علاقے کے خوبصورت ترین مہنگے شادی ہال میں دعوت ولیمہ کا
فنکشن جاری تھا موصوف کے معاشرے کے بااثر فرد کا چشم و چراغ ہو نے کی وجہ
سے زندگی کے ہر طبقے کے لوگ فنکشن میں شامل تھے کھانے میں ابھی وقت تھا
مہمانوں کی آمد جاری تھی ہم چند دوست روحانیت تصوف حقیقی تصوف موجودہ
روحانیت پر بات چیت کر رہے تھے ایک پڑھالکھا امیر والدین کا بیٹا بھی ہما
ری گفتگو میں شامل تھا جو بار بار ایک ہی بات پر اصرار کر رہا تھا کہ
روحانیت موجودہ دور کے انسان کی مدد کس طرح کر سکتی ہے یا موجودہ دور کا
انسان کس طرح روحانیت سے مدد لے کرمعاشرے کا با اثر بندہ بن سکتا ہے یا کیا
روحانیت پر عمل پیرا ہو کر کو ئی انسان دنیا کا ہر کام یہاں تک کہ اقتدار
کے چبو ترے پر بھی فائز ہو سکتا ہے کہ نہیں یا روحانیت دنیاوی معا ملات میں
کس حد تک معاون یا مدد گار ہو سکتی ہے یا روحانیت ما ورائی قصے کہانیوں کا
ہی نام ہے روحانیت ہر دور میں فطری رحجان رکھنے والوں کا مشغلہ رہا ہے یعنی
وہ لوگ جو فطری طور پر عبادت کا زیا دہ ذوق رکھتے ہیں خالقِ کائنات سے
حقیقی محبت اور پھر مخلوق خدا کی حقیقی معنوں میں خدمت کرنا چاہتے ہوں لیکن
موجودہ دور چونکہ خو د پر ستی اقتدار کی خواہش اور ما دیت پر ستی میں غرق
ہو چکا ہے یعنی روحانیت کے حقیقی خدو خال پر ما دیت پرستی اقتدار پرستی نے
قبضہ جما لیا ہے اِس لیے آج کے دور کا انسان روحانیت کو بھی فنون لطیفہ کے
دوسرے شعبوں کی طرح ایک آرٹ یا شعبہ قرار دے رہا ہے یا روحانیت کے اسباق
مشقوں پر عمل پیرا ہو کر وہ ماورائی ما فوق الفطرت قوتیں حاصل کرنا چاہتا
ہے جن کے بل بو تے پر اقتدار کی غلام گردشوں میں جھولے جھو لنے کا موقع مل
سکے یا اقتدار کی دیوی آپ کے ہاتھ کی باندی بن سکے جس طرح موجودہ دور کے
انسان کی ترجیحات ہر شعبہ زندگی کے بارے میں بدل چکی ہیں اِسی طرح روحانیت
کو بھی دوسرے معنوں میں لیا جانے لگا ہے بہت سارے نوجوان روحانیت کے بارے
میں جاننا چاہتے ہیں سیکھنا چاہتے ہیں روحانیت حاصل کر نے میں باطنی نور
اطمینان حاصل کر نا نہیں نہ ہی قلب و روح کے زنگ کو صاف کرنا نہ ہی جسمانی
کثافتوں کو لطافتوں میں بدلنا ہے اصل میں روحانیت کا مطلب ایسی عبادات
اشغال تزکیہ نفس مراقبہ جات ہیں جس پر عمل پیرا ہو کر طالب ظاہر و باطن کے
رزائل سے چھٹکارا پا کر بارگاہِ الہی میں کھڑا ہو سکے تا کہ اِسے طالب کے
شیشہ قلب پر انوار الہی کی تجلیات وارد ہوں طالب مشاہدے کی لذتوں سے ہمکنار
ہو کر قربِ الہی کی منزل کی طرف بڑھ سکے آج روحانیت پر جو رنگ چڑھ گئے ہیں
تصوف کے طالب موجودہ دور کی روشوں سے اضطراب کا شکا ر ہو چکے ہیں آج کا
انسان اقتدار شہرت دولت کے حصول کے لیے روحانیت کو ذریعہ بنا نا چاہتا ہے
جب کہ تاریخ انسانی کے ورق ورق پر غیو ر صوفیا کرام کے روشن تذکرے بھرے پڑے
ہیں جب حاکم وقت خود ننگے پاں چل کر اِن بو ریاں نشینوں کے پاس آئے ہاتھ
باند ھ کر درخواست کی جناب چیف جسٹس کا عہدہ قبول فرما کر ریاست پر احسان
عظیم فرمائیں لیکن کردار کے ہمالیہ جیسے اِن عظیم نفوس قدسیہ نے ہمیشہ ہی
انکار کیا کون بھو ل سکتا ہے امام ابو حنیفہ امام شافعی اور امام احمد بن
حنبل جن کے افکار پر اسلام کی عظیم سلطنت پوری توانائی سے کھڑی ہے حاکم وقت
نے ان سے جب کہا کہ عہدہ قبول فرمائیں اِن خاک نشینوں نے جب انکار کیا تو
ان پر کوڑے برسائے گئے انہیں جیلوں میں بند کر دیا گیا پھر جیل سے ہی اِن
کے جنازے نکلے اقتداراور چیف جسٹس کے عہدہ سے انکا ر پر سزا مل رہی ہے اور
یہ لے رہے ہیں کہ میں حکومت وقت کے برے اعمال کا حصہ دار نہیں بن سکتا
ہمیشہ انکار کیا ہر دور کے حقیقی صوفیا کا دامن لالچ حرص سے پاک رہا عہدے
انہی کے قدموں میں نچھاور کئے گئے وسیع و عریض جاگیروں کے پروانے اِن کو
پیش کئے گئے مراعات و وظائف کے کاغذ پیش کئے گئے ہیرے جوا ہرات کے ڈھیر لگا
دئیے گئے شاید اِن خاک نشینوں کی آنکھوں میں چمک آجائے سلطان وقت کی پیشکش
کو ٹھکرانے کی صورت میں بادشاہ کے عتاب سے ڈرایا بھی گیا للچایا گیا قریبی
دوستوں رشتہ داروں لاڈلے مریدوں کو درمیان میں لا کر منانے کی کو شش کی
گئیں لیکن بے نیازی کے یہ پہاڑ فقر کی غیرت نے انہیں کبھی بھی کسی چیز کی
طرف آمادہ نہ کیا بو ریا نشینوں نے گھاس لکڑی کے جھونپڑوں کو ایوان شاہی
ٹاٹ کی ٹوپی کو کلاہ خسروی پیوند لگے پرانے کھدر کی پو شین کو قبائے سلطانی
جو کے آٹے کو شاہی مرغن کھا نو ں پر ترجیح دی صدر نشینی پر بو ریا نشینی کو
ترجیح دی دنیا اقتدار کی غلام گردشوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر غیرت فقرکی
شان رکھی اِن بو ریا نشینی کی یہی کل متاع حیات تھی اقتدار شاہی اور بند
گان دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔ اِن کی بو سیدہ چٹائی کھدر کی پھٹی
پرانی ٹوپی مٹی کا لو ٹا پرانے دانوں کی تسبیح سلطانوں کے تخت و تاج سے
زیادہ اہم تھی یہی وہ نفوس ِ قدسیہ تھے جو خاک پر درویشوں کے درمیان بیٹھنا
پسند فرماتے تھے شاہی ایوانوں کے جھو لے پروٹوکول کے لشکروں کے درمیان اِن
کا سانس گھٹتا تھا مخلوق خدا کا درد سینے میں محسوس کرنے والے یہ درویش بے
نیاز کی دولت سے مالا مال تھے ہر دور کے با دشاہ وقت نے ننگے پا ں اِن کے
جھونپڑوں کے طواف تو بار بار کئے لیکن اِن خاک نشینوں نے کبھی بھو لے سے
بھی سلطان کے در پر دستک دے کر فقر بے نیازی کے رنگ کو پھیکا نہ کیا اِن کی
یہی بے نیازی اور خدائی بندگی تھی کہ دنیا پر ست علما جو اقتدار کے ایوانوں
کی خاک اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے رہے بادشاہوں کے اشارو ابرو پر ایمان و
ضمیر کے سودے کر تے رہے ظاہری طور پر تو ایسے علما سرکاری مرا عات اور
عہدوں کے لطف اٹھا تے رہے لیکن مخلوق کے دلوں کے تاجدار نہ بن سکے جو حقیقی
سلطانی اِن بو ریا نشینوں کو حاصل رہی ظاہری حکومت بادشاہا ن وقت کی رہی
لیکن دلوں کے تاجدار حقیقی حکمران یہی خاک نشین تھے جو کن فیکون کے مالک ہو
تے ہو ئے بھی خاک نشینی پر فخر کر تے رہے وہ کو نسا دور ہے وہ کو نسا زمانہ
ہے جب سلطانوں نے ہیرے جواہرات کے ڈھیر اِن خاک نشینوں کے قدموں میں نہیں
لگا ئے سرمایہ داروں نے اِن کے قدموں کی خاک کو چاٹا نواب اور جاگیردار اِن
کی چوکھٹوں پر ما تھے رگڑتے رہے مہا راجوں کی زبانیں التجاں سے خشک ہو گئیں
وسیع و عریض جاگیروں کے نواب بھکاریوں کی طرح اِن کے در پر پڑے رہے ہر دور
کے امرا جاگیرداروں سلطانوں نوابوں نے اِنہیں نذر دینی چاہی عہدے پیش کر نے
چاہے وظیفے ہدئیے جاگیر منصب کیا نہیں دینا چاہا لیکن غیرت فقر کے حقیقی
محافظ دنیا کی اِن غلاظتوں سے دور ہی رہے اقتدار کی راہداریوں کے مزے کون
نہیں لو ٹنا چاہتا لیکن جب سلطان نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کو نیم روز
کی گورنری پیش کی تو آپ نے قبول کر نے سے انکار کر دیا ۔ایک بار والی نا
گور نے شیخ حمید الدین ناگوری کو شاہ وقت کی طرف سے زمین اور نقد روپیہ پیش
کیا اور ساتھ قبو ل کر نے کی درخواست بھی درویش وقت نے جواب دیا ہمارے خوا
جگان میں سے کسی نے ایسی چیز کوکبھی قبول نہیں کیاایک بیگھہ زمین جو میرے
پاس ہے میرے لیے کا فی ہے حضر ت مر زا جان جاناں کے بارے میں آتا ہے کسی
رئیس نے ایک حویلی خانقاہ تیار کر کے وظیفہ مقرر کر کے آپ کی خدمت میں
درخواست کی آپ نے فرمایا چھوڑ جانے کے لیے اپنا اور بیگانہ مکان برابر ہیں
ایک دن سخت گر می میں پرا نی چادر میں لیٹے نواب فیروز جنگ نے دیکھا تو
آنسو آگئے اور بو لے ہم گنا ہ گاروں کی بد قسمتی دیکھیں وہ بزرگ جن کے ہم
مرید ہیں وہ ہما ری نیاز قبول نہیں کر تے تو درویش بو لا فقیر نے روزہ رکھا
ہوا ہے کہ امیروں کی نیاز قبول نہ کروں گا اب جب کہ آفتاب غروب ہو نے کے
قریب پہنچ گیا ہے میں اپنا روزہ کیوں توڑ دوں ۔ ایک دفعہ نواب نظام الملک
نے تیس ہزار بطور نیاز پیش کیا آپ نے حسب عادت قبو ل نہ فرمایا تو نواب بو
لے آپ لے کر راہِ خدا میں فقیروں کوبانٹ دیں رنگ جلال آیا تو فقیر بو لا
میں تمہارا خانساماں ہوں ؟یہاں سے تقسیم کر نا شروع کر دو گھر پہنچنے تک
ختم ہو جائیں گے ۔ یہ تھے اہل روحانیت جن کے ابرو چشم پر لاکھوں لوگ ایمان
کے رنگ میں رنگے گئے تھے ۔
|