آرٹیفیشل انٹیلیجنس: کون سی نوکریوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے؟

image
 
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ’گاڈ فادر‘ کہلائے جانے والے جیفری ہنٹن نے اس کے بڑھتے ہوئے خطرات سے متعلق خبردار کیا ہے اور ساتھ ہی کاروباری ادارے ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ کیسے اس ٹیکنالوجی کو اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔
 
75 سالہ جیفری ہنٹن نے گوگل سے مستعفی ہونے کے بعد خبردار کیا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس چیٹ بوٹس انسانوں سے زیادہ ذہین ہو سکتے ہیں۔
 
کئی کاروباری اداروں کے سربراہان نے مجھے بتایا ہے کہ بورڈ میٹنگز میں اسی بات پر زور ہے کہ وہ کیسے جلد از جلد چیٹ جی پی ٹی کی طرز کی ٹیکنلوجی کو اپنے کاروبار میں استعمال کر سکتے ہیں۔
 
چند ہفتے قبل میں برطانیہ کی ایک بڑی کمپنی کے سربراہ سے ملا۔ اس نے چیٹ جی پی ٹی پر ایک کسٹمر کی شکایت کا متن ڈالا اور موقع پر ہی کچھ اصول چیٹ جی پی ٹی میں درج کر دیے، اور پھر اس آرٹیفیشل انٹیلیجنس چیٹ بوٹ سے کہا کہ وہ ان اصولوں کے مطابق اس شکایت پر ردعمل دے۔
 
تقریباً ایک منٹ میں چیٹ جی پی ٹی نے بغیر کسی کوڈنگ کی ضرورت کے ایک ایسا جواب دیا جو قابل قبول ہو سکتا ہے۔
 
مجھے بتایا گیا کہ اس سب سے حاصل ہونے والا نتیجہ 85 فیصد درست تھا۔ اگر کال سینٹر میں بیٹھا کویی شخص اس شکایت کو حل کرتا تو وہ بہتر نتائج دیتا لیکن جو جواب چیٹ جی پی ٹی نے دیا، اس پر اس سے کئی کم لاگت درکار ہے جو سٹاف رکھنے پر آتی ہے۔
 
لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اس 15 فیصد پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے جو چیٹ جی پی ٹی سے رہ گیا تھا، سٹاف کی ضرورت ہوگی۔
 
لیکن یہ واضح ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے نوکریوں کو لاحق خطر ہ موجود ہے۔
 
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ماڈل فی الحال اگر ایک ذہین بالغ جتنی قابلیت نہیں رکھتے تو وہ دن دور نہیں کہ جب وہ اتنے قابل ہو جائیں گے، کیوں کہ وہ طاقتور ہو رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں پیش قدمی توقع سے زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے، اور اس مقام کی جانب گامزن ہے جہاں اس کو اپنانا کفایتی ہوگا۔
 
image
 
اس ٹیکنالوجی سے آنے والی تبدیلی اور اسے اپنانے کی رفتار کا مطلب ہے کہ رواں سال ہی معیشت اور ملازمتوں پر اس کے اثرات نظر آ سکتے ہیں۔
 
آرٹیفیشل انٹیلیجنس معیشت کے ان حصوں پر غلبہ حاصل کر سکتی ہے جن میں اب تک پیداوار میں بہتری کی گنجائش ہے کیوں کہ یہ ایسے شعبے ہیں جن میں بہتر پیداوار کے لیے وقت اور علم درکار ہے۔
 
ٹیکنالوجی ہماری زندگی کے معیار میں بہت زیادہ بہتری لائی ہے۔ ہمارے تمام سمارٹ فونز پر سٹریمنگ سروسز کے ذریعے وہ تمام مواد اب فوری دستیاب ہے جس کی ہم خواہش کر سکتے ہیں۔
 
ایک اعلیٰ پالیسی ساز نے مجھے بتایا کہ ’اس جدت نے ہمارے فرصت کے وقت کو مزید پرلطف بنا دیا ہے۔ لیکن اس نے ہمارے کام کے وقت کو زیادہ مفید نہیں بنایا ہے۔ اس نے انسان کے بوریت کے تجربے کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن کیا اس نے آپ کو کام پر زیادہ مفید بنا دیا ہے؟‘
 
اصل جھٹکا یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اب کمرشل تناظر میں قابل استعمال ہے، نہ کہ صرف ’کم علمی‘ یا بار بار کیے جانے والے یعنی روبوٹک کاموں کے لیے، جن کے بارے میں ہمیشہ سے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایسے کاموں کو ہی مشینوں سے کروایا جا سکتا ہے۔
 
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ٹکنالوجی انتہائی تخلیقی، اعلیٰ قدر والے کام کے لیے کتنی قابل استعمال ہے، جسے مقابلے سے نسبتاً محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔
 
image
 
اوپن اے آئی یا چیٹ جی پی ٹی کے بانی سیم آلٹ مین نے خود اس ٹیکنالوجی کے اب تک کے استعمال پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر اس بات پر کہ کسی بھی تخلیقی عمل کے آغاز میں کاپی لکھنے، تصویر بنانے، موسیقی بنانے، یا پروگرام کو کوڈ کرنے کے لیے ہفتوں کی بریفنگ کے بجائے اب سیکنڈوں میں یہ کام شروع کیا جا سکتا ہے۔
 
اور یہ سب کچھ مصنوعی ذہانت کے اس ورژن سے ممکن ہے جو ابھی بالغ انسان کی سطح کا ذہین نہیں ہے۔ اس لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی برطانیہ میں باقی دنیا کے مقابلے میں تیزی سے استعمال برطانیہ میں پیداوار کے بحران کو حل کر سکتا ہے۔
 
بری خبر یہ ہے کہ یہ تبدیلی اتنی تیزی سے رونما ہو سکتی ہے کہ ملازمین کو اس کے مطابق ڈھلنے کا وقت نہ ملے جس سے ایک سماجی اور معاشی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ کیا ہم 2020 کی دہائی میں کال سینٹرز اور تخلیقی سٹوڈیوز وہ دیکھ سکتے ہیں، جو 1980 کی دہائی میں کوئلے کی کانوں میں ہوا تھا؟
 
ٹیکنالوجی کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ’ آپ کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تبدیل نہیں کیا جائے، لیکن آپ کی جگہ کوئی ایسا شخص لے سکتا ہے جو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو استعمال کرنا جانتا ہو۔‘
 
وہ کہتے تھے اس لیے سب کو کوڈ کرنا سیکھنا چاہیے لیکن شاید اب یہ مشورہ ملنا بھی بند ہو جائے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: