متحدہ عرب امارات اور قطر کے درمیان سفارتی تعلقات بحال۔ خطے میں امن وسلامتی کی امیدیں

پڑوسی ممالک کے درمیان خوشحال روابط ہی ان ممالک کی ترقی اورعوام کیلئے خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔ قطر سے 5؍ جون 2017متحدہ عرب امارات(یو اے ای) نے سعودی عرب، مصر اور بحرین کے ساتھ مل کر قطر پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے امارات میں مقیم تمام قطری شہریوں کو ملک بدر کردیا تھا اور اپنے شہریوں کو قطر کا سفر کرنے سے منع کردیا تھا۔ اس کے علاوہ یو اے ای نے اپنی فضائی حدود اور علاقائی پانی قطری جہازوں کیلئے بند کردیئے تھے۔تعلقات منقطع کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ مئی 2017میں قطر نیوز ایجنسی کے ذریعہ نشر کئے گئے پیغامات میں سعودی عرب پر تنقید کی گئی تھی اور ایران اور اخوان المسلمین سے متعلق مثبت اور تعمیری انداز میں اظہار خیال کیاتھا۔ قطر نے ان پیغامات کے ذمہ دار ہونے کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی نیوز ایجنسی کو ہیک کیا گیا تھا۔ ان چار ممالک نے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ تمام قطری خبررساں اداروں کو سنسر کردیا تھا۔ دو سال تک ان ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہی رہے ۔ 12؍ نومبر2019کو قطر کی میزبانی میں 24ویں عربین گلف کپ میں متحدہ عرب امارات نے شرکت کا فیصلہ کیا ۔ اس سے یہ اشارہ ملاکہ ان دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ جلد ختم ہوسکتا ہے۔ 6؍ جنوری 2021کو قطر اور متحدہ عرب امارات نے سفارتی تعلقات کو مکمل طور پر بحال کرنے پر اتفاق کیا۔اس دوران دونوں ممالک ایک دوسرے پر مختلف الزامات عائد کرتے رہے اوراس الزامات کی تردید بھی ہوتی رہی ۔ خیر ذرائع ابلاغ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور قطر سفارتی تعلقات بحال کر رہے ہیں اور ’چند ہفتوں‘ میں سفارت خانے کھولنے جا رہے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ اقدامات عرب ممالک کی جانب سے دو برس قبل دوحہ کا بائیکاٹ ختم کرنے کے بعد کیے جا رہے ہیں۔قطر کے انٹرنیشنل میڈیا آفس نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’جتنی جلد ممکن ہو سکے سفارت خانے کھولنے پر کام ہو رہا ہے۔‘قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ایک بریفنگ میں کہا کہ ’میرے خیال میں اگلے چند ہفتوں میں دونوں ممالک میں سفارت خانے کھل جائیں گے۔‘تعلقات کی بحالی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب سعودی عرب اور ایران نے گذشتہ ماہ کئی برسوں سے جاری مخاصمت کو ختم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔اسی طرح سعودی عرب اور مصر سمیت کئی عرب ممالک نے شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے پیش قدمی کررہے ہیں۔منگل25؍ اپریل کو سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان سرکاری دورے پر شام کے دارالحکومت دمشق پہنچے جہاں ان کی شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات ہوئی۔سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا دورہ مملکت کی شام کے مسئلے کے سیاسی حل میں دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔سعودی عرب اور مصر نے 2021 میں اپنے سفیروں کو قطر میں تعینات کیا تھا، جبکہ بحرین نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرے گا۔اب جبکہ متحدہ عرب ممالک اور قطر کے درمیان بھی سفارتی تعلقات بحال ہورہے ہیں اور دونوں ممالک میں سفارت خانے عنقریب کام کرنا شروع کردیں گے۔ یہ خوش آئند اقدام ہے کہ ان تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی اور تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس سے تمام ممالک کے عوام سکون کی سانس لے سکتے ہیں اور ان کی معیشت بھی مستحکم ہوسکتی ہے ۔

ترکیہ سے تقریباً60ہزار شامی پناہ گزین رضاکارانہ طور پر اپنے گھر واپس
ترکیہ اور شام میں6؍ فبروری کو آنے والے شدید زلزلے نے لاکھوں خاندانوں کو بے گھر کرکے رکھدیا ۔ بے انتہاء جانی و مالی نقصان ہوا ۔ دنیا بھر سے ترکیہ اور شام کے لئے امداد پہنچائی گئی۔ شام میں گذشتہ کئی سال سے خانہ جنگی کے باعث لاکھوں شامی عوام ترکیہ اور دیگر ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ وزیر دفاع حولوصی آقار کا کہنا ہے کہ ترکیہ کے جنوبی علاقے میں 6 ؍فروری کو آنے والے زلزلے کے بعد سے ترکیہ میں تقریباً 60 ہزار شامی باشندے سرحد پار اپنے آبائی ملک شام واپس جا چکے ہیں۔زلزلے سے متاثرہ صوبہ حطائے میں خطاب کرتے ہوئے حولوصی آقار نے ترکیہ کی سرحد پر غیر قانونی کراسنگ کے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے۔یہ کہتے ہوئے کہ ترکیہ کی سرحدوں کی/7 24بنیادوں پر "جدید ترین ٹیکنالوجی کی گاڑیوں اور آلات سے’’ شدت سے حفاظت اور نگرانی کی جا رہی ہے، آقار نے تصدیق کی کہ وہ فول پروف اقدامات کر رہے ہیں۔ترکیہ کے دفاعی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ترکیہ کی جنوبی سرحد سے شامی پناہ گزینوں کی آمد کے دعوے واضح طور پر غلط ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ "ترکیہ میں رہنے والے تقریباً 60 ہزار شامی باشندے اپنے گھروں اور رشتہ داروں کے جاں بحق ہونے کی وجہ سے اپنی سرزمین پر واپس جا رہے ہیں۔’’6؍ فروری کو، 7.7 اور 7.6 شدت کے زلزلوں نے ترکیہ کے 11 صوبوں ’’ ادانا، آدیامان، دیارباقر، ایلازیگ، حطائے، غازیانتپ، قہر مانماراش، کلیس، ملاطیا، عثمانیہ، اور سانلیورفا‘‘ کو متاثر کیا، جس میں 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔ترکیہ میں 1 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ افراد زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں اور ساتھ ہی شمالی شام میں بھی بہت سے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

کلام اﷲ کی بے حرمتی پر ترکیہ کی مذمت
ترکیہ کے وزیر دفاع حولوصی آقار نے ڈنمارک میں قرآن مجید اور ترکیہ کے جھنڈے پر حالیہ حملے کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پرچم اور مقدس کتاب پر حملہ بربریت، حقیر اور نفرت انگیز رویے کی ایک بڑی مثال ہے۔ یہ سراسر انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ہم اسے کبھی قبول نہیں کر سکتے۔واضح رہیکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق حالیہ مہینوں میں شمالی یورپ اور نورڈِک ممالک میں دشمنان اسلام اسلاموفوبک(Islamophobic) شخصیات یا گروہوں کی جانب سے قرآن کریم کو جلانے یا ایسا کرنے کی کوششیں دیکھنے میں آئی ہیں۔

سوڈان سے 58ممالک کے شہری کنگ فیصل نیول بیس پہنچ گئے ۔سعودی عرب کا اہم رول
سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، مصر اور امریکہ نے سوڈان مسئلے کے حل کیلئے اپنے سفارتی مشن کا آغاز کردیا ہے۔ عاجل نیوز کے مطابق امریکہ ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، مصر ، افریقی یونین اور یورپی یونین کے نمائندوں پر مشتمل سفارتکاروں نے سوڈانی فوج کے کمانڈر عبدالفتاح البرہان اور نیم فوجی گروپ کے کمانڈر محمد حمدان دقلو کی ملاقات سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں کرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ سوڈان کے حالات کو معمول پر لانے کیلئے سعودی عرب اس وقت اہم رول ادا کررہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سوڈان میں مقیم مختلف ممالک کے شہریوں کو بحفاظت سعودی عرب لانے میں بھی سعودی شاہی حکومت کا اہم رول دیکھنے میں آرہا ہے۔عرب نیوز کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ سعودی عرب کا بحری جہاز مختلف ممالک کے مزید شہریوں کو جنگ زدہ سوڈان سے نکال کر چہارشنبہ کی علی الصبح جدہ پہنچ گیا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی شہریوں کو بحفاظت منتقل کرنے کی مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔بحری جہاز نے 58 ممالک کے 1687 شہریوں کو سوڈان کی بندرگاہ سے منتقل کیا۔جہاز پر 46 امریکی، 40 برطانوی، 11 جرمن، 4 فرانسیسی، 13 سعودی، 560 انڈونیشین، 239 یمنی، 198 سوڈانی اور 26 ترک شہری سوار تھے۔صبح پانچ بجے سے قبل سعودی پرچم بردار بحری جہاز ’امانہ‘ کنگ فیصل نیول بیس پر پہنچا۔مسافروں کے استقبال کے لیے بحری اڈے کے حکام اور مختلف ممالک کا سفارتی عملہ بھی موجود تھا۔بتایا جاتا ہیکہ سوڈان سے فضائی اور بحری جہازوں کے ذریعے مسافر سعودی عرب پہنچے۔ہفتہ کو غیرملکی سفارتکاروں اور عہدیداروں سمیت 150 افراد کشتیوں کے ذریعے جدہ پہنچے تھے، یہ سوڈان سے انخلا کا آغاز تھا۔پیر کو فوجی طیارے سی ون 30 ہرکیولیس نے جنوبی کوریا کے شہریوں کو کنگ عبداﷲ ایئر بیس پر پہنچایا تھا اور ایک کشتی کے ذریعے 14 ممالک کے تقریباً 200 شہریوں کو سوڈان کی بندرگاہ سے لایا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل نمائندے ڈاکٹر عبدالعزیز الواصل نے سوڈان میں جنگ بندی کے موجودہ معاہدے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔انہوں نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں کہا تھا کہ مملکت سوڈان میں جنگ بندی کے لیے تمام شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔انہوں نے شہریوں کے انخلا میں سہولت فراہم کرنے کے لیے فریقین کے تعاون کو بھی سراہا تھا۔اس سے قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ’ہم سوڈان میں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ وہاں پھنسے افراد کے بحفاظت انخلا کے لیے رابطے میں ہیں۔ سعودی عرب غیر ملکی شہریوں کو بحفاظت ان کی منزل تک پہنچانے کے لیے مدد کرتا رہے گا اور اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔‘دوسری جانب سعودی عرب کی جانب سے سوڈان میں عسکری کارروائیاں روکنے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔امریکہ کے قونصل جنرل فارس اسد کی جانب سے بھی شہریوں کے بحفاظت انخلا پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔انہوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر بائیڈن نے اتوار کو جو کہا میں وہ دْہرانا چاہوں گا، ہم سعودی عرب اور سعودی عرب کے لوگوں کے شکرگزار ہیں۔ ہم مملکت میں اپنے دوستوں اور پارنٹنرز جنہوں نے ہمیں مدد فراہم کی ان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘اب دیکھنا ہے کہ سوڈان میں حالات کس طرح معمول پر لائے جاتے ہیں ۔ فوجی کمانڈر عبدالفتاح البرہان ا ور نیم فوجی گروپ کے کمانڈر درمیان کس طرح صلح ہوتی ہے۔

کشمیر میں جی 20 اجلاس کی میزبانی پر پاکستان کا احتجاج
اس سال ہندوستان، کشمیر میں جی 20 ٹورازم ورکنگ اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جو 22؍ مئی سے 24؍ مئی تک سری نگر میں منعقد ہو گا۔ پاکستان نے کشمیر میں ہونے والے اس اجلاس کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔پاکستان نے کہا کہ انڈیا کایہ غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان ایسے اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات جموں و کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہونے کی حقیقت کو دھندلا نہیں سکتے جو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے یو این ایس سی کے ایجنڈے پر موجود ہے۔اس طرح کی سرگرمیاں علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی غیر قانونی کوششوں سمیت کشمیر کے لوگوں پر بھارت کے وحشیانہ جبر سے بین الاقوامی برادری کی توجہ ہٹا نہیں سکتیں۔‘‘

ماہِ صیام میں خاوند کی خدمت۰۰۰انعامات کی بارش
اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو دین و دنیا کی بہترین نعمتوں سے نوازتا ہے جب اسکے بندے اسے راضی کرنے اور اسکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش ، جستجو، تڑپ میں رہتے ہیں۔ دنیا میں ایسے میاں بیوی بھی ہیں جو ایک دوسرے کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے انکے دلوں میں محبت بھی ہوتی ہے اور احترام کا جذبہ بھی۰۰۰ رمضان المبارک بے شک رحمتوں ، برکتوں کا مہینہ ہے اور اس میں اﷲ تعالیٰ کی بے انتہاء عنایتیں ہوتی ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر ایک اردنی شوہر نے رمضان المبارک میں اپنی بیوی کی بے لوث خدمت ، شاندار پکوان اور مختلف سہولیات کی فراہمی سے متاثر ہوکر اسے خوش دلی سے قیمتی تحفے دیئے ۔ الامارات الیوم کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ اردنی نوجوان نے 30 ہزار دینار مالیت کی عیدی اہلیہ کو تحفے کے طور پر دی۔انہوں نے 1500 دینار نقد، سونے کے 30 سکے اور اہلیہ کے رشتہ داروں کو عمان کے اعلٰی درجے کے ہوٹل میں رہائش کا پیکج دیا۔صارفین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’شوہرنے حق نمک ادا کردیا۔‘مغرب عربی کے ملکوں میں ایک روایت ہے جسے ’حق الملح‘ (نمک کا حق) کہا جاتا ہے۔ یہ رواج شام اور مشرق عربی کے ملکوں میں نہیں ہے۔اس رواج کے مطابق شوہر عیدالفطر کے موقع پر اپنی اہلیہ کو نقدی یا سونے کے زیور کی صورت میں قیمتی تحفہ پیش کرتا ہے۔یہ ایک طرح سے رمضان بھر افطار اور سحر میں تھکنے پر اہلیہ کی کاوشوں کا عملی اعتراف ہوتا ہے۔غرض کہ اس خاتون کو دنیا میں بھی اسکے شوہرنے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے تحفیعطا کئے ہیں اور آخرت میں بھی ان شاء اﷲ تعالیٰ شوہر کی خدمت کے عوض بہترین جزاء ملے گی۔

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.