وہ جان لیوا رات ہمیں کبھی نہیں بھولتی... بمبار طیارے کی تباہی میں زندہ بچ جانے والے عملے کی کہانی جو آپ کی بھی نیند اڑا دے

image
 
دوسری عالمی جنگ کے دوران یکم مئی 1943 کو ہالینڈ میں ایک بمبار طیارہ گرا۔ اس طیارے میں عملے کے زیادہ تر ارکان کینیڈا سے تعلق رکھتے تھے۔
 
طیارے کے حادثے کے تقریباً 80 سال بعد بی بی سی نے زندہ بچ جانے والوں اور ان کے اہلخانہ سے بات کی۔
 
جینیٹ اور ان کے خاندان کے لیے یہ دن ہمیشہ سے ہی یادگار رہا ہے۔
 
ان کے والد میک ریلی اکثر اپنے دوست میکلم سے فون پر ان دنوں کے بارے میں بات کرتے جنھوں نے ان کی جوانی اور بعد کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔
 
دوسری عالمی جنگ لڑنے والی نسل میں سے اب صرف چند ہی ان واقعات کو بیان کرنے کے لیے زندہ بچے ہیں۔
 
یہ کہانی ایک ہینڈلی پیج ہیلی فیکس ہیوی بمبار طیارے کے عملے کے بارے میں ہے، جن میں سے زیادہ تر کینیڈین تھے، جس کے ذریعے یورپ کی جنگ کے دوران جرمنی پر بمباری کی گئی۔
 
یہ طیارہ اتحادی افواج کے ان 8000 طیاروں میں سے ایک تھا جو بمباری کی کارروائی میں تباہ ہو گئے تھے۔
 
زندہ بچ جانے والوں، ان کے اہل خانہ اور کینیڈا کے بمبار کمانڈ میوزیم کے ریکارڈ کی مدد سے، بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ طیارہ کیسے گر کر تباہ ہوا اور اس کے بعد کیا ہوا۔
 
image
 
عملے کے ارکان اینڈی ہارڈی، میکلم اور ریلی نے پہلی بار جولائی 1942 میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ 1943 کے موسم گرما میں ٹیل گنر ریڈ او نیل، فلائٹ انجینئر کین کالوپی اور اپر گنر روم ویلر بھی عملے میں شامل ہوئے۔
 
ان کے ساتھ فلائٹ لیفٹیننٹ ہربرٹ فلپسن اٹکنسن بھی تھے جو رائل کینیڈین ایئر فورس میں بہترین پائلٹ سمجھے جاتے تھے۔
 
ان کے سکواڈرن میں طیاروں کی تباہی کی شرح اتنی زیادہ تھی کہ اس عملے کو ’خوش قسمت‘ سمجھا جاتا تھا۔
 
کینیڈین بمبار کمانڈ میوزیم کے ریکارڈ کے مطابق، دوسری جنگ عظیم کے دوران 1943 میں اس قسم کے طیاروں کو چلانے والے عملے میں سے صرف 15 فیصد عملہ زندہ بچا تھا۔
 
مشکل ہدف اور جان لیوا رات
30 اپریل 1943 کو اس بمبار طیارے کے عملے کو ایک انتہائی مشکل مشن دیا گیا۔ ان کے ساتھ پانچ اور جہازوں کو بھی اس مشن میں شریک ہونا تھا۔
 
ان کو حکم ملا تھا کہ اس رات ان کو جرمنی کے شہر ایسن پر بمباری کرنی تھی جو سٹیل کے کارخانے سمیت جرمنی کے فوجی سازوسامان بنانے کے لیے بہت اہم جگہ تھی۔
 
دھند کے باعث انھوں نے آدھی رات کو ٹیک آف کیا۔
 
رات کے تین بج رہے تھے جب اٹکنسن نے بم گرانے کے لیے دروازے کھولنے کا حکم دیا۔ اس وقت طیارہ سٹیل فیکٹری کی بڑی بھٹی کے اوپر تھا۔
 
نیچے ہزاروں سرچ لائٹس روشن تھیں اور ایسن کی حفاظت میں طیارہ شکن توپیں زبردست فائرنگ کر رہی تھیں۔
 
اچانک نیوی گیشن آفیسر ہارڈی چلائے کہ ’مجھے گولی لگ گئی ہے۔‘ طیارہ شکن گولہ لگنے سے ان کی دائیں ٹانگ ٹخنے سے نیچے اڑ چکی تھی۔
 
میکلم نے ہارڈی کو بچانے کی پوری کوشش کی۔ انھوں نے اسے بمبار جیکٹ میں لپیٹ کر مارفین کا انجیکشن لگایا۔ لیکن ہارڈی کو بچایا نہیں جا سکا۔
 
نیوی گیٹر کے ہلاک ہو جانے کے بعد اٹکنسن نے ریلی کو جلد از جلد بم گرا کر طیارے کو ہدف سے دور لے جانے میں مدد فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
 
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہارڈی کا نقشہ اس کے خون سے رنگا ہوا تھا اور اسے پڑھا نہیں جا سکتا تھا۔ چنانچہ ریلی نے انگلینڈ واپسی کے لیے ستاروں کی مدد لی۔
 
قسمت نے ساتھ نہ دیا
اس دوران گولے جہاز کے فیول ٹینک سے ٹکرا رہے تھے۔ ویلر نے اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر طرف آگ تھی۔‘
 
میکلم نے بتایا کہ ’کپتان نے جہاز کو پہلے نیچے اور پھر اوپر کیا، جس سے آگ تھوڑی سی بجھ گئی، لیکن پھر دوبارہ بھڑک اٹھی اور پروں تک پھیل گئی۔‘
 
ایٹکنسن نے طیارے کو ایک اور غوطہ دینے کا فیصلہ کیا تاکہ جہاز کو سنبھالا جا سکے۔ اس فیصلے نے طیارے کو اتنا استحکام دیا کہ عملہ کپتان کی ہدایات پر عمل کر سکتا اور جہاز سے پیرا شوٹ کی مدد سے چھلانگ لگا سکتا۔
 
ریلی اور اونیل اس سے قبل اکتوبر 1942 میں ایک حادثے کے دوران طیارے سے چھلانگ لگا چکے تھے۔ اس حادثے میں صرف وہی دونوں زندہ بچے تھے۔
 
کالوپی ہوائی جہاز سے چھلانگ لگانے والا آخری شخص تھا۔ اس دوران کپتان اٹکنسن جہاز کو اڑاتے رہے تاکہ باقی عملہ محفوظ طریقے سے باہر نکل سکے۔ اٹکنسن خود زندہ نہیں بچ سکے۔
 
image
 
لیکن ان کی اس قربانی نے عملے کے چھ ارکان کی زندگی بچانے میں مدد کی۔ یہ چھ لوگ ہالینڈ کے آلسٹ علاقے میں درختوں کے درمیان اترے۔ انھیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔
 
قید کی زندگی
اس واقعے کے برسوں بعد، ویلر نے یاد کیا کہ وہ کس طرح ایک ایسی جگہ پر اترا جہاں گائیں موجود تھیں۔
 
وہ فضا میں باقی بمباروں کی واپسی کی آواز سن سکتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ اب ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ان کو تنہائی کا احساس ہوا۔
 
ان لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے جرمن فوجیوں نے نازیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں مختلف قیدی کیمپوں میں بھیج دیا۔
 
کالوپی اور اونیل کو شمالی جرمنی، میکلم کو لتھوانیا جبکہ ریلی، نرس اور ویلر کو پولینڈ بھیجا گیا۔
 
ریلی افسر تھے اس لیے ان کو ’اسٹالگ لفٹ 3‘ کیمپ بھیجا گیا۔ اس کیمپ سے اتحادی فوجیوں نے فرار کی کوشش کی تھی جس پر ہالی وڈ کی مشہور فلم ’دی گریٹ اسکیپ‘ بنائی گئی۔
 
اس فلم میں قیدیوں کے رہنے والے کوارٹرز سے کیمپ کے باہر جنگل تک تین سرنگیں کھودنے کے واقعے کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
 
لیکن حقیقت میں منصوبہ یہ تھا کہ برطانوی رائل ایئر فورس کے 200 اہلکاروں کو اس سرنگ کے ذریعے کیمپ سے جعلی دستاویزات اور سویلین ملبوسات کی مدد سے نکالا جائے۔ یہ تمام دستاویزات کیمپ میں ہی بنائے گئے تھے۔
 
لیکن صرف 76 اہلکار اس سرنگ کے ذریعے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جن میں سے صرف تین ہی گرفتاری سے بچ سکے۔ جوابی کارروائی میں گسٹاپو نے 50 اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔
 
ریلی کا نمبر 86 تھا، لیکن ان کو اس سرنگ میں جانے کا موقع نہیں ملا جس کی تعمیر میں انھوں نے مدد کی تھی۔
 
شروع میں ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ فرار کی کوشش میں شریک ہونے والے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ قیدیوں کی کرکٹ لیگ کا حصہ بن رہے ہیں۔
 
ہوائی جہاز سے چھلانگ لگاتے ہوئے ریلی کے گھٹنے اور ٹخنے میں چوٹ آئی تھی۔ ریلی کا کہنا ہے کہ ’میں سرنگ کی کھدائی کے نتیجے میں نکلنے والی ریت کو ٹھکانے لگانے کا ذمہ دار تھا۔‘
 
جب جنگ کے اختتام کے قریب شدید سردی میں ان کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ مارچ کرنا پڑا تو ان کے گھٹنے کی تکلیف میں اضافہ ہوا۔
 
نازی ان قیدیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے تاکہ بڑے شہروں پر اتحادیوں کی بمباری کے دوران خود کو بچا سکیں۔
 
زندہ بچ جانے والوں نے چار ماہ تک سینکڑوں میل پیدل طے کیا۔ اس دوران انھوں نے بھوک، تھکاوٹ، پکڑے جانے یا گولی لگنے جیسے تمام خطرات کا سامنا کیا۔
 
میکلم کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی ایسی ہڈیوں کو جما دینے والی سردی کا سامنا نہیں کیا تھا۔
 
ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ان کے مارچ کو جرمن فوج کا دستہ سمجھتے ہوئے اتحادی طیاروں نے حملہ کر دیا۔ میکلم مشکل سے زندہ بچے۔
 
image
 
میک کیلم کا کہنا ہے کہ ’جرابوں کے بغیر جوتوں میں چلنے کے نشانات زندگی بھر رہیں گے۔‘
 
ہوائی جہاز کے حادثے کے دو سال بعد ریلی کو شمالی جرمنی کے شہر لوبیک سے آزاد کرایا گیا۔
 
ان کا وزن 25 کلو کم ہو چکا تھا۔ ویلر کو میونخ کے قریب سے آزاد کرایا گیا تھا۔
 
جنگ کے بعد کی زندگی
زندہ واپس آنے والے تمام چھ افراد کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔ یہ لوگ جنگ میں حصہ لینے کے لیے کینیڈا سے روانہ ہوئے تھے۔
 
میکلم کے لیے، گھر واپسی کا مطلب تھا کہ اب وہ روز میری سے شادی کر سکیں گے۔ وہ دونوں جنگ سے پہلے ملے تھے۔ ان کی شادی 14 جولائی 1945 کو ہوئی۔
 
image
 
جنگ کے دوران ان کا رابطہ خطوط کے ذریعے قائم رہا تھا۔
 
جب میکلم نے سکول کے بعد فوج میں بھرتی ہونے کے فیصلہ کیا تو اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ انھوں نے بطور الیکٹریشن تربیت حاصل کی تاکہ نئی زندگی کے سفر کا آغاز کر سکیں۔
 
بڈی میکلم اور روز نے اپنے آبائی شہر گرافٹن میں ہی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا اور میکلم کے سسر نے ابتدائی طور پر کام تلاش کرنے میں ان کی مدد کی۔
 
کیلوپی فروبیشر گاؤں کے کنارے واقع اپنے خاندانی فارم واپس چلے آئے، جس کی آبادی اس وقت 150 تھی۔
 
وہ ان چند افراد میں شامل تھے جو جنگ کے بعد اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جنگ کے لیے رضاکارانہ طور پر فوج میں بھرتی ہونے والے 17000 لوگ واپس نہیں آ سکے۔
 
image
 
میکلم کے بیٹے وائین کو اپنے والد کی موت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ساری زندگی ڈراؤنے خواب دیکھتے رہے۔
 
ریلی کی بیٹی، جینیٹ، یاد کرتی ہے کہ ’طیارے کے حادثے، قید کی اذیت اور پیدل مارچ کے ڈراؤنے خوابوں کو بھلانے کے لیے ان کے والد نے شراب کا سہارا لیا‘ لیکن جب جینیٹ تین سال کی تھیں تو انھوں نے شراب نوشی ترک کر دی۔
 
1950 کی دہائی میں انھیں اس صدمے کی وجہ سے دو بار اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
 
ریلی کہتے ہیں کہ ’آدھی رات کو جب میں سو نہیں پاتا اور مجھے دھندلی یادیں آتی ہیں، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ سب ٹھیک تھا۔ پھر بھی، سچ پوچھیں تو، اس سب کے باوجود، مجھے خوشی ہے کہ میں نے رضاکارانہ طور پر کام کیا۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: