میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
جناب کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
انا کی بھینٹ چڑھادے مگر یہ دھیان رہے
میں زندگی ہوں ایک بار دی گئی ہوں
اور کسی شاعر نے یہ بھی کہا ہے کہ
محبت کو اگر بانٹنا ہے تو پھر یوسف
بس اپنے اندر سے انا کو مارنا ہوگا
میرے محترم یاروں ہماری آج کی تحریر ہمارے اندر موجود " انا پرستی " کے
موضوع پر ہے حضرت خواجہ صوفی محمد عظمت اللہ شاہ نقیبی علیہ الرحمہ نے ایک
جگہ لکھا کہ ایک صاحب ولایت سے کسی نے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا کبھی آپ نے
کسی اللہ تبارک و تعالی کے ولی کو دیکھا یا ملاقات کا شرف حاصل کیا یعنی
کسی ولی اللہ سے کبھی ملے ہیں؟ تو فرمایا کہ ہاں ابھی کچھ دنوں پہلے ہی تو
ریلوے اسٹیشن پر ملاقات ہوئی تھی ہوا یوں کہ میں جب اسٹیشن پہنچا تو قلیوں
کا ایک جم غفیر وہاں ہر موجود تھا اور پھر تو جیسے انہوں نے مسافروں پر
دھاوہ بول دیا لیکن میں نے کسی کے ہاتھ میں اپنا سامان نہیں دیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے
دیکھا کہ اتنے شور شرابے میں بھی ایک قلی ایک کونے میں مصلی بچھائے بڑے
اطمنان کے ساتھ اپنی نماز میں مشغول و مصروف تھا میں اس کے پاس بیٹھکر اس
کے فارغ ہونے کا انتظار کرتا ریا اس نے جیسے ہی سلام پھیرا تو میں نے اسے
سامان اٹھانے کو کہا تو اس نے میرا سامان اٹھایا اور میری مطلوبہ جگہ مجھے
پہنچادیا میں نے اسے ایک روپیہ کرایہ ادا کیا تو اس نے چار آنے اپنے پاس
رکھے اور باقی پیسے مجھے لوٹا دیئے میں نے کہا بھئ پورے پیسے رکھلو تو کہنے
لگا کہ میری اجرت اتنی ہی بنتی ہے اگر زیادہ لے لیئے تو یہ ناحق ہوجائے گا
اور اس کی وجہ سے میرے اصل معاوضے پر بھی داغ لگ سکتا ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں اس کی
یہ باتیں سن کر سوچنے لگا کہ ہم اللہ تبارک وتعالی تک پہنچنے کے لیئے کسی
ولی اللہ کی تلاش میں دن رات مجاہدات کرتے رہتے ہیں اور بیشمار وظائف پڑھکر
اس رب کے قرب کو حاصل کرنے کی تق و دو میں لگے رہتے ہیں لیکن ولی اللہ تو
ہمارے درمیان میں ہی موجود ہوتے ہیں بس دیکھنے والی آنکھیں اور پرکھنے والا
دل ہونا چاہیئے کیوں کہ درحقیقت ولایت کے درجے پر پہنچنے کے لیئے اللہ
تبارک وتعالی پر مکمل بھروسہ اور یقین ہونا چاہیئےاپنی زندگی کو اس کے
احکامات پر عمل کرکے صرف یہ سوچنا چاہیئے کہ میرا ہر کام اس کی رضا کے لئے
ہو اس دنیا میں اپنے ارد گرد مختلف طبقات کے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے ان
تمام لوگوں کے لئے اپنے دل کو بلکل صاف اور شفاف رکھنا چاہیئے بس اپنی انا
کو مارنا ہوگا اور اہنی محنت اور مشقت سے کمائی ہوئی روزی کو حلال کرکے
حاصل کرنا ہوگا اللہ تبارک وتعالی ہمیں بھی ولی بنادے گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے اور نامور مذہبی
اسکالر جناب اشفاق احمد صاحب (مرحوم ) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنے
اباجی سے پوچھا کہ یہ عشق مجازی اور عشق حقیقی میں کیا فرق ہے تو مسکرائے
اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے کہ بیٹا کسی کے آگے اپنی انا کو ماردینا
عشق مجازی ہے اور تمام لوگوں کے آگے اپنی انا کو ختم کردینا عشق حقیقی ہے
اور جسے عشق حقیقی مل گیا سمجھ لو اسے ولایت مل گئی یعنی پھر وہ اللہ تبارک
وتعالی کا ولی کہلانے کا درجہ رکھتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا
خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ولایت کوئی کسبی شہ نہیں ہے
بلکہ یہ عطائی شہ ہے یعنی دن رات کے مجاہدات اور محنت و مشقت کے بعد ملنے
والی چیز کا نام ولایت نہیں ہے بلکہ جب اللہ تبارک وتعالی اپنے بندے کے کسی
عمل سے خوش ہوتا ہے تو اس کے سبب اسے انعام کے طور پر ولایت کا درجہ عطا
کرتا ہے اب چاہے اسٹیشن پر کام کرنے والا کوئی قلی ہی کیوں نہ ہو حضرت
ابراھیم بن ادھم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو اپنے اندر کی انا کو مار کر
فرائض کی پابندی کرتا ہو کبائر سے اجتناب کرتا ہو لوگوں کی زندگیوں میں
آسانیاں پیدا کرتا ہو تو آپ مان لیں کہ اس سے بڑا ولی کوئی نہیں ہوسکتا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یاد رکھیں لوگوں سے شکوے شکایت کرنا چھوڑ
دیجیئے اپنے دل سے کینہ حسد بغض اور لالچ جیسی گند کو نکال کر اپنے دل کو
سب کے لیئے صاف اور شفاف رکھیں اپنے اندر کی جھوٹی انا کو ختم کرکے اپنی
میں سے باہر نکل جائیں لوگوں کے لئے اسانیاں پیدا کریں فرائض کی پابندی
کریں کبائر سے اجتناب کریں اور اللہ رب العزت کی عطا سے ولی بن جائیں
جھوٹی انا کو اپنے اندر سے باہر نکال کر یوسف
کیا ملتا ہے اپنے رب سے زرا آزما کے دیکھ
|