پیارے بچوں! آج آپ کے لۓ ایک سبق آموز کہانی لائ ہوں۔
کہانی کے اختتام پر آپ خود کوشش کیجیۓ گا یہ جاننے کی کہ آپ نے اس کہانی سے
کیا سبق حاصل کیا۔ ویسے میں تو آپ کو بتا ہی دونگی۔
کئ برسوں پرانی بات ہے افریقہ کے گھنے جنگلات میں سے ایک نہایت ہی قدیم
جنگل میں بہت سے جنگلی جانور رہتے تھے۔ سب ہی ایک دوسرے سے مانوس تھے اور
پرسکون زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن وہاں سے ایک لومڑی کا
گزر ہوا۔ اسے وہ جنگل بہت بھایا۔ اس نے ویہیں رہنے کی ٹھانی۔
وہ لومڑی بہت ہی باتونی اور چالاک تھی جبکہ جنگل کے تقریباً سبھی جانور
اپنے کام سے کام رکھنے والے تھے۔ گو کہ تمام جانور ہی خوش مزاج تھے اور ایک
دوسرے کی غمی خوشی میں شامل ہوتے مگر ذیادہ بات چیت کرنا اس جنگل میں جیسے
معیوب سمجھا جاتا۔
لومڑی کو ابتداء میں تو سب ہی جانوروں نے دل سے خوش آمدید کہا کیونکہ ایک
تو وہ اس جنگل کی واحد لومڑی تھی دوسرا شوخ مزاج بھی۔ اس کے آنے سے تو جیسے
جنگل میں بہار آ گئ ہو۔ ہر وقت خوب رونق لگی رہتی مگر جوں جوں وقت گزرا
جنگل کے جانور باتونی لومڑی کی باتوں سے اکتانے لگے۔ آہستہ آہستہ تمام
جانوروں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کر دی۔ اس دوری کی وجہ صرف اس
کا باتونی ہونا نہیں تھا بلکہ اس کی چغل خوری اور غیبت کی بری عادات بھی
تھیں۔
جنگل کے سبھی جانور کیونکہ برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے تھے اس لۓ کسی نے
اس کی باتوں پر خاطر خواہ دھیان نہ دیا بلکہ اس سے دور دور رہنے لگے۔ دل دل
میں تو وہ سب ہی چاہتے کہ لومڑی یہ جنگل چھوڑ جاۓ مگر کسی میں یہ بات کہنے
کی ہمت نہ ہوتی کیونکہ وہ ہر جانور کے سامنے اس کی بہت تعریف کرتی اور اسے
ہی اپنا بہترین دوست کہتی۔
موسم گرما کی ایک سہانی شام تھی جب جانوروں نے لومڑی کو جنگل میں نہ پایا۔
انہوں نے موقع غنیمت جانا اور شیر کی سرپرستی میں فوراً ہی اپنی بیٹھک
لگائ۔ سب نے باتونی لومڑی کو جنگل سے بھگانے کے مختلف طریقے اور تجاویز پیش
کیں۔ آخر کار میاں الؔو کی ذہانت کی وجہ سے سب نے اس کی تجویز کو درست اور
کار آمد جانتے ہوۓ 'اوکے' کر دیا۔ گدھے کو اس ڈرامے کا مرکزی کردار ادا
کرنا تھا۔
اگلے دن سے ہی اس ڈرامے کی پہلی قسط کا آغاز ہوا۔ جہاں بھی گدھے کو لومڑی
نظر آتی وہ اس کے پاس پہنچ جاتا اور بہت صبر اور حوصلے سے کئ گھنٹے اس کے
ساتھ اس کی فضول، بے مقصد، غیبت اور چغلی سے بھری باتیں سنتا۔ دو چار دن تک
ایسا ہی ہوتا رہا۔ باتونی لومڑی خوشی سے پھولے نہ سماتی کیونکہ اسے ایک بہت
اچھا سامع جو مل گیا تھا جو بغیر کچھ کہے اس کی باتیں گھنٹوں تک سنتا۔ اسکے
برعکس جنگل کا کوئ جانوراس کے پاس ذیادہ وقت نہ گزارتا تھا۔
چند دن ایسا ہی چلتا رہا۔ آخر کار وہ خاص دن آگیا جب سب جانوروں نے چھپ کر
اپنی اپنی جگہ سنبھال لی کیونکہ ڈرامے کا اختتام جو ہونے والا تھا۔ باتونی
لومڑی اور گدھا جنگل کی نہر کے کنارے پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ حسب
معمول لومڑی جب گھنٹہ بھر بول چکی تو گدھا اٹھ کے چل دیا اور گھاس چرنے
لگا۔
اتنے میں یک دم سب جانور اپنی جگہ سے نمودار ہوۓ اور لومڑی کو گھیر لیا اور
اس سے خوش گپیاں کرنے لگے۔ باتونی لومڑی بڑی حیران ہوئ کہ یہ سب جانور کیسے
اکٹھے اس کے پاس آ گۓ جو کبھی دور دور سے سلام یا حال احوال دریافت کرنے پر
ہی اکتفا کرتے۔ خیر اس نے فخریہ انداز میں کہا کہ تم سب سے اچھا تو گدھا ہے
جو میرے ساتھ وقت بھی گزارتا ہے اور گھنٹوں میری باتیں بھی سنتا ہے۔ لومڑی
کا یہ کہنا تھا کہ جانوروں میں سرگوشیاں ہونے لگیں اور دبی دبی ہنسی کی
آوازیں آنے لگیں۔
اس سے پہلے کہ لومڑی وجہ جاننے کے لۓ کچھ بولتی، ہرن سے رہا نہیں گیا۔ اس
نے کہا تم بھی کتنی بھولی ہو 'بی لومڑی' گدھا بیچارا تو ہے ہی بہرہ جبھی تو
وہ تمہارے ساتھ اتنا وقت گزار لیتا ہے ورنہ کوئ کانوں سے سننے والا تو۔۔۔
بس اتنا کہنا تھا کہ تمام جنگل جانوروں کے قہقہوں سے گونج اٹھا۔
لومڑی یہ بات سن کر اتنی کھسیانی ہوئ کہ وہاں سے بھاگ نکلی اور اس دن کے
بعد پھر دوبارہ کسی جانور نے اسے اس جنگل میں نہ دیکھا۔ لومڑی کے رفو چکر
ہوتے ہی تمام جانوروں نے میاں الؔو اور گدھے کے لۓ زوردار تالیاں بجا کر
انہیں داد دی کیونکہ لومڑی سے جان چھڑوانے میں گدھے نے بہت ہی صبر سے کام
لیا تھا جو ہر جانور کے بس کی بات نہ تھی۔
جی تو بچوں کیا سبق حاصل کیا آپ نے اس کہانی سے؟ جی ہاں! جو لوگ بہت ذیادہ
بولتے ہیں یا غیبت،چغلی کرتے ہیں ان سے کوئ دوستی نہیں کرتا بلکہ سب اس شخص
سے دور بھاگتے ہیں۔ بچوں کسی کی غیبت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ میری طرف سے
بہت ساری تالیاں ان بچوں کے لۓ جنہوں نے صحیح سبق بوجھا۔ خوش رہو آپ سب۔
بہت سی دعائیں آپ کے لۓ۔ ان شاء اللہ جلد ملونگی اک نئ کہانی کے ساتھ۔
اللہ حافظ
|