعد افتخار مجھے یہ واقعہ سنا رہا تھے۔ تو اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اسلم لودھی صاحب ماں سے والہانہ محبت کے حوالے سے آپ ہر شخص کیلئے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔

22مارچ2005ء کو جب افتخار کی ماں کا انتقال ہوا تو مجھے افتخار کی شخصیت ریزہ ریزہ دکھائی دی۔ وہ افتخار نہیں تھا جو ہمیشہ ہوا کرتا تھا۔ آج اس کی گفتگو میں ماں کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ گھنٹوں ماں کی شفقت و ایثار بھری باتوں کا تذکرہ کرتا رہا۔ اس لمحے میں نے انہیں کہا کہ افتخار مائیں کبھی نہیں مرتیں بلکہ وہ تو ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ ماں کی دعائیں تو زندگی کی آخری سانس تک اپنے بچوں کے گرد حصار بنائے رکھتی ہیں۔ کسی نے ممتاز افسانہ نگار ممتاز مفتی کو وہم ڈال دیا کہ اس پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔ وہ ایک بزرگ کے پاس حاضر ہوا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ بزرگ کچھ دیر مراقبے میں رہے۔ پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمانے لگے کہ ممتاز مفتی صاحب تم پر کوئی جادو ٹونہ نہیں ہو سکتا ‘ تمہاری ماں کی دعاؤں نے تمہیں ہر طرف سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ میں نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ افتخار مجاز سے کہا تمہاری ماں فوت نہیں ہوئی، صرف آنکھوں سے اوجھل ہوئی ہیں۔ کیا تمہیں اس کے دامن کی خوشبو اپنے ارد گرد محسوس نہیں ہوتی ۔ماں تو اتنی شفیق ہوتی ہے کہ اس کی دعاؤں کا حصار تو اب بھی آپکے اِرد گرد قائم ہو گا۔ افتخار تم تو خوش نصیب ہو کہ آخری سانس تک تم نے ماں کی خدمت کی۔ وہ تم سے بے حد خوش تھیں اور روزِ محشر ماں کی زبان پر یہی الفاظ ہوں گے۔ افتخار تمہیں تتی وا نہ لگے۔ ماں کی زبان سے نکلی ہوئی دعا کا بھرم خالق کائنات بھی انشا اﷲ یقینی طور پر رکھے گا۔ کاش ماں سے تم جیسا محبت کرنے والا شخص ہر گھر میں پیدا ہو۔ جو روشنی کا مینار بن کے ہمارے معاشرتی اندھیروں کو اجالوں میں بدل دے۔

بہرکیف تمام مقدس رشتوں اور دوستوں سے محبت کرنے والا اور بات بات پر مسکرانے والے افتخار مجازکا دل تو پہلے ہی بے قابو تھا ،اس پر فالج نے بھی زور دار حملہ کردیا ۔وہ ویلنشیا ٹاؤن کے ایک کلینک میں بیماری کے ہاتھوں نڈھال لیٹا ہوا ہے ۔ پہلے اسے فالج کے مرض نے بے حال کیا ‘ ملاقات کے لیے جانے والے دوستوں نے بتایا کہ افتخار ہمیں دیکھ کر پہلے کی طرح مسکرایا اور یوں محسوس ہوا جیسے بیماری اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ افتخار ایک بار پھر فالج کی بیماری کو شکست دینے کے لیے اپنی جسمانی قوتوں کو اکٹھا کررہا تھا کہ اچانک دل کے مرض نے ایک بار پھر سر اٹھالیا جو بہت پہلے سے ان کو لاحق چلاآرہا ہے ۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے ریٹائر منٹ کے بعد افتخار کو میں نے اکثر خوبصورت لباس پہنے ہر ادبی محفل میں شریک ہوتے دیکھا ۔

شہزاد چودھری کی ادارت میں شائع ہونے والے ہر دلعزیز اور مقبول عام ہفت روزہ مارگلہ نیوز انٹرنیشنل اسلام آباد میں بھی افتخار مجاز کے سنجیدہ ، مزاحیہ اور طنزو مزاح پر مشتمل مضامین باقاعدگی سے آخری سانس تک شائع ہوتے رہے ۔جو یقین مارگلہ نیوز انٹرنیشنل اسلام آباد کے لیے بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ہو گا۔افتخار مجاز میرے دوست ہی نہیں بھائیوں سے بڑھ کر تھے ۔میں نے جب بھی ان سے کسی بات پر مشورہ مانگا انہوں نے اسی وقت میرے سامنے دلائل کے انبار لگا دیئے ۔ وہ حقیقت میں ان سائیکلوپیڈیا قسم کے انسان تھے ان کے ذہن میں پاکستان بھر میں شائع ہونے والے جرائد و رسائل محفوظ تھے ۔بیشک ایسا شخص دنیا میں بہت کم دیکھے گئے ہیں ۔ مجھے یاد ہے جب ان کے بڑے بھائی اعزاز احمد آذر کا انتقال ہو ا تو میں نے ان کی آنکھوں میں پہلی بار آنسو دیکھے ۔وہ میرے گلے لگ کر خوب روئے ۔ اعزاز احمد آذر ، افتخارمجاز کی وجہ سے میرے بھی بڑے بھائی تھے ، ان کی رحلت پر آنکھوں کے ساتھ ساتھ میرا بھی دل رو رہا تھا ۔ میں ان دونوں بھائیوں کو مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سے تشبیہ دیا کرتا تھا ۔ ماشا اﷲ بھائی تو انکے اور بھی ہیں لیکن ادب اور صحافت میں انہی دونوں بھائیوں کا خوب چرچا رہا ۔پاکستان ٹیلی ویژن کے جس ادبی پروگرام کے پروڈیوسر افتخار مجاز ہوتے اس پروگرام کی کمپئرنگ کے فرائض یقینی طور پر اعزاز احمد آذر ہی انجام دیتے ۔افتخاز مجاز نے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنے بھائی اعزاز احمد آزر کے حوالے سے دو کتابیں مرتب کی تھیں ۔جبکہ بہت عرصہ پہلے وہ خبریں کے ادارتی صفحے پر ہر دوسرے تیسرے کالم لکھا کرتے تھے ۔

میری سوانح عمری "لمحوں کا سفر "کے تو وہ عاشق تھے ، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ لودھی صاحب آپ کی یہ کتاب ادب و صحافت میں ہمیشہ زندہ رہے گی اور اپنے ساتھ آپ کو بھی زندہ رکھے گی ۔

میری ان سے آخری ملاقات برادرم سعید جاوید صاحب ( جو خود بھی بہت عظیم لکھاری اور محبت کرنے والے انسان ہیں) کی افطار پارٹی ہوئی جس کااہتمام انہوں نے ایم ایم عالم روڈ پر واقع ایک عالیشیان ہوٹل میں کررکھا تھا ۔افطار ڈنر میں افتخار مجاز کے علاوہ ممتاز ادیب اور ماہنامہ ارد ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر الطاف حسن قریشی ‘ ممتا ز شاعر اور ادیب امجداسلام امجد ‘ روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار ‘ خالد رسول ‘ ممتاز ادیب اختر عباس ‘ ممتاز مصنف سعید جاوید اور میں( محمد اسلم لودھی ) بھی شریک تھا ۔ یہ افطار ڈنر اس اعتبار سے یادگار قرار پایا کہ ایک ہی چھت کے نیچے تمام ممتاز ادیب اور شاعر جمع ہوئے اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ۔افتخار مجاز اس محفل کے ایک پھر دولہا تھے ان کی شگفتہ بیانی اور مزاحیہ گفتگو کا مزا اس محفل کے ہر شریک کار نے خوب لوٹا ۔

ناسازی طبع کی وجہ سے میں ان کی عیادت کے لیے ویلنشیا ٹاؤن تونہیں جاسکا لیکن ہر لمحے ان کی یاد دامن گیر رہتی ہے ‘ ہر صبح نماز تہجد کے وقت ان کی صحت یابی جب دعا کررہا تھا تو 3اپریل 2019ء کی صبح ایک منحوس خبر میرے کانوں میں سنائی دی ۔ کہ سب سے محبتیں کرنے والا اور ہر محفل میں قہقہوں کی برسات کرنے والا افتخار مجاز ہم سب کو چھوڑ کر ایک ایسے جہان میں جا بسے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔بیشک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کے پاس واپس جانے والے ہیں ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.