لوک ادب میں ٹپہ

(Naeema Bibi, )

ٹپہ پنجاب کا مشہور صنف گیت ہے۔ جس کے دو مصرعے ہوتے ہیں ۔اسے پنجاب کی دو بولی صنف بھی کہہ سکتے ہیں ۔ پہلا مصرع دوسرے مصرعے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ پہلا مصرع عموماً ٹپے میں ایک ردھم اور سر لانے کے لیے دوسرے مصرعے سے جوڑا جاتا ہے۔ پہلا مصرع بے معنی اور چھوٹا ہوتا ہے۔ دوسرا مصرع طویل ہوتا ہے ۔ جس میں اصل بات کہی جاتی ہے ۔دوسرے مصرع میں ٹپہ کا اصل موضوع موجود ہوتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ٹپہ کے دو مصرعوں میں پہلا محض تک بندی ہے جبکہ دوسرے مصرع میں اصل جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے ۔

ٹپے ماہیے گانے کی روایت اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا انسان ہے۔البتہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان ٹپوں میں کچھ نہ کچھ ترمیم و اضافہ ضرور دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ٹپہ پورے پنجاب میں گایا جاتا ہے۔یہ صرف ایک علاقے سے مخصوص نہیں ہے۔ پاکستان کی تقریباً سبھی مقامی زبانوں میں ٹپے گائے جاتے ہیں۔بس قدر مشترک یہ ہے کہ ان ٹپوں کو اپنے لہجوں کے مطابق ڈھال کر ان میں دکھ درد سمویا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں میں ان ٹپوں کے موضوعات میں تنوع ہو سکتا ہے۔ نیز ان ٹپوں کے مفاہیم بھی جدا ہو سکتے ہیں۔ان ٹپوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ پورے پنجاب میں گائے جانےوالی مشترک صنف ہے ۔ جس کے لہجے جدا ہیں۔

ٹپےکا ایک ثقافتی ، تہذیبی اور معاشرتی پس منظر ہے ۔ٹپے کی ابتدا کیسے ہوئی یہ کہنا تو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ٹپے کا موجد وہ دیہاتی عورتیں ہیں جنھوں نے تمام عمر ہجر و فراق کے دکھ جھیلے اور اس دوران ان کی فہم و ذکا والی حس نے انھیں ٹپہ کہنے پر مجبور کیا اور یوں وہ گھروں کے چھوٹے تہواروں پر ٹپے گانے لگیں۔ اس طرح یہ صنف وجود میں آئی۔
مختلف زبانوں میں جو ٹپے گائے جاتے ہیں ان کی ابتدا مذہبی عقائد سے کی جاتی ہے ۔ مثلاً
اللہ میری بیلی ، مرشد راکھا ڈھولا
یا پھر
کھلیا کعبہ چھٹیا آسن حجاں نیا
اللہ بلاسی عرضا سنڑسی سبھا نی آ

پھر اگلے ٹپوں میں اپنے پیر و مرشد کی کرامات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔جن کا مقصد اپنے مرشد کی خصوصی توجہ حاصل کرنا ہے۔پیروں فقیروں کے لیے گائے جانے والے ٹپے اس بات کے غماز ہیں کہ یہ پیر فقیر ہی دراصل حاجت روا ہیں ۔
سپ چڑھ گیا کیلے تے
آ ماہی نال جلا پیرا ں نے میلے تے

گاؤں کے رہنے والے عموماًکمزور عقائد کے معصوم لوگ ہوتے ہیں ۔ جو آسانی سے پیروں ، فقیروں کے چکروں میں رہتے ہیں۔ عورتیں اس معاملے میں انتہائی کم زور عقیدہ ہوتی ہیں ۔ لہٰذا ان کی زبان میں پیر و فقیر کو مرشد تسلیم کرنا اور انھیں حاجت روا ماننے کے ساتھ ساتھ ان سے بہت سی منتیں مرادیں بھی مانگی جاتی ہیں۔جن کا مقصد ان بزرگ ہستیوں سے جن کے بارے میں طرح طرح کے واقعات منسوب ہیں ۔ ان سے اپنی مرادوں کا حصول ہے۔چناں چہ ان ٹپوں میں بھی ایسی زبان روا رکھی جاتی ہے جس میں واشگاف الفاظ میں پیروں فقیروں سے اپنی حاجت طلب کی جاتی ہے۔
مرشد پیر بخاری
جس مینڈی ڈبی ہوئی بیڑی تاری
یا پھر
مرشد او ہا بنڑایا
جس آخر نا پارا چایا
ان ٹپوں کا دوسرا بڑا موضوع محبوب کے ہجر و فراق یا پھر محبوب سے وصل کے لمحات کی تفصیل بیان کرنا ہے۔جن کو ان ٹپوں میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔مثلاً
کوئی نلکے بور ہو گئے
تھوڑے جئے دن گزرے رنگ سنجڑا نے ہور ہو گئے
2۔کوئی سمینٹ کھوہ کیتا
ہک تیرے بتے پچھے اسا دیوانہ روح کیتا

ان ٹپوں کے پہلے مصرعے عموماًفطرتی اشیا ہیں جن کی وجہ سے نیچر کو ان ٹپوں میں خاص مقام حاصل ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھیے۔
کوئی موسم برفاں دے
مار مکا دیندے لگے تیر بے ترسا دے
2۔کوئی بمل مکئی ہوسی
کملے ڈھولے آ گل یاد نہ رہی ہوسی
3۔کوئی ساوے سر بیلے
دلا تیرا کی گمیا خفا رہنا اے ہر ویلے

ان ٹپوں کے پہلے مصرعے فطرت سے تعلق استوار کرتے ہیں جب کہ دوسرے مصرعے ایک خاص قسم کی اداسیاور غم کی کیفیت کو ظاہر کرتےہیں۔اگرچہ یہ ٹپے شادی بیاہ کے تہوارمیں گائے جاتے ہیں مگر اداسی اور حزن و یاس ان کی تخصیص ہے۔ان ٹپوں میں دیہات کی خالص فضا ملتی ہے۔ٹپوں کا آغاز جینا رہوے تو ماہیا،چن ماہی سجنڑ،چٹے چنے نی چانڑی،چھلا مینڈا جی ڈھولا اور اس طرح کے دوسرے کئی جملوں سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ ٹپےکسی ایک لڑی کے اندر گائے جاتے ہیں۔ لڑی کوئی بھی گیت کی صورت ہوتی ہے جس کو ہر نیا ٹپہ گانے کے بعد دوہرایا جاتا ہے جیسے اردو میں ٹیپ کے شعر ہوتے ہیں ۔ اس طرح یہ لڑیاں ہوتی ہیں ۔

یہ ٹپے دیہاتی عورتوں کی نفسیات اور عقائد کے آئینہ دار ہیں ۔یہ ٹپے ماہیے جو عام طور پر شادیوں ، ختنوں کی تقریبات یا پھر خوشی کے کسی بھی موقع پر گائے جاتے ہیں ۔یہ ایک عہد کی دستاویز بن جاتےہیں۔اگر ان ٹپوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو عورتوں کی نفسیاتی اور ذہنی ارتقا کی تاریخ بھی سامنے آتی ہے۔یہ ٹپے الفاظ اور بیانیہ میں بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان کے مطالعے سے ایک خاص خطے کے انسانوں کی سوچ ، خوشی،خوف ، مراد، مقصد ، کامیابی، ناکامی اور ان کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ ٹپے مزید اس حوالے سے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر
بوا مار کے وتھ کیتی
تو کی شے ماہیا تقدیرا چھک کیتی
2۔کوئی آٹے جندراں دے
ٹپے او گانے جیہڑے سڑے ہوئے اندرا دے
3۔کوئی لیلا کابل نا
سدو آبار رہوے جھگا میرے بابل نا
4۔پھل پاواں میں چنیا تے
شالا منڈے پرا جیون منڈا ایہا کج دنیا تے
5۔میرے بوہے اگے ڈنگ بیری
بودی ویرے نی کنڈلا وچ جند میری

ان ٹپوں میں رسم و رواج اور ثقافت بھی موجود ہے۔بہن کا بھائی سے پیار کا اظہار،ماں کا بیٹے سے لاڈ دلار کرنا، بیٹی کا بابل کو دعا دینا، اور بیوی کا شوہر سے اظہار الفت ، سب کچھ ہی ان ٹپوں میں موجود ہے-ان ٹپوں کے موضوعات میں بزرگان دین سے والہانہ عقیدت ، حسن و عشق ، بچوں کی درازئ عمر ، اپنے بچوں کی خوبصورتی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ، شادی کے حوالے سے خصوصی ٹپے اور کئی دوسرے پہلو شامل ہیں۔جو زندگی کی خوبصورتی اور رعنائیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

یہ ٹپے عورتیں خود بناتی ہیں اور وزن و قافیے کی قید سے کسی حد تک آزاد ہوتے ہیں۔ ان کے سر اور سرگم بھی پورے نہیں ہوتے۔ لیکن جب کسی تہوار پر یہ ٹپے گائے جاتے ہیں تو عورتیں ان کو گاتے وقت ایسا مدھر رسیلا لہجہ اپناتی ہیں کہ ٹپوں کی عروضی کیفیت اور بے وزنی کا اندازہ بالکل نہیں ہوتا۔ٹپوں کے ان اوزان میں کمی بیشی تو ہوتی رہتی ہےکیونکہ عورتیں اپنے حساب سے سر لگانے کے لیے ٹپے میں الفاظ کی کمی بیشی کرتی رہتی ہیں۔ مثلاً
میں ملینڑ ریت آئی آ
دکھا مجبور کیتا کن سنجڑا نی ٹیک آئی آ
2۔ کسی ہوٹل تو چاہ پیتی
تیرے میرے پیار اتے لوکاں بری نگاہ کیتی
3۔پانڑی چول سمندرا نا
نما نما رو اکھیے یہ رونڑا سارری عمرا نا
4۔ کوئی شربت لال ہونے
دکھیا نوں نہ چھیڑو دکھی کچ نی مثال ہونے

اگر ان ٹپوں کو فکری اور موضوعاتی تنوع سے ہٹ کر دیکھا جائے تو فنی طور پر یہ ٹپے اردو اور عربی عروض کے اصولوں پر پورا نہیں اترتے۔ تاہم ان کی تقطیع عمومی طور پر فعلن فعل مفاعیلن یا پھر فعلن فعلن فعلن کے وزن پر کہیں کہیں پورا اتر جاتی ہے۔پنجابی کے چھندا بندی عروض کے مطابق یہ ٹپے وزن میں شمار کیے جاتے ہیں۔

راقم الحروف کا تعلق اٹک سے ہے اس لیے ان ٹپوں کی معلومات براہ راست حاصل کی گئی ہیں۔ان ٹپوں کی کئی ویڈیوز اور آڈیوز ریکارڈنگ کی صورت میں میرے پاس محفوظ ہیں ۔ مگر ان تمام ٹپوں کو ایک مقالے میں یکجا نہیں کیا جا سکتا اس مقالے میں ہر موضوع پر بس ایک ٹپہ ہی مختص کیا گیا ہے تاکہ ان کی موضوعاتی اور معنوی جہات کو واضح کیا جا سکے۔(یاد رہے ہر موضوع پر بے شمار ٹپے موجود ہیں)۔
لوک گیت کا مصنف ہمیشہ گم نام رہتا ہے اس لیے ان ٹپوں کی تحفیظ میں بہت سے مسائل ہیں ۔حالانکہ ان ٹپوں کی تحفیظ بہت ضروری ہےاسے ایک تو زبان کی تحفیظ بھی ممکن ہو گی اور دوسرےان ٹپوں کو محفوظ کرنے سے ایک ثقافتی اور سماجی اظہار بیانیہ محفوظ رہ سکے گا ۔ ان ٹپوں کی تحفیظ میں جو چند مسائل ہیں ان میں سب سے پہلے تو یہ مسئلہ ہے کہ یہ ٹپے تحریری صورت میں موجود نہیں دوم ان کو عورتوں کو منسوب کرنے کی بنیاد پر بھی کوئی ان ٹپوں کو تحریر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ سوم ادبی ناقدین دیگر لوک ادب کی طرح اس صنف کوبھی قابل اعتنا نہیں سمجھتے ۔ بلکہ لوک گیت کو بعض اوقات زبان بازاری گیت کہہ کر بھی مسترد کر دیا جاتا ہے ۔ ایک خاص ثقافتی تناظر میں ان ٹپوں کی معنویت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ یہ ٹپے اپنے موضوعات کے تنوع کی بدولت ایک خاص جذبے کی پیداوار کا سبب بنتے ہیں۔اس بنا پر ان ٹپوں کی تحفیظ ضروری ہے۔

ان ٹپوں کی تحفیظ کا ایک ممکنہ حل انھیں تحریر ی صورت میں یکجا کرنا ہے۔دوسرا ممکنہ حل یہ ہے کہ آج کل ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت ہر گھر میں موبائل جیسی سہولت میسر ہے۔ جن میں ان ٹپوں کو ویڈیو اور آڈیو کی صورت محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ہر چند کہ یہ آسان کام نہیں ۔ عمومی طور پر دیہاتی عورتیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ جب وہ گا رہی ہوں توانھیں ریکارڈ کیا جائے تاہم جہاں کہیں ریکارڈنگ کی سہولت میسر ہو سکتی ہے ۔ مثلاًمردوں کے گائے گئے ٹپے آسانی سے ریکارڈ کیے جا سکتے ہیں۔تو انھیں ریکارڈ کر لینا چایئے۔ نیز ان تمام ٹپوں کو ترجمے کے ذریعے باقی دنیا سے متعارف کرایا جا سکتا ہے۔


 

Naeema Bibi
About the Author: Naeema Bibi Read More Articles by Naeema Bibi: 11 Articles with 20083 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.