گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم... عثمانیہ دور کی قدیم حویلیوں کے چند ایسے راز کہ لوگ آج بھی ان میں رہنے پر مجبور

image
 
سلطنت عثمانیہ کے دور کے اس شہر میں زندگی کی گہما گہمی تھی۔ پرانے سرائے نئے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کر رہے تھے جبکہ سجی ہوئی دکانیں خوشبودار صابن سے لے کر ہاتھ سے بنی ترک مٹھائی ’لوکم‘ تک سب کچھ فروخت کر رہی تھیں۔
 
اس سب کے باوجود جس چیز نے میری توجہ حاصل کی وہ شہر کی عجیب و غریب گلیوں میں لکڑی سے بنی ہوئی سینکڑوں حویلیاں تھیں۔ چمکتے سفید پتھر کے اگواڑے، سرخ رنگ کی چھتوں اور بھوری رنگ کی کھڑکیوں کے ساتھ، وہ کسی پریوں کی کہانی جیسی معلوم ہوتی تھیں۔
 
ترکی کے بحیرۂ اسود کے خطے میں صوبے کارابوک میں واقع شہر سفرانبولو، چین اور مغرب کے درمیان قدیم تجارتی راستے شاہراہ ریشم کے ساتھ ایک اہم تجارتی مقام تھا۔
 
یہ شہر زعفران کی تجارت کے لیے مشہور تھا اور اٹھارویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کا ایک اہم شہر سمجھا جاتا تھا۔ اس کی گلیوں میں مساجد، حمام اور یہ روایتی ترک حویلیاں ’کوناکلر‘ کہلاتی ہیں۔
 
آج سفرانبولو میں 2000 سے زائد قدیم اور سلطنت عثمانیہ کے دور کی کوناکلر موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سی مقامی افراد کی رہائشگاہیں ہیں لیکن کچھ کو بوتیک، ہوٹلوں، ریستورانوں، کیفیز اور عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ دیکھنے میں خوبصورت ہیں بلکہ یہ حویلیاں پائیدار فن تعمیر اور سماجی طور پر ذمہ دارانہ طرز تعمیر کی شاندار مثالیں ہیں۔
 
اگرچہ ان کی اہمیت نے اس شہر کو سنہ 1994 میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا لیکن ترکی سے باہر بہت سے لوگ اب بھی ان کے وجود سے لاعلم ہیں۔
 
image
 
مجھے اس شہر کی خوبصورتی دیکھنے کا موقع استنبول میں ایک سفری کتابچے میں شائع اس سے معلومات دیکھ کر ملا تھا۔ اس کتابچے میں شائع ایک تصویر میں ان دلکش گھروں نے اس وقت تک مجھے اپنی جانب راغب کیا جب تک میں نے استنبول سے 400 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع سفرانبولو جانے کے لیے ٹرین، بس اور ٹیکسی کا سفر کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔
 
جب تک میں یہاں پہنچی دوپہر ہو چکی تھی اور دن گرم ہو رہا تھا۔ تاہم میں نے جلد ہی کامیلکا کوناغی نامی ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ یہ تین سو سالہ پرانی حویلی ہے جو اب ایک ہوٹل میں تبدیل ہو چکا ہے اور گذشہ چھ برسوں سے مہمانوں کو خوش آمدید کر رہا ہے۔ جیسے ہی میں وہاں داخل ہوئی تو مجھے ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔
 
یہ تقریباً ایسا ہی تھا جیسے کسی نے ایئرکنڈیشنر آن کر دیا ہو۔ مگر وہاں تو کوئی اے سی نہیں تھا، بلکہ برآمدے میں پتھر سے بنی دیواریں تھی۔
 
اس ہوٹل کی مالک اوزلم اوزن نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اگلے دو دنوں کے لیے میرا استقبال کیا اور وضاحت کی کہ ’سفرانبولو کے گھر اس طرح سے بنائے گئے ہیں کہ گرمیوں میں وہ لوگوں کو ٹھنڈا رکھیں۔‘
 
سفرانبلو کا ایک منفرد جغرافیہ اور آب و ہوا ہے۔ پرانا شہر ایک گہری کھائی کی ڈھلوان پر واقع ہے۔ یہاں موسم گرم نرم اور صاف ہوتا ہے، جبکہ سردیاں سرد اور برفیلی ہوتی ہیں۔
 
کامیلکا کوناغی بھی دیگر کوناکلر کی طرح درجہ حرارت کے ان تغیرات کو اپنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
 
گذشتہ 20 برسوں کے دوران سفرانبولو میں 100 سے زیادہ کوناکلر کی بحالی اور تزین و آرائش کرنے والے ایک مقامی آرکیٹکچر فتح دوکمسی کہتے ہیں کہ ’ہمارے یہ گھر مقامی سطح پر دستیاب لکڑی اور پتھروں سے بنے ہیں جو تمام موسموں میں ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر زبردست تھرمل انسولیشن کا کام کرتے ہیں۔‘
 
میں جب کملیکا کوناغی میں پتھروں سے بنے ایک بڑے برآمدے سے گزر کر پہلی منزل پر اپنے ایک کشادہ کمرے میں پہنچی تو میں یہ دیکھ کر حیران تھی کہ جون کی ایک گرم دوپہر میں بھی یہ پوری حویلی کتنی ہوا دار اور ٹھنڈی تھی۔
 
اس حویلی کی پہلی منزل پر موجود مرکزی حال جسے صوفہ حال کا نام دیا گیا تھا اور جو تمام کمروں سے منسلک تھا بہت ہوا دار اور آرام دہ تھا۔
 
image
 
دوکمسی بتاتے ہیں کہ ’سفرانبولو میں تمام حویلیوں میں موجود صوفہ ہال دور عثمانیہ کے روایتی طرز تعمیر کومبا کی طرز پر بنے ہیں اور یہ خاص طور پر روشنی اور ہوا کے گزر کو بڑھاتے ہیں۔‘
 
کومبا دراصل حویلی کی پہلی منزل پر کمرے کی ایک اضافی توسیع ہے جس میں ایک یا زیادہ اطراف میں کھڑکیاں لگائی گئیں ہے۔ یہ ڈھانچہ ہر طرف سے ہوا کے گزر کو ممکن بناتا ہے اور اس وجہ سے صوفہ ہال کو باقی گھر کے مقابلے میں ٹھنڈا کر دیتا ہے۔
 
اوزن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’گرمیوں میں آپ ہم سب کو صوفہ ہال میں ہی پائیں گی۔‘
 
حویلی کے میرے دورے سے کچھ اور بھی دلچسپ انکشاف ہوا اور وہ یہ کہ پہلی منزل پر مہمانوں کے کمروں کی چھتیں استقبالیہ ہال اور گراؤنڈ فلور پر ناشتے کے لاؤنج سے کافی نیچی تھیں۔
 
اوزن نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ جان بوجھ کر نیچی رکھی گئی ہیں تاکہ سردیوں میں انھیں گرم کرنے میں کم وقت اور توانائی خرچ ہو۔
 
انھوں نے مزید بتایا کہ ماضی میں سفرانبولو میں لوگ اپنے گھروں کی پہلی منزل پر باورچی خانہ بناتے تھے تاکہ وہاں سے نکلنے والی گرمائش کمروں کو گرم رکھنے میں مدد دے۔
 
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’اب بہت عرصے سے گھروں میں باورچی خانے گراؤنڈ فلور پر منتقل ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی ان کمروں کی نیچی چھتوں کے باعث یہاں کے باسی سردیاں، گرم اور آرام دہ گزارتے ہیں۔‘
 
جیسے ہی میں نے اپنے سویٹ (کمرے) کی چھوٹی سی کھڑکی سے باہر جھانکا تو مجھے حویلی کے چاروں طرف پتھر اور کچی اینٹوں سے بنی اونچی دیواریں نظر آئیں، جو اسے سردیوں میں بحیرۂ اسود کی تیز اور سرد ہواؤں سے بچانے کی ایک اضافی تہہ فراہم کر رہی تھیں۔
 
اگلے دو دنوں میں، میں نے سفرانبولو کی پہاڑی، پتھروں سے بنی گلیوں میں ٹہلتے ہوئے کئی اور دور عثمانیہ کی حویلیوں کو دیکھا۔ جن میں سے کچھ خستہ حال دیواروں اور چمکتے ہوئے پینٹ کے ساتھ تھیں جبکہ دیگر کی خوبصورتی سے تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ لیکن ان سب کو ماحول دوستی کے احساس کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔
 
کیمکملر ایو ہاؤس میوزیم بھی انھیں قدیم حویلیوں میں سے ایک کو تبدیل کر کے بنایا گیا تھا۔ یہ قدیم کونک کبھی سفرانبولو کی فوجی بیرکوں میں شامل ایک اعلیٰ کمانڈر مہمت ایفندی کا تھا۔
 
image
 
پتھروں سے بنی دیواریں، مقامی لکڑی کا بہت زیادہ استعمال اور وسیع صوفہ ہال یہ دور عثمانیہ کے ماحول دوست فن تعمیر کا شاندار نمونہ اور نمائندگی تھی۔
 
یہ یہاں کی تعیمرات کی ایک روایتی تکنیک ’ہمس‘ کی بھی شاندار مثال تھی۔ اس تکنیک میں دیواروں کو بناتے وقت لکڑی سے بنے فریم میں کچی اینٹیں اور گارا ڈالا جاتا تھا جس سے نہ صرف یہ موسمی اثرات سے محفوظ رکھتی بلکہ زلزلے کی صورت میں بھی اثرات کو برداشت کر سکتی تھی۔
 
یہاں میں نے دور عثمانیہ کی جو سب سے زیادہ خوبصورت حویلی دیکھی وہ حوزلو آسمازلر کوناغی تھی۔ یہ سفرانبولو کا پہلا ہوٹل بھی تھا۔
 
اگرچہ یہ درحقیقت حسین آغا کے امیر خاندان کے لیے تعمیر کی گئی تھی لیکن اس کی تعمیر میں بھی کمروں، صوفہ حال اور باغیچہ بناتے وقت بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ اس میں گھر کے اندر ایک آرائشی تالاب کا اضافہ نہ صرف کونک کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ اسے گرمیوں میں ٹھنڈا بھی رکھتا ہے۔
 
میں اس تاریخی عمارت سے آگے بڑھی اور کئی تنگ گلیوں میں چڑھ کر یہ دریافت کیا کہ مجموعی طور پر شہر میں گرمیوں اور سردیوں کے لیے رہائش کے خصوصی انتظامات ہیں۔
 
سفرانبولو کے لوگوں کے پاس عمومی طور پر شہر میں دو گھر ہیں جن میں وہ موسم سرما اور گرما کے دوران منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ایک شہر کا نچلہ حصہ جسے ’سحر‘ کہا جاتا ہے جو زیادہ گرم ہے اور سردیوں میں رہنے کے لیے آرامدہ ہے اور دوسرا شہر کا بالائی حصہ جسے ’بغلار‘ کہا جاتا ہے جو زیادہ ٹھنڈا اور ہوا دار ہے اور اسے گرمیوں میں رہائش کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
 
اس طرح سے مقامی اپنی طرز زندگی کو موسم اور جغرافیہ کے مطابق ڈھالتے ہیں۔
 
ترکی کے شہر انقرہ میں کینکیا یونیورسٹی میں فن تعمیر کی سربراہ ڈاکٹر گلسو الوکواک ہارپوتگل کہتی ہیں کہ ’روایتی ترک مکانات ایک ایسے انداز کے ساتھ بنائے گئے ہیں جو ماحول یا پڑوس میں خلل نہیں ڈالتے ہیں۔‘
 
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ماحول اور مقامی کمیونٹی کے احترام کی یہ صورت سفرانبولو کے کونکلر میں خود بخود ماحول دوستی کو سامنے لاتی ہے۔‘
 
image
 
یہ دیکھنا بھی دلچسپ تھا کہ کس طرح سفرانبولو کے لوگوں نے اپنے گھروں کی تعمیر میں اچھے پڑوسی ہونے کی روش کو شامل کیا ہے۔ ایک سڑک پر تمام سفرانبولو کوناکلر کے عقبی حصے کو پہاڑی کی ڈھلوانوں کے حساب سے بنایا گیا تھا تاکہ کسی کا گھر کسی دوسرے کے گھر میں سورج کی روشنی، ہوا یا نظارے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ تنگ گلیوں میں گھروں کے لیے یہ عام بات تھی کہ ان کے کونے ہموار کیے جاتے تھے تاکہ جانور اور گاڑیاں آسانی سے گزر سکیں۔
 
اوزن نے مجھے بتایا کہ ایک ہی علاقے میں رہنے والوں کا دوسروں کی ضروریات کا احترام کرنا ان کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے گھروں کی تعمیر پورے محلے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس طرح اپنا گھر بنانے نے مجھے تھوڑا کم خودغرض اور تھوڑا زیادہ انسان بنا دیا۔‘
 
اوزن، جو ہمیشہ ترکی کے ایک روایتی گھر میں رہتی رہی ہیں کو اپنے ورثے پر فخر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کوناک میں رہنا مجھے ایک کمیونٹی کا احساس دیتا ہے اور مجھے فطرت کے قریب محسوس ہوتا ہے۔ میں اپنے مہمانوں کے ساتھ اس باہمی محبت اور گرم جوشی میں سے کچھ بانٹنا کرنا چاہتی ہوں اور ان کی دیکھ بھال اور محبت کا تجربہ کرنے میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہوں جس کا میں نے یہاں تجربہ کیا ہے۔
 
کملیکا کوناغی کو بحال کر کے، میں نہ صرف اپنے ورثے کو بچانے کا ارادہ رکھتی ہوں، بلکہ آنے والی نسل کو بھی اس کی اہمیت سکھانا چاہتی ہوں۔ جو فطرت اور دوسرے انسانوں کے لیے مہربان ہے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: