دہلی دھماکہ : تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے

دنیا بھر کے لوگوں نے ۱۱ ستمبر کو دس سال قبل ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حملے کو یاد کیا اوراس کے سوگ میں ہم ہندوستانیوں نے پانچ روز قبل دہلی ہائی کورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے کو فراموش کر دیا ۔ہندوستان کے لوگوں کی جس صفت کا اعتراف ساری دنیا کرتی ہے وہ ہمارا صبروتحمل ہے جو اپنی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔ اس معاملے میں استثناء اس وقت ہوتا ہے جب کسی کمزورکے خلاف ہمیں سرکاری تحفظ حاصل ہوجائے جیسا کہ اندراگاندھی کے قتل کے بعد خود دہلی میں ہوا تھایا گودھرا ٹرین حادثے بعد گجرات میں ہوا ۔ ہمارے عفو و درگذر کا راز ہماری مجبوری میں پنہاں ہے جس کا جی بھر کے فائدہ ہماری حکومت اٹھاتی ہے اور یہی کچھ دہلی ہائی کورٹ کے دھماکے کے بعد بھی ہوا ۔ہم نے اس واقعہ کو اس قدرآسانی سے کیونکر بھلا دیا؟ اس سوال کا نہایت دلچسپ جائزہ مختلف ماہرین نفسیات نےپیش کیا ہے ۔

معروف ماہر نفسیات اودھیش شرما کے مطابق اس طرح کے حملوں کی بار بار ہونے نے ہمیں ان کا عادی بنا دیا ہے ۔ہمارا ذہن ان حادثات کو درج تو کرتا ہے لیکن ہم میں سے اکثر لوگوں کے اندر اس سے متعلقہ احساسات و جذبات پیدا نہیں ہوتے ۔ایک بہیمانہ قتل ِعام ہمارے لئے ایک خبر بن کر رہ جاتا ہے اور اموا ت کو ہم تعداد میں شمار کرتے ہیں ۔ تحت الشعور میں ہم اس واقعہ کا موازنہ کسی فلمی منظر سے کرنے لگتے ہیں ۔جب کوئی سیاستداں اسے بزدلانہ حملہ قرار دیتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کوئی پرانی ریل دوہرائی جارہی ہے ۔ ٹی وی کے پردے پر نظرآنے والے مناظر میں بھی بلا کی یکسانیت دکھائی دیتی ہے با الفاظ دِگرضمیر کی موت نے احسا س کا گلا گھونٹ دیا ہے ۔اس لئے کہ ہم سب جانتے ہیں جن سراغوں کا ابتدا میں بڑے طمطراق کے ساتھ دعوی کیا جاتا ہے وہ آگے چل کر ایک اندھی گلی میں دم توڑ دیتے ہیں ۔ایرا تریویدی یوں رقمطراز ہیں کہ یکے بعد دیگرے حادثات سے گذر جانے کے بعد ہماری بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جب کسی حادثے کی خبر ہمیں ملتی ہے توسب سے پہلے ہم اپنے اعزہ و اقارب کی خیریت معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب پتہ چلتا ہے کہ وہ سارے محفوظ و مامون ہیں تو پھر اپنے کام میں کولہو کے بیل کی مانند جٹ جاتے ہیں ۔شرما کا کہنا ہے کہ آج کل ہمارے آس پاس اس قدر منفی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ ہم ان حادثات کی جانب بالکل توجہ نہیں کرتے جوہم پر براہ راست اثرانداز نہیں ہوتے۔اسی لئے ٹیلی ویژن کے پردے پر بکھری ہوئی لاشوں کے مناظر کو دیکھتے ہوئے ہم لوگ کھاتے پیتے اور ہنستے بولتے رہتے ہیں ۔ مرکزی وزیر برائے سیاحت سبودھ کانت سہائے نے جو ممبئی بم دھماکے کے وقت فیشن شو سے محظوظ ہو رہے تھے دہلی دھماکے کے بعد اعلان کیا کہ دھماکے کہاں نہیں ہوتے ؟دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں اور ہم نے تو دھماکوں کے بیچ جینا سیکھ لیا ہے۔ ان سے ہمارے معمولات پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کی کارروائی دھماکے کے باوجود جاری رہی ۔ اس افسوس ناک صورتحال میں عوام کی حالت ِ زار پر ساحر لدھیانوی کے یہ اشعار صادق آتے ہیں
تنگ آ چکےہیں کشمکشِ زندگی سےہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں‌ بے دلی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

شاعر کی طرح ما ہرین نفسیات کی رائے بھی یقیناً مبنی بر حقیقت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ حملے بار بار ہوتے کیوں ہیں ؟جب تک اس سوال کا جوا ب ہم حاصل نہیں کرتے اس وقت ان حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور قوم کے چند افراد اس میں اپنی جانِ عزیز گنوائیں گے مگر من حیث القوم ہم ایک زندہ لاش میں تبدیل ہو جائیں گے ۔

دہلی ہائی کورٹ کے دھماکے پر تبصرہ کرتے ہوئے تمام ذرائع ابلاغ نے اس بات پر ا شارہ کیا کہ یہ اسی سال ۲۵ مئی کو ہونے والے حملے کا اعادہ ہے ۔ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ وہ ریہرسل تھا اور یہ اصل ہے لیکن یہ سراسر حماقت کی بات ہے ۔دہشت گردانہ حملوں کا ریہرسل نہیں کیا جاتا ۔ اس حقیقت کے باوجود اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حملوں کے اندر گہرا تعلق ہے چونکہ دونوں کا مقصد یکساں ہے اس لئے یقیناً دونوں کے حملہ آور کا ایک ہی ہونا فطری امر ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حملہ آور کون ہے ؟ اس کا پتہ لگانے کیلئے یہ دیکھنا ہوگا کہ دونوں ہی مرتبہ ان دھماکوں نے کس کا بھلا کیا ؟اس سوال کا جواب جاننے کیلئے مئی کے آخری ہفتہ میں وقوع پذیر ہونے سیاسی حالات اور ماہِ ستمبر کے پہلے ہفتہ میں رونما ہونے والے واقعات کا موازنہ ضروری ہے ۔ ۲۰ مئی کے دن جی ۲ بدعنوانی کے معاملے میں سی بی آئی کی رپورٹ شائع ہوئی اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور وہی زمانہ تھا جبکہ دولتِ مشترکہ کے کھیلوں میں ہونے والی بدعنوانی منظرِ عام آئی اور سریش کلماڑی سمیت کئی افسران گرفتار ہوئے ۔ستمبر کے آغاز میں نوٹ کے بدلے ووٹ کی کہانی بے نقاب ہوئی اور امر سنگھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑی لیکن یہ تو ایک واقعہ تھا اس کے علاوہ آڈیٹر اور کمپٹرولر کی رپورٹ پارلیمان میں پیش ہوئی جس میں ائیر انڈیا کے ذریعہ جہازوں کی خریداری پر بے شمار سوالات اٹھائے گئے ریلائنس کےکرشنا گوداوری ٹھیکے کی بدعنوانیاں نمایاں کی گئی ۔ یہی وہ وقت تھا جب آدرش گھوٹالہ میں دو مرکزی وزراءولاس راؤ دیشمکھ اور سشیل کمار شندے سے سی بی آئی نے پوچھ تاچھ کا آغاز کیا ۔اس پس منظر میں مندرجہ ذیل سوالات پر غور کیا جائے تو عقدہ اپنے آپ کھل جاتا ہے:
• ذرائع ابلاغ میں مندرجہ بالا خبروں پر پردہ ڈالنے کی ضرورت کسے تھی ؟
• ان موضوعات پر اخبارات و ٹیلی ویژن پر بحث و مباحثے میں کس کا نقصان تھا ؟
• بدھ کے دن اگر دہلی ہائی کورٹ کا دھماکہ نہیں ہوتاتو کیا اس دن امرسنگھ کی ضمانت کے رد ہونے کے باعث ہونے کے باعث کانگریس کے ساتھ ان کے امرپریم کی کہانی پردہ سیمیں پر زیر ِ بحث نہیں آتی ؟اگر ایسا ہوتا تو اس کہانی کے ہیرو منموہن اپنے آپ کو کیسےبچاتے؟
• جمعرات کو جب ریلائنس اور ائیر انڈیا کے گھپلے سامنے آتے تو کیا امبانی اور پٹیل کو منہ چھپانے کی کوئی جگہ میسر آتی؟
• انا ہزارے کی بھوک ہڑتال ختم کروانے والے ولاس راؤ جب سی بی آئی کے دفتر سے اپنی آدرش صفائی پیش کرکے لوٹتے تو کیا ٹی وی والے انہیں بخش دیتے؟

دہلی ہائی کورٹ کے دھماکے نے ان تمام سوالات کو معصوم عوام کے خون کی چادر سے ڈھا نپ دیا گیا بقول قتیل شفائی
کبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیں
تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے

آج کل ہمارے ملک میں بدعنوانیاں اس قدر عام ہو گئی ہیں کہ ان کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے بم دھماکے کروانا بظاہرغیر منطقی معلوم ہوتا ہے لیکن اگر کوئی ان گھپلوں کی نوعیت اور کمیت پر غور کرے اور ہمارے سیاستدانوں کی خصلت وجرأت کو نظر میں رکھے تو اسے یہ حرکت نہایت معمولی دکھائی دے گی ۔دولتِ مشترکہ کے کھیلوں کی انتظامیہ کمیٹی کے سابقہ صدر سریش کلماڑی پرانے کانگریسی ہیں۔کانگریس پارٹی میں ان کی پذیرائی محض اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ شرد پوار کے ازلی دشمن ہیں اور اسی لئے انہیں کھانے کمانے کا موقع دینے کیلئے اس کمیٹی کی صدارت سے نوازہ گیا ۔ انہوں نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوتے ہوئے تمام اصول و ضابطے کو بالائے طاق رکھ کر ایک سوئس کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا جس سے سرکاری خزانے کا ۹۵ کروڈ روپئے کا نقصان ہوا ۔ایسا کرنے کیلئے انہوں نے اپنے افسران تک کو کنارے لگا دیا ۔ ان کے ایک دستِ راست سرجیت نے دعویٰ کیا تھا کہ وزارتِ کھیل نے سوئس ٹائمنگ کمپنی کو ایک ٹنڈر کی بنیاد پر ٹھیکہ دینے کی توثیق کی تھی جو سراسر غلط پایا گیا ۔۲۵ مئی کے ملک بھر کے اخبارارت میں کلماڑی کے خلاف داخل ہونے والی چارج شیٹ سب سے بڑی خبر تھی ۔ دوسری بڑی خبر ۲ جی گھپلے میں سی بی آئی کی جانب سے داخل کی جانے والی سابق وزیر مواصلات و اطلاعات کے خلاف پیش ہونے والی چارج شیٹ کا ذکر تھا ۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں ۳۰۰۰۰ہزار کروڑ کے گھپلے کا الزام لگا یا تھا اور خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس میں سے کچھ بھی سرکار کو واپس نہیں ملے گا ۔ان معاملات پر پردہ ڈالنے کیلئے دہلی ہائی کورٹ میں ایک ایسا دھماکہ کر دینا جس میں کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہو کوئی مہنگا سودہ ہر گز نہیں تھا ۔

اے راجہ کا قصور تو بس اتنا تھا کہ اس نے اپنے آپ کوعوام کی دولت لوٹ کر اسم بالمسمہ بنانے کی کوشش کی تھی اس کی جانب سب سے پہلے انگشت نمائی سی اے جی کی رپورٹ میں کی گئی اور الزام لگایا گیا ۷۶ء۱ لاکھ کروڑ کی خرد برد ہوئی ہے ۔ سی بی آئی نے اسے ہلکا بھی کیا تو بات ۳۰ ہزار کروڑ سے کم نہ ہوسکی ۔اس میں دو سو کروڑ تو ڈی ایم کے پارٹی کے ٹی وی چینل کو دئیے گئے اور اس الزام میں کروناندھی کی بہو کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔اس کے علاوہ راجہ کے پاس بیرونی زر مبادلہ کی جو غیر قانونی رقم پائی گئی وہ ہزار کروڑ ہے ۔ راجہ نے اپنی دولت کو اس ہو شیاری سے مختلف افراد اورنجی ٹرسٹوں میں پھیلا دیا ہے کہ سی بی آئی کیلئے جانتے بوجھتے ہوئے بھی اسے ثابت کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔راجہ کے اس کالے دھندے میں اس کا مکھوٹا صادق باشا ہوا کرتا تھا ۔ جب سی بی آئی نے اس کے اطراف شکنجہ تنگ کیا اور وہ تعاون کیلئے تیار ہوگیا تو اسے قتل کروا دیا گیا ۔جو لوگ اپنے بہی خواہوں کو بلی کا بکرہ بنانے میں پس وپیش نہیں کرتے ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اجنبی معصوموں کا خون ِ ناحق بہانے سے گریز کریں گے خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے ؟ مواصلات کے شعبے میں ہونے والی اس زبردست بدعنوانی کا حزبِ اختلاف بی جے پی کوئی فائدہ نہیں اٹھا پا رہی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ کانگریس نے بڑی عیاری کے ساتھ سی بی آئی کی تفتیش کا دائرہ کار وسیع کردیا ہے اور اس میں این ڈی اے کے وزراء پرمود مہاجن ،رام ولاس پاسوان اور ارون شوری کو بھی شامل کرلیا ہے ۔ان لوگوں نے سابقہ وزیرِ خزانہ جسونت سنگھ سے بھی پوچھ تاچھ شروع کرکے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے اس لئے یہ بیچارے انا ہزارے کی حمایت قناعت کر کے بیٹھےر ہے ۔ یہ بات قابلِ غور ہے دھماکے کے بعد اڈوانی نے دہشت گردی کے بجائے بدعنوانی کے خلاف رتھ یاترا کا اعلان کر دیا ۔ اس سے پہلے جو نوجوان قیادت اڈوانی کی رتھ میں پیش پیش ہوتی تھی اب وہ سرد مہری دکھلا رہی ہے اس لئے کہ انہیں اس کے پہئیے تلے اپنے خواب کچلتے ہوئے دکھلائی دیتے ہیں ۔

اس ماہ کے حالات مئی سے زیادہ سنگین تھے امرسنگھ کے علاوہ دو مرکزی وزراءدیشمکھ اور شندے پر آدرش گھوٹالے کے الزامات نیز ائیر انڈیا اور ریلائینس پر سی اے جی کی رپورٹ یہ ایک بڑے دھماکے کا تقاضہ کرتی تھی۔ سرکار جانتی تھی کہ امر سنگھ منگل کو گرفتار ہوں گے ان کی درخواستِ ضمانت بدھ کو نامنظور ہوگی اور جمعرات کو سی اے جی کی رپورٹ پارلیمان میں پیش ہوگی ۔ حکومت کو یہ بھی پتہ تھا کہ اس رپورٹ میں کس قدر دھماکہ خیز انکشا فات ہوں گے اس لئے بدھ کا دن دہلی ہائی کورٹ کے دھماکے کیلئے مختص کیا گیا اور سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا ۔ پر فل پٹیل نے تو خیر ٹی وی پر اپنی صفائی پیش کر دی لیکن ریلائنس کے دفتر تو ذرائع ابلاغ والے رپورٹ یا انٹرویولانے کے بجائے صرف تحفے تحائف لےکر لوٹ آئے اور انہیں عوام کی نظروں سے چھپا دیا ۔ پرفل پٹیل نے بجائے ۱۱۱ جہاز خریدنے کا جواز پیش کرنے کہ سی اے جی رپورٹ میں تضادات نکالنے شروع کر دئیے ۔ ائیر انڈیا نے ایک ایسے وقت میں جبکہ اس کا جہاز ڈوب رہا ہے ۴۰،۰۰۰ کروڑ کا سودہ بغیر بازار کی جانچ پڑتال کے کر دیا۔ ایسا کرنے کیلئے پہلے انڈین ائیرلائنز کو اس میں ضم کیا گیا اس فیصلے پر بھی سی اے جی نے اعتراض کیا اور پھر بڑی جلد بازی میں ایک ایسی ضرورت پیش کی گئی جو نامعقول ہے فی الحال اس دم توڑتی کمپنی کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے مالی وسائل نہیں ہیں اس لئے کہ یہ ۳۸۰۰۰ ہزرا کروڑ خسارے میں ہے ۔ اگر یہ احمقانہ سودہ نہیں کیا گیا ہوتا تو ائیر انڈیا خسارے کے بجائے منافع میں ہوتی۔یہ کمپنی ایک جانب جہاز خرید رہی ہے اور دوسری طرف غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کو ہندوستانی ہوائی اڈوں تک رسائی دی جارہی ہے اس خود کش حکمتِ عملی پر بھی سی اے جی نے اعتراض کیا ہے ۔

کرشنا گوداوری کے ڈیلٹا میں ریلاینس کی جانب سے تیل کے ذخائر کا انکشاف اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز خبر تھی اس لئے کہ یہ نوزائیدہ نجی کمپنی مغربی ہندوستان میں کام کرتی تھی اورسرکاری ادارہ او این جی سی برسوں سے معدنی تیل کی تحقیق و تفتیش میں لگا ہوا تھا اس لئے ہونا تو یہ چاہئے تھا او این جی سی کو اس کا پتہ چلتا خیر لکشمی دیوی کی کرپا سے وہ چمتکارہو گیا ۔ اس کے بعد ریلائنس نے حکومت سے معاہدہ کر کے وہ علاقہ اپنے قبضے میں کیا لیکن ٹھیکے میں اراضی کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی نہیں کی ۔اس لئے ایک کے بعد ایک دس اضافی ٹھیکے دئیے گئے اور یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا ۔سی اے جی کے مطابق ڈائرکٹر جنرل ہائیڈروکاربن کو چاہئے تھا کہ وہ ریلائنس کو دوسرے مرحلے سے روک دیتے اس لئے ا ب ٹھیکے کےدس مرحلوں پر نظر ثانی ہونی چاہئے اور ایسا کرنے کیلئے ڈائرکٹر صاحب اہل نہیں ہیں ۔ ریلائنس نے ۲۵ فی صد تیل سے مالامال علاقہ حکومت کو واپس کرنے کی شرط سےبھی روگردانی کی ہے ۔ ریلائنس کی دھاندلی کی فہرست کافی طویل ہے ایک طرف اس نے پیداوار کی تقسیم میں چوری کی اور دوسری جانب جن کنووں سے تیل نکالا جاچکا انہیں قائدے سے بند کرنے کی ماحولیاتی ذمہ داری بھی ادا نہیں کی۔چند سال قبل ہندوستان جیسے غریب ملک کے سرمایہ دارمکیش امبانی کو جب دنیا کے سب سے امیر آدمی ہونے اعزاز حاصل ہوا تو سب لوگ حیرت زدہ تھے لیکن اگر حکومت ِوقت اپنا قومی سرمایہ نجی لوگوں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے لگے تو یہی ہوگا کہ عوام غریب سے غریب تر اور سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے چلے جائیں گے۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کے زیر سایہ ہندوستان میں یہی ہو رہا ہے ۔منموہن جی نے جس وقت اقتدار سنبھالا تھا اس وقت لوگ انہیں نہایت صاف ستھرے کردار کا حامل سیاستداں سمجھتے تھے لیکن اب حال یہ ہے کہ ان کی حکومت کو ہندوستانی تاریخ کی سب سے زیادہ بد عنوان حکومت ہونے کا شرف حاصل ہو چکا ہے یہ اور بات ہے کانگریسی حضرات تو کجا بدعنوانی کے خلاف لڑنے والےدورِ حاضر کے عظیم سورما انا ہزارے بھی ان کی تعریف توصیف میں رطب اللسان ہیں گویا ایک طرف ملک دھماکوں کی زد میں اور دوسری جانب انشا جی کے نام کو منموہن سے بدل کر ان کے شعر کو یوں پڑھا جارہاہے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم منموہن کا نام نہ لو، کیا منموہن سودائی ہیں
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451033 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.