میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
اس تحریر میں ہم احادیث کی مختلف کتابوں سے حاصل کی ہوئی کچھ احادیث کا ذکر
کریں گے ترجمہ اور اس کی تفصیل پڑھیں گے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ سرکار صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنی کس حدیث میں ہمارے لئے کس مقام پر کس طرح
نصیحت فرمائی وصیت فرمائی اپنی احادیث کے ذریعے صرف ہمیں اپنی زندگی کو
اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرنے میں رہنمائی کے طور پر صرف اور صرف
ہمارے لیئے اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ مجھے ہمیشہ حق بات کہنے اور
ہم سب کو حق بات سننے اور اس پر عمل کرنے کی ہمیشہ توفیق عطا فرمائے آمین
آمین ثمہ آمین ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں احادیث کی مختلف کتابوں میں موجود مختلف
راویوں کے ذریعے سے سرکار علیہ وسلم کے ارشادات ہم تک احادیث کی شکل میں
پہنچتے ہیں جو صرف اور صرف ہمارے لئے ہیں اپنی زندگی کو صحیح راستے پر
چلانے کے لئے یہ تمام ارشادات ہماری مکمل رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں اس
سلسلے میں پہلی حدیث سنن ابودائود کی حدیث نمبر 4800 ہے جس میں سرکار مدینہ
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ترجمہ " میں اس شخص کے لیئے
جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کردے اگرچہ وہ حق پر
ہو اور جنت کے بیچ و بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیئے جو جھوٹ بولنا چھوڑدے
اگرچہ وہ ہنسی مذاق میں ہی ہو اور جنت کی بلندی پر ایک گھر کا اس شخص کے
لیئے جو خوش خلق ہو "۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس حدیث کے مطابق حضرت ابوامامہ رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ترک کردے جو
کہ ایک بہت مشکل اور عزیمت کا عمل ہے لیکن اس کے اجر کے طور پر اس کے لئے
جنت میں ایک شاندار گھر کی ضمانت میں دیتا ہوں مزید سرکار علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ کسی بھی مومن کے لیئے جھوٹ بولنا قطعی طور پر بھی روا نہیں
سوائے اس کے کہ اپنی زوجہ اور دو مسلمان بھائیوں کی صلح صفائی کرنی ہو تو
اجازت ہے لہذہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو بنا جھوٹ بولے گزارے تو میں جنت
کے بیچ و بیچ اس کے لیئے ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں مزید آپ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ دنیا میں جس کسی نے بھی اپنے حسن اخلاق سے لوگوں کے دل میں اپنی
جگہ بنالی گویا اس نے اللہ تبارک وتعالی کو راضی کرلیا اور اس شخص کے لیئے
جنت کے بلندی کی سطح پر ایک خوبصورت گھر کی ضمانت میں دیتا ہوں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس خوبصورت حدیث میں ہمیں سرکار علیہ وسلم
کی طرف سے تین نصیحتیں اور اس پر عمل کرکے حاصل ہونے والےجنت میں گھر اور
وہ بھی سرکار علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ملنے کی نوید ملتی ہے اور کام
بھی وہ جو ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہیں آپ خود ہی دیکھیں کہ اس پوری
روئے زمین میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جس کا کبھی کسی نہ کسی سے کوئی
جھگڑا نہ ہوا ہو اس وقت بھی کئی ایسے لوگ ہیں جو کافی عرصہ سے اپنے کسی
دوست رشتہ دار یا عزیز سے بغیر بات چیت کیئے کسی نہ کسی بات پر ناراض ہوکر
اپنی زندگی میں مست نظر آتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں لیکن کیا ایک اہل ایمان مسلمان کے لیئے یہ
سعادت کم ہے کہ اسے اپنے جھگڑوں کو ترک کرنے اور ختم کرنے کے سبب جنت میں
ایک گھر مل جائے اور وہ بھی سرکار علیہ وسلم کی ضمانت اور مبارک ہاتھوں سے
اگر کسی مسلمان کو صرف ایک دنیاوی معاملے کے پیش نظر ہونے والی ناراضگی کے
سبب ہونے والے جھگڑے کو ترک کے چاہے اس معاملے میں حق پر ہونا بھی واضح ہو
اور اس کے سبب جنت میں گھر کا حصول میسر ہوجائے اور وہ بھی سرکار علیہ وسلم
کے مبارک ہاتھوں سے تو اس سے بڑی کیا سعادت ہوگی ویسے بھی ہمارا نماز روزہ
زکوہ حج اور ساری عبادت کا مقصد جنت کا حصول ہی تو ہے
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں فی زمانہ جہاں ہر انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے
کہ بغیر جھوٹ بولے اس کے لیئے زندگی گزارنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے لیکن
ایمان کی مظبوطی اور اللہ رب العزت کی ذات پر مکمل بھروسہ کرکے اگر ہم صرف
سچ بول کر اپنی زندگی گزارنا چاہیں تو یہ فی زمانہ مشکل ضرور نظر آئے گا
مگر ناممکن نہیں اگر اپ کوشش کریں تو آپ کو آج بھی ایسے لوگ مل جائیں گے جو
صرف اور صرف سچ پر ہی اپنی زندگی گزار رہےہیں اپنے دل میں جھوٹ سے نفرت
پیدا کرکے اور پھر جب سرکار علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جنت کے بیچ و بیچ
ایک گھر مل جائے جس کی ضمانت خود سرکار علیہ وسلم کی طرف سے ہو تو یہ عمل
کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ویسے بھی ہماری دنیاوی عبادات کا اصل مقصد جنت کا
حصول ہی تو ہے اور جنت کا حصول ہر اہل ایمان مسلمان کا ایک دیرینہ خواب
ہوتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بلکل اسی طرح اپنے اخلاق میں حسن پیدا
کرنے کی تلقین بھی اسی حدیث کا حصہ ہے اور یہ بات بھی فی زمانہ ہمیں اپنے
اردگرد کے لوگوں میں بہت کم دکھائی دیتی ہے کہ کسی نے آپ سے حسن اخلاق سے
بات کی ہو ہر کوئی چڑچڑے انداز سے بات کرتا ہوا نظر آتا ہے کوئی کاروباری
طبقہ سے تعلق رکھنے والا شخص ہے یا نوکری پیشہ شخص اپنے کام اور کاروبار کے
ٹینشن کو لیکر ہمیشہ اکھڑا ہوا نظر آتا ہے لیکن اس حدیث کے مطابق اگر ہم
اپنے دل کو ہر ایک کے لئے صاف اور شفاف کرکے صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی
کی رضا کے لیئے اپنے انداز گفتگو میں اپنے اخلاق میں حسن پیدا کرلیں تو
ہمیں بھی اچھے حسن اخلاق رکھنے والے لوگوں کی طرح جنت میں ایک شاندار گھر
ملنے کی اور وہ بھی سرکار علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے تو یہ خواہش پوری
ہوسکتی ہے اور ہمارے ایسا عمل کرنے کی بدولت جنت میں گھر کے حصول کی ضمانت
بھی کوئی اور نہیں بلکہ سرکار علیہ وسلم بذات خود دے رہے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اپنے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کریں کام
صرف وہ کریں جس میں اللہ تبارک وتعالی کی رضا شامل ہو سرکار علیہ وسلم کی
خوشنودی حاصل ہو آپس کے جھگڑوں کو ختم کرکے محبت کو پھیلائیں جھوٹ بولنے سے
پرھیز کرکے سچ کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھیں اور ہر کسی سے حسن اخلاق کے
ساتھ پیش آئیں بس پھر جنت ہمارا اخری ٹھکانہ ہوگا ( انشاء اللہ ) سنن
ابودائود کی اس حدیث سے جس کا نمبر 4800 ہے ہمیں یہ ہی سبق ملتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہماری آج کی دوسری حدیث صحیح بخاری سے لی
ہوئی ہے جس کا نمبر 6000 ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان
عالیشان ہے کہ ترجمہ
" اللہ رب العالمین نے رحمت کے 100 حصے بنائے ہیں جس میں سے ننانوے اس نے
اپنے پاس رکھے ہیں اور صرف ایک حصہ زمین پر اتارا ہے اور اس کی وجہ سے تم
دیکھتے ہو کہ مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنی سم
اپنے بچے کو نہیں لگنے دیتی بلکہ سموں کو اٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس کے بچے
کو اس سے تکلیف نہ پہنچے ۔"
اگر ہم اس حدیث کی تفسیر پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کے راوی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں آپ فرماتے ہیں کہ سرکار علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی کی سو رحمتیں ہیں جس میں اس نے صرف اپنی ایک
رحمت کو تمام مخلوقات میں تقسیم کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم
اور شفقت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وحشی جانور بھی اپنی اولاد پر رحم کرتے
ہیں اللہ تبارک وتعالی نے باقی ننانوے رحمتیں اپنے پاس محفوظ کررکھی ہیں جن
کے ذریعے وہ اپنے بندوں ہر بروز قیامت رحم کرے گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مخلوق میں ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کا
جذبہ اللہ تبارک وتعالی کا پیدا کیا ہوا ہے دنیا کی تخلیق سے لیکر اب تک اس
دنیا میں اللہ تبارک وتعالی کی کتنی مخلوقات وجود میں آئیں اور قیامت تک
آتی رہیں گی اس کا اندازہ لگانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں لیکن اللہ
باری تعالی کی صرف ایک رحمت کی وسعت کا اندازہ لگانا بھی انسان کے بس کی
بات نہیں اگر تمام مخلوقات کی رحمت اور شفقت کا موازنہ اللہ تبارک وتعالی
کی ایک رحمت سے کیا جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں رحمت کے سو حصے کے ذکر کرنے کا مقصد اللہ
تبارک وتعالی کی رحمت کا بے انتہا وسیع ہونے کا تصور دینا ہے جس طرح اللہ
رب العزت نے اپنی ہر مخلوق کے اندر رحم اور شفقت کا جذبہ رکھا ہے حتی کہ
جانور اور پرندے بھی اپنے بچوں پر اتنی سفقت کرتے ہیں کہ ان کو بچانے کے
لیئے اپنی جان بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں تو خالق کائنات کی رحمت اپنے
بندوں پر کتنی ہوگی اس کا اندازہ لگانا بھی ہم انسانوں کے بس کی بات نہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی کی یہ رحمتیں اور
شفقتیں بیشک اپنے بندوں کے لیئے ہیں لیکن ان کے لیئے نہیں جو اس کے احکامات
پر عمل نہیں کرتے اور ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اللک تبارک وتعالی اور اس
کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجائیں بس گناہوں کے دلدل میں دھنستے
چلے جاتے ہیں اور شیطان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہتے ہیں لیکن انسان
خطا کا پتلا ہے اس لیئے اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر گناہ کر بیٹھتا ہے
شیطان کے بہکاوے میں آکر غلط راستے پر چل پڑتا ہے لیکن ہمارے رب الکائنات
نے فرمایا ہے کہ میرے ہر بندے کے لئے توبہ کا دروازہ اس کخ زندگی کے آخری
سانس تک کھلا ہوتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہم نے آج دو احادیث کا ترجمہ اور تفسیر
پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ احادیث اور اس سے
حاصل ہونے والے فوائد کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا سرکار مدینہ علیہ وسلم کے
ارشادات پر مبنی یہ احادیث ہمارے لیئے اپنی زندگی گزارنے کے لئے بے بہا
سرمایہ ہیں انہیں سمجھکر اگر ہم اپنی زندگی کو گزاریں تو کبھی کوئی پریشانی
ہمیں لاحق نہیں ہوگی انشاءاللہ
میرے یاروں ہھر کسی احادیث کے ساتھ اپنی تحریر لیکر حاضر خدمت ہوجائوں گا
دعائوں میں یاد رکھئے گاہ
|